خواتین کی سماجی سرگرمیاں اور ہمارا مذہبی رویہ
موجودہ دور میں خواتین کی آزادی کا مسئلہ چند ان اہم مسائل میں سے ایک ہے، جن پر علمی حلقوں میں زبردست بحثیں جاری ہیں۔ اس میں روایت پسند علماودین دار اورجدیدتعلیم یافتہ حضرات ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہے۔علماپوری طرح اس بات کے حق میں ہےں کہ معاشرے کو بے حیائی اور جنسی آوارگی سے محفوظ رکھنے کے لےے خواتین پر زیادہ سے زیادہ پابندی عائد کی جائے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ خانہ نشین بنانے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے روایتی علما کی نظر میں خواتین گھر کی مملکت کی ’رانی‘ ہیں۔ انھیں اس پر راج کرتے ہوئے باہر کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہےے، جو مردوں کے دائرہ کارمیں آتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے فساد پھیلتا اور معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ معاشرے کی بہت سی چھوٹی بڑی خرابیوں کوعلما عورتوں کی اسی ’بے راہ روی‘ سے جوڑ کر دیکھتے ہےں۔ جب کہ جدید دتعلیم کا حامل بڑا طبقہ حجاب کو بھی عورتوں پر ظلم تصور کرتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ عورتوں کی شخصیت بہت حساس ہے اور سماج کی خوبی اور خرابی کا بہت کچھ دار و مدار عورتوں پر ہے۔ ظاہر ہے وہ سماج کا ایک بہت بڑا حصہ بلکہ اس کے دو بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورتوں سے متعلق ہمارا رویہ دین و شریعت کی روح سے ماخوذ و متاثر کم اور موجودہ دور کے مظاہر سے متاثر زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے تعلق سے اس وقت روایتی اسلامی حلقوں میں جو تصور پایا جاتا ہے، اس پورے تصور پر یہ بات صادق آتی ہے کہ اس کو قرآن وسنت اور اسلامی روایت سے کم اور ”دوسروں “کے اس غلط طرزِ عمل سے زیادہ ثابت کیا جاسکتا ہے جس کواس تصور کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تہذیبی تناظر میں یہ ”دوسرا“ مغربی دنیا ہے ۔مغرب میں عورتوں کو جس طرح پروجیکٹ کیا گیا۔ آزادی اور مساوات کے عنوان سے انہیں جس طرح جنس بازار بنانے کی کوشش کی گئی اور اس کے جو افسوس ناک نتائج سامنے آئے، اس نے مسلمانوں کے طبقہ علما کو حد سے زیادہ حساس اور احتیاط پسند بنادیا۔عورت کی غیر فطری آزادی کے ردعمل میں ان کے اندر عورتوں کوگھر کی چہار دیواری میں قید کرنے اوران پر زیادہ سے زیادہ پابندیا ں عائد کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس کے وقتی فائدے ضرور ے ہوئے لیکن اس کا ناقابل تلافی نقصان یہ ہوا کہ مسلم معاشرہ اپنی آبادی کی ایک بڑی تعدا د کی انمول صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوگیا۔
خالص روایتی علما کی تو کیابات؟روشن خیال اسلامی طبقے کے نمائندہ عالم مولانا مودودی رحمة اللہ کی کتاب ”پردہ“ کوسامنے رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ جو شدت ان کے یہاں اس تعلق سے پائی جاتی ہے متقدمین علما میں نہیں تھی۔ چاروں ائمہ سمیت متقدمین علما عورتوں کو چہرہ کھولنے کی اجازت دیتے تھے لیکن موجودہ دور کے علما نے یہ اجازت ختم کردی۔جس کی دلیل ان کی نظر میںیہ تھی کہ اصلا چہرہ ہی مرکزحسن اور اس طرح منبع فتنہ ہے حالاں کہ متقدمین علما،فقہا اور محدثین کی اکثریت، جو حصول خیر کے مقابلے میںدفع شر کے اصول پرسختی کے ساتھ عمل پیرا تھی ،اس نے اس دلیل کوقابل توجہ نہیں سمجھا۔مولانا اشرف علیتھانوی کی حساسیت کی انتہا یہ ہے کہ وہ عورتوں کے اخبار میں نام تک چھپنے کو معصیت تصور کرتے ہیں ان کا آئڈیل یہ ہے کہ عورت اس طرح گھر میںچھپی اودر بند ہو کہ پڑوس کو یہ معلوم بھی نہ ہوسکے کہ اس گھر میں عوت ہے۔ تعلیم کے تعلق سے وہ ابتدائی لٹریسی سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔مولا نااحمد رضا خان کے فتاوی میں عورتوں پرپابندی سے آگے بڑھکران کے تعلق سے جس تصغیر و تحقیر کارویہ اختیار کیا گیا ہے اس کی مثالیں ارون شوری کی ”ورلڈ آف فتواز“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ عورت کی آواز کے پردہ ہونے (صوت المرءة عورة) جیسا بالکل غلط اور مضحکہ خیز نظریہ تک دینی حلقوں میں مقبول ہوگیا۔ مستند اسلامی لٹریچر اور اسلام کے عہدِ زریں کا مطالعہ بالکل ایک دوسری تصویر پیش کرتا ہے۔
تاریخی طور پر عورتوں کے تعلق سے اس صورت حال کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عالمِ اسلام پر تاتاری حملے کے بعدسیاسی وسماجی سطح پرمسلمانوںکے اندرجوانتشار وپراگندگی کی کیفیت پیدا ہوئی اس کے نتیجے مسلمانوں میں یہی نفسیات پیدا ہوگئی تھی۔اس وقت یہ بحث تھی کہ عور توں کو لکھنا سکھانا جائز ہے یا نہیں۔ ملا علی قاری جیسے فقیہ عالم و محدث نے عورتوں کو لکھنا سیکھنے کے ممنوع ہونے کا نہ صرف فتوی دیا بلکہ اس کی ممانعت میں باضابطہ کتاب لکھی۔تقریبا چھ سو سالوں تک دینی حلقوں میں یہ بحث جاری رہی کہ عورتوں کو پڑھانے کے علاوہ لکھنا سکھانے کی بھی اجازت حاصل ہے یا نہیں اس فتوے کی منسوخی کی اور عورت کے لےے لکھنا سیکھنے کی اجازت کا باضابطہ فتوی انیسویں صدی میں مولانا عبدالحی فرنگی محلی نے دیا اور اس طرح گویا ’شرعی‘ طور پرعورتوں کو لکھنا سیکھنے کی اجازت حاصل ہوئی(منصورخالد:دینی مدارس میں تعلیم ص:۲۱۶۔۲۱۹ بحوالہ:پروفیسر محمد سلیم :دینی مدارس کے لےے نصاب نو کی تجاویز ص:۴۳،۴۴)۔
اسلام نہ تو مغربی فریم ورک میں عورتوں کی آزادی) emancipation) کاقائل ہے اور نہ ہی مشرقی طرزعمل کے مطابق قیدو بندemprisenmnt))کا۔ا سلام کا صحیح رویہ ان دونوں انتہاﺅں کے درمیان مخصوص حدود وشرائط کے ساتھ عورتوںکوسماجی سطح پر آزادی دینے کا ہے۔اصولی سطح پر قرآن وحدیث کی نصوص اور عملی سطح پرعہدنبوی اورعہد خلافت راشدہ کی روشنی میںدیکھا جائے تواندازہ ہوگا کہ اسلام میںسماجی سطح پر عورتوں کے تحرک پر کوئی پابندی عائدنہیں کی گئی ۔ سماجی سطح پر ان کا رول متعین کیا گیا تھا اور وہ اس رول کو انجام دیتی تھیں ۔غور کیا جا سکتا ہے کہحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت شفا بنت عبداللہ العدویہ کوبازار کا نگراں یا محتسب بنایا تھا،آج کے تصور کے مطابق ،عورت کے لےے سب سے بڑی فتنے کی جگہ بازار ہے۔عورتیں مسجدوں ،عیدگاہوں میں جاتیں ،جنگوں کے موقعوںپر اپنی صلاحیت کے مطابق خدمات انجام دیتیں۔ بغیر کسی رکاوٹ کے رسول اللہ کی مجلسوںمیں مردوںکی موجوگی میں شریک ہوتیں اور آپ سے مسائل معلوم کرتی تھیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی اسما گھربیرون خانہ اپنے شوہرزبیر بن العوام کے کاموں میں اس طرح ہاتھ بٹاتیں کہ ان کے گھوڑوں کی مالش کرتیں ان کے لےے دانے کوٹتیں اور انھیں دورمقام سے یہ دانے اپنے سر پراٹھا کر لاتی تھیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ ایک عورت نے بھری مجلس میں آپ کو ٹوکا اور آپ اور آپ نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا۔یہاں نہ کسی کے ذہن میں نہ آواز کے پردے کی بات آئی اور نہ ہیں اختلاط مرد وزن کی۔رسول اللہ نے حضرت ام حرام کے لےے دعا کی کہ وہ سمندر کا سفر کر کے جہاد پرجائیں ۔چناں چہ حضرت عثمان کے زمانے میںوہ اس کے لےے قبرص گئیں اور وہاں جنگ میں شریک ہوئیں ۔