Saturday, November 28, 2009

A Critique of the Theology and politics of Radical Islamism

اسلام کی دینی و سیاسی فکر کی انقلابی تعبیر: ایک تنقیدی مطالعہ
-حصہ اول-
-Part-1-
اسلام دین فطرت ہے وہ انسان کی اپنی اندرونی طلب کا جواب ہے۔ اس کا مقصد خالق اور مخلوق کے رشتے کو صحیح طورپر قائم کرنا اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اس خالق و مخلوق کے رشتے کا ایک اہم پہلو خود انسان کے اپنے باہمی تعلقات ہیں۔ اگر یہ باہمی انسانی تعلقات اپنی اصل اور فطری صورت پر قائم نہ ہوں تو خالق و مخلوق کا باہمی رشتہ بھی اپنی صورت پر باقی نہیں رہ سکتا۔ کیوںکہ، جیسا کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:” دنیا کی ساری مخلوقات اللہ کا کنبہ ہے(۱)“ اور اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کنبے سے دوری اور عداوت کے ساتھ اس کنبے کے نگراں اور سرپرست (خدا) کے ساتھ قربت اور محبت کا رشتہ قائم کیا جا سکے۔ اسلام ” سِلم“ کے لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی ” امن“ ہیں ۔ اور خود اسلام کے معنی اللہ کے نزدیک پوری طرح جھک جانا (Submission) اور خود کوSurrenderکر دینا ہے۔ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے، یہ وہی دین ہے جو حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تک تمام پیغمبروں اور تمام نسل انسانی کا دین تھا ۔(۲) اس لیے منطقی طورپر اس میں خلاف فطرت کوئی ایسی چیز نہیں ہو سکتی یا نہیں ہونی چاہیے جو انسانیت کی مجموعی فلاح اور خیر خواہی کے خلاف ہو۔ پیغمبر اسلام کا ایک اہم قول ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔(۳) یہ خیر خواہی در اصل پوری انسانیت سے مطلوب ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس خیر خواہی کی عملی شکل یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر مسلمان دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو(۴)۔ اسلام کا مسلمان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ خدا کی اس فیملی (عِیَالُ اللہ ) کے ساتھ پر امن بن کر رہیں جو ان کی بنیادی صفت قرار دی گئی ہے اور حدیث میں اسے ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ : ” مسلمان دراصل وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں(۵)“۔ اگر ایک مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا کہ وہ خدا کی فیملی کا خود کو ایک ممبر تصور کرتے ہوئے فیملی کے دوسرے افراد کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے۔ اپنی پسند اور دوسروں کی پسند میں فرق نہ کرے
، خدا کی مملکت کا پوری طرح ایک پُر امن شہری بن کر رہے، وہ حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔
پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک اخلاقی اور روحانی شخصیت تھے۔ انھیں اخلاق اور روحانیت کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا تھا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ : میں اعلیٰ اخلاق کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں( ۶)۔“ مکہ میں آپ تیرہ سال رہے اور خاموشی کے ساتھ عبادت، خاموش تبلیغ اور مخالفین کی اذیتوں پر صبر کے ساتھ اپنی زندگی گزاری۔ مدینے میں اللہ کے نعام کے طورپر انھیں ریاست تشکیل دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے اپنی اس ریاست کی بنیاد تکثیرت (Pluralism)کے اصولوں پر رکھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین اور یہودیوں کو بھی دستوری سطح پر مسلمانوں کے برابر حقوق دیے۔ اس طرح کثیر قومی کثیر تہذیبی دوسرے لفظوں میںNation-state کے تصور کی بنیاد پر تشکیل پانے والی یہ پہلی باضابطہ ریاست تھی۔ رسول اللہ کو اپنے پُر امن دعوتی مشن میں بسا اوقات جنگیں بھی لڑنا پڑیں۔ لیکن یہ دفاعی نوعیت کی جنگیں تھیں جس کی وضاحت قرآن میں موجود ہے (۷) ۔ ان جنگوں کا مقصدreligious persecution کی اس صورت حال کو ختم کرنا تھا، جو شاہی مطلق العنانی کے اس دور میں موجود تھی اور عقیدے اور فکر کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ قرآن میں دراصل اسی کو” فتنہ“ ( ۸) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ کے دور میں یہ ” فتنہ“ ختم ہوا۔ رسول اللہ کے ایک صحابی حصرت ابن عمر نے کہا کہ ہم یہ جہاد کر چکے۔(۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سیاسی نہیں تھی۔ وہ دینی اور اخلاقی تحریک تھی۔ لیکن ابتدا میں سیرت(prophet`s biography) پر جو کتابیں مرتب کی گئیں ان میں رسول اللہ کے زمانے میں لڑی جانے والی جنگوں کو ہی سیرت کا عنوان بنا لیا گیا۔ اس لیے اسے ”مغازی“(wars)کا نام دیا گیا ۔ اس پہلو کو کافی وسعت اور شدت کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد میں فقہ اور حدیث کے موضوعات پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں اسی پیٹرن کو اختیار کر لیا گیا ۔ چنانچہ آج جو کتابیں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ان میں جنگ و جہاد اور ان پر مشتمل مسائل کے عنوانات نمایاں ہیں۔ ان پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ دماغ کھپا یا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسی روایتی انداز میں چلا آرہا ہے جو عہد وسطیٰ میں شروع ہوا تھا۔ یہ مسلمانوں کے عروج کے زمانے (750-1100) میں اسلامی فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے اور اسلام کو ایک بڑی سیاسی طاقت کے طورپر پروجیکٹ کرنے کی ایک پالیسی اور حکمت عملی تھی جسے مسلم حکمرانوں نے آگے بڑھانے اور مضبوط کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اس طرح اس فکری ماحول میں اسلام کا جو سیاسی تصور پروان چڑھا وہ اسلام کی حقیقی روح سے قریب نہ رہ سکا۔ اس میں اسلام کی انسانی فطرت کے مطابق اور عام نسل انسانی کی خیر خواہی پر مبنی دین ہونے کی حیثیت بُری طرح مجروح ہو گئی۔ تیسری اور چوتھی صدی میں اسلام کی جو قانونی تدوین اسلامی فقہ کی شکل میں عمل میں آئی اس میں ان سیاسی پالیسیوں کو با ضابطہ اسلام کا قانون بنا دیا گیا۔
مندرجہ ذیل سطور میں ہم سب سے پہلے اسلام کے تصور سیاست پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کریںگے۔ اس کے بعد یہ دیکھنے کی کوشش کریںگے کہ بعد کے ادوار میں اس میں کیا انحرافات ہوئے اور کیسی خامیاں پیدا ہوئی؟ اس کے اہم اور بنیادی عوامل کیا تھے؟
اسلام کا تصور سیاست
اسلