بین مذاہبی مذاکرات میں دینی مدارس کا کردار
دینی مدارس کے تناظر میں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا بین مذاہبی مذاکرات انٹرفیتھ ڈائلاگ میں مدارس کوئی رول ادا کرسکتے ہیں؟ ہندستان جیسے ملک میں جہاں بد قسمتی سے مذہب مدتوں سے سیاست کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ بین مذاہبی مذاکرات کی ضرورت ہر ہوش مند ودوربیں شخص پر واضح ہے۔ عملی سطح پر یہ کام حقیقت میں شروع نہیں ہوسکا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کے مخصوص مسئلے میں اور جمعیة علما ہند نے اس جانب پہل کی تھی اور ملک کی شدت پسند تنظیموں کے ارکان کے ساتھ مل بیٹھنے کی راہیں نکال لی تھیں۔ لیکن اس سے مسلم حلقوں میں بے چینی اور تشویش کا ماحول پیدا ہوگیا۔ حالاں کہ یہ تشویش قطعا غیر ضروری تھی ۔حقیقت میں یہ ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں ایک ضروری قدم تھا ۔یہ دونوں ملک کے مسلمانوں کی موقر اور نمائندہ تنظیمیں ہیں ان کا اعتبار کیا جانا چاہئے تھا لیکن بنیادی طور پر قومی سیاست میں ان کی زیادہ بڑھی ہوئی شرکت کی وجہ سے ان کے خلاف بے اعتباری کا ماحول پیدا ہوگیا۔ اسی طرح اپریل۲۰۰۵ میں انسٹی ٹیوٹ آف اوبجکٹو اسٹڈیز (نئی دہلی)کی طرف سے بین مذاہبی مذاکرات پر سہ روزہ سیمینار کا انعقاد ایک خوش گوار اور رجحان ساز پہل تھی ۔ اس میں یہ بات واضح طور پرسامنے آئی تھی کہ ہندستان اپنی مختلف خصوصیات و امتیازات کی بنا پر ڈائلاگ کے نظریے کو عملی سطح پر برتنے اور فروغ دینے کی نہایت کامیاب تجربہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے تاہم سیمینار سے متعلق سامنے آنے والے تاثرات میں اس کی مخالفت بھی شامل تھی۔ اور اس مخالفت میں علما اور فضلاے مدارس پیش پیش تھے۔
ہندوستان میں دینی مدارس کو وقار واعتماد کے ساتھ ملک گیر سطح پر جو پھیلاو اور ہمہ گیری حاصل ہے، اس کے پیش نظر اگر اس کام کو دینی مدارس کے پلیٹ فارم سے انجام دینے کی کوشش کی جائے تو ایک طرف اسے عوامی سطح پر معتبریت بھی حاصل رہے گی اور دوسری طرف اس کے اثرات بھی غیر محدود اور وسیع ہوں گے۔ نیزہندستان کے مخصوص ماحول میںجیسا کہ اوپر اس کی طرف اشارہ کیا گیا، مذہب کا اصولی مطالعہ رکھنے والے علما ہی صحیح معنوں میں اس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔
دراصل اس وقت اسلام کے لےے حقیقی معنوں میں سب سے بڑا چیلنج عالمی سطح پر اس کی شبیہ کا خراب ہونا ہے۔ اس بحث کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ کیوں کہ بدنامی بہر حال حقیقت واقعہ ہے ۔اوریہ تسلیم یا فرض کر لینے کے با جود بھی کہ یہ سراسر دشمنوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے ، اس کی خطرناکی میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی۔ اس لےے، نیز ایک داعی قوم کی حیثیت سے، مسلمانوں کا ہی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ یک طرفہ طور پرصورت حال کو بدلنے کے لئے پیش قدمی کریں۔
دوسری طرف مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کے سد باب کے لئے مذاکرات کا طریقہ ہی سب سے زیادہ موثر اورنتیجہ خیز ہو سکتا ہے مدارس کو بدنام کر نے میں بنیادی طور مذہب پسندی کی شناخت رکھنے والے شدت پسند طبقات کا ہا تھ زیادہ ہے ۔ ان کے مقابلے میں گفت و شنید کے لئے مذہب پسند اور اسلام کی پاسبانی کرنے والے طبقات کو ہی سامنے آنا چائے۔
مارچ ۲۰۰۳ء میں دہلی میں وشو ہندو پریشد کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں شدت پسند ہندوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ خبر کے مطابق (دی ہندو ۲ ۴فروری ۲۰۰۳ء) اس میں وی ایچ پی کی طرف سے حاضرین کے درمیان قرآن کریم کے نسخے تقسیم کےے گئے۔ اس کا مقصد وی ایچ پی والوں کی نظر میں یہ تھا کہ لوگ خود قرآن کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ قرآن دوسری قوموں کے تئیں تشدد ونفرت اور قتل وقتال کی تعلیمات پر مشتمل ہے یا نہیں ؟ علما اور اہل مدارس کے لےے یہ زبردست موقع تھا کہ وہ ڈائلاگ کے ذریعے قرآن کی حقیقت کو ان کے سامنے واضح کرنے کوشش کریں کیوں کہ جہاں تک تحریری وضاحت کا معاملہ ہے ، قرآن کی ان۲۴آیات سے متعلق جن پر ہندﺅں کے شدت پسند حلقے کو اعتراض ہے ، مضامین اور کتابچوں کی شکل میں کافی چیزیں شائع ہو چکی ہیں۔ کچھ دنوں قبل خود دیوبند کے کچھ شرپسندوں نے دارالعلوم دیوبند کا پتلا پھونکنے کا اشتعال انگیز اقدام کیا۔ اس کا مقصد فساد پھیلانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں یا بہی خواہوں کی جانب سے اس تعلق سے یہ کوشش کی جا سکتی تھی کہ متعلق شر انگیز گروپ کے لیڈروں سے خوداپنی پہل پر پر امن اور دوستانہ ماحول میںگفت وشنید کریں ۔براہ راست ان کے ذہنوں کو پڑھیں اوران کے اندر رچی بسی یا بسائی گئی غلط فہمیوں کودور کرنے کی کوشش کریں بسا اوقات کسی مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش اس کو اور بگاڑ دیتی ہے۔ ماضی میں مسلم حکم رانوں نے ہمیشہ تصادم کی بجائے تفہیم اور دل جوئی کا طریقہ اپنایا۔ یہی صدیوں ان کی حکومت کی بقا اور شان و شوکت کا راز تھا ۔ تالیف قلب رسول اللہ کی سنت رہی ہے ۔اور اسلامی تاریخ ا س کی مثالوں سے پر ہے۔مدارس کو سیاست کی بھول بھلیوں سے بچتے ہوئے اسلام کی دینی وسیاسی تاریخ کی انھی مثالوں کو نقوش راہ بنانا چاہئے۔
مدارس میں طلبہ کو مذہبی اور مسلکی دونوں سطحوں پرسنجیدہ مذاکرات کی تربیت دی جانی چاہےے یہاں اب تک اس کی بجائے مناظرے اور مجادلے کا طریقہ رائج رہا ہے جو عہد وسطی کے مخصوص ماحول کی پیدا وار ہے۔ اسے یہاں ایک مستقل فن کا درجہ حاصل ہے ۔ پچھلی کئی صدیوں کے دورانیے میں اس فن میں سینکڑوں کتابیں وجود میں آئیں جن کا بڑا حصہ اب مدارس کے مکتبات کی زینت ہے ا ور عمل اور ضرورت کی دنیا میں ان سے استفادہ محدود تر ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ طریقہ اپنا کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے میں تقریباً ناکام ہے۔ کیوں کہ اس طریقے میں اصل زور لفظی کلامیات پر ہوتا ہے جس کے پس پشت صرف فریق ثانی کو فراروشکست کی راہ دکھانے اور مجلس لوٹ لینے کی ذہنیت کار فرما ہوتی ہے۔ اس سے فریق ثانی کے اندر وقتی طور پر خفت وخجالت ضرور پیدا ہوجاتی ہے تاہم محاسبہ نفس اور عقلی سطح پراپنے فکری وعملی نظریات اور رویوں پر نظرثانی کا مزاج پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے تحت دونوں فریقوں میں دوریوں کا تناسب مزید بڑھ جاتا ہے اور ان کے درمیان نفرت وتعصب کی دیوار حائل ہوجاتی ہے۔
مناظرے کی جگہ مذاکرے کا طریقہ سنجیدہ اور فطری طریقہ ہے۔ اس میں ہر فریق کو مکمل طور پر دوسرے فریق کے سامنے اپنی بات کو بے کم وکاست انداز میں رکھنے اور دوسرے فریق کے ذہن کو ٹٹول کر اس بنیاد کو جاننے کا موقع ملتا ہے جس پر غلط فہمی اور اس سے پیدا ہونے والی نفرت وکشیدگی قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخری اور مکمل دین کے حامل ہونے کے اعتبار سے، جس کی تبلیغ واشاعت کی ذمہ داری مسلمانوں کے شانوں پر ڈالی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کا ہی فریضہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں پہل کرکے اس نفرت وکشیدگی کی جڑوں کو دریافت کرنے اور اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ جڑیں مزید مضبوط ہوتی اور پھیلتی رہتی ہیں تو اس کا نقصان اسلامی اور دعوتی اکٹوزم کے غیر موثر یا ٹھپ ہوجانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔
دینی مدارس دین کا قلعہ ہیں۔ لیکن انھیں اپنی سرگرمیوں کوقلعہ بند کرنے کی مطلقا ضرورت نہیں ہے۔ مذاکرات کے خطوط پر کا م کرنے کے تعلق سے مدارس کے طلبہ وفضلااور مدرسین ومنتظمین کا اسکول اور جامعات کے طلبہ کے ساتھ میل جول ضروری ہے۔ اس کے لےے اسپورٹس،مختلف مضامین جیسے: مضمون نویسی، شعروشاعری ،جنرل نالج وغیرہ کے علمی مقابلے اہم وسیلہ بن سکتے ہیں۔ مدارس کو آگے بڑھ کرباضابطہ مذاکرات کے مقصد سے عصری تعلیم گاہوں کے منتخب افراد کواپنے یہاں مدعو کرنا چاہےے۔مدارس کے خلاف موجودہ ہاﺅ ہوکے ماحول نے عصری تعلیم گاہوں میںپڑھنے اور پڑھانے والوں کے ذہنوںمیں مدارس کے طلبہ و اساتذہ کے تعلق سے بہت سی بے بنیاد باتیں بٹھادی ہیں۔
بین مذاہبی مذاکرات کے اس عمل میں دینی مدارس کی شرکت کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سماجی مطالعے کوخصوصیت کے ساتھ نصاب درس میں شامل کیا جائے۔ مدارس کی موجودہ داخلیت پسندی اور فضلاے مدارس کی شعبہاے حیات کے لازمی تقاضوںسے بے خبری ،جس نے ان کے درمیان تقریبا خود ساختہ ذہنی ناپختگی کی عمومی فضا پیدا کردی ہے، کا مداوا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے دوسری اہم چیز مذاہب کاتقابلی مطالعہ ہے ۔ اس موضوع پر اسلامی مکتبات میں کتابوں کی کمی نہیں ہے۔ تاہم ان میں اکثر کتابیں وہ ہیں جو صدیوں قبل لکھی گئی تھیں جےسے ابن حزم، عبدالکریم شہرستانی، علامہ ابن تیمیہ،ابن قیم جوزی وغیرہ کی کتابیں۔ان کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ خصوصا پچھلی دو صدیوں میں دنیا کا سماجی، سیاسی اور ذہنی ڈھانچہ انقلابی تغیرات سے دوچار ہوچکا ہے۔ مغرب میںجدید نظریات : کمیونزم، سرمایہ داری ،سیکولر لبرلزم ،ماڈرنزم ، پوسٹ ماڈرنزم اوروجودیت وغیرہ نے باضابطہ مذاہب کی شکل اختیار کر لی ہے۔جدید انداز میں ڈائلاگ کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لےے ان نظریات کاتفصیلی مطالعہ اور ان سے واقفیت ضروری ہے۔ ہندستان جیسے ملک میں بھی ایک بڑا الٹرا سیکولر طبقہ انھی نظریات کو اپنا مذہب تصور کرتاہے۔ البتہ عوام الناس کی اکثریت اورتعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعدادروایتی مذہبی ڈھانچے پر اعتقاد یا اس سے انسیت رکھتی ہے۔ اس لےے یہاں خاص طور پر دونوں سطح پر مطالعے اور واقفیت کی ضرورت ہے۔ یونی ورسٹی کے اسلامی اسٹڈیز کی نصاب میں اس قبیل کی کچھ چیزیں شامل ہیں۔ لیکن یونی ورسٹی کا مجموعی ماحول ایک بامقصد ذہن اور نتیجہ رخی فضا پیدا کرنے سے قاصر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دینی مدارس کوملک کی مخالف فضا کو اپنی موافقت میں کر نے کے لئے ڈائلاگ کا راستہ اختیار کرنا چاہےے۔ اہل مدارس کو خود اس کے لےے پیش قدمی کرنی چاہےے اور ہر ایسی پیش رفت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے بھرپور تعاون دینا چاہئے۔ مدارس کا شعار: میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے، ہے۔ اس کی عملی تشکیل کا اہم وسیلہ یہی ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت کے خاتمے اوررواداری کے فروغ کے لےے ضروری ہے کہ ملک کے مسلم وغیرمسلم حلقوں کے مابین ڈائلاگ کلچرشروع ہو۔حقیقت یہ ہے دینی مدارس اس میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