بخاری ومسلم جیسی حدیث کی اہم کتابوں میںدسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے مردو عورت کا ایک دوسرے کے چہرے کودیکھنے،ان سے باتیں کرنے ،لین دین کرنے،مختلف امو ر میںایک دوسرے کو تعاون دینے کا ثبوت ملتا ہے۔(اس طرح کی روایات وآثار کے لےے دیکھیں:”خواتین کی آزادی عہد رسالت میں“ناشر: IIIT امریکہ) امہات المومنین جنہیںخاص طور قرآن میں پردے کی آیا ت میں مخاطب بنایا گیا ہے،خدمت میں صحابہ وتابعین حاضر ہوتے اور ان سے علم حاصل کرتے تھے ۔اس میں سب سے اہم نام حضرت عائشہ کا ہے جو عمر میں سب سے کم تھیں۔قرآن میں حضرت سلیمان کابلقیس سے ملانا اورگفتگو وغیرہ کرنا ،اسی طرح زکریا کا حضرت مریم سے ملنا ،حضرت شعیب کی بیٹی کاغیر محرم مسافر(حضرت موسی علیہ السلام) سے بات کرنا اورجانوروںکو پانی پلانے میں ان سے مد د حاصل کرنے کاواقعہ مرقوم ہے ۔قرآن میں سابق انبیا کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے (انعام:۹۰)۔
قرآن میں کہا گیا ہے کہ مسلمان مرد وعورت ایک دوسرے کے رفیق ومددگار ہیں،یہ سب مل کر نیکی کا حکم دیتے اور لوگوںکو برائیوں سے روکتے ہیں(التوبہ:۱۷)اس طرح قرآن کے منشا کے مطابق عورت اور مرد دونوں ہیںاجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے مکلف ہیں اور ان کی ادائگی ایک دوسرے کے اشتراک و تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔عورت کو جائزاور ضروری آزادی دینے کے تعلق سے ہمارے یہاں جو تحفظات کی روش پائی جاتی ہے، اس کا بہت کچھ تعلق مقاہمی اقدار وتصورات سے ہے نہ کہ رسول اور اصحاب ر سول کے اسوہ اورطریقہ کار سے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورتوں سے متعلق تعصب و تنگ نظری کی جو صورت حال تاریخ کے تمام ادوار میں قائم رہی ،اسلام آنے کے بعد وہ یکسر ختم نہیں ہوگئی ،نہ ہی ایسا ممکن تھا(ورنہ دنیا میںکوئی بھی برائی باقی نہیں رہتی )رسول اللہ نے نہ صرف نظری بلکہ عملی سطح پر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن بہت کم ہونے کے باوجود اس کے اثرات اسلامی معاشرے میں باقی رہے ۔اس صورت حال غلامی کی مسئلے پر قیاس کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے اسلام کے انسانی عدل کے تصور کے مطابق ،اسلامی سماج سے غلامی کو ختم ہوجانا چاہےے تھا لیکن وہ باقی رہی۔اسی طرح عورتوں کے تعلق سے تنگ نظری کی روش دینی حلقوں تک میںباقی رہی ۔اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ عورتوںکے تعلق سے کم وبیش ایک درجن ایسی احادیث گڑھ لی گئیں یا آثار واقوال پید اکر لےے گئے جن میں عورتوں کے درجے کو نہایت گھٹاکر، جب کہ بعض میں نہایت قابل نفرت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔مثلا:”عورتوں سے مشورہ کرو اور ان کے مشورے کے برعکس کرو“۔”عورتوں کی بات ماننا شرمندگی ہے۔“مرد ہلاکوہوگئے جب انھوں نے عورتوں کی بات مانی۔“اگر عورت نہ ہوتی تو اللہ کی عبادت کا حق زیادہ بہتر طور پر اد ا کیا جاتا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی یہ قول کہ”:عورت مکمل برائی ہے اور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کی برائی سے مفر نہیں ہے“۔
بہر حال ضرورت ہے کہ خاص طور پر مذہبی حلقوں میں عورتوں کے تعلق سے تاریخی سطح پر پایا جانے والے متعصبانہ رویے پر نظر ثانی کی جائے اورعورت کی فطری صلاحیتوں سے مسلم سماج کو بہرہ ور کرنے کے لےے سماج میں اسے اسی سطح پرمتحرک اور سر گرم ہونے کی اجازت دی جائے جو اجازت اسے نبوی عہد میں حاصل تھی۔
No comments:
Post a Comment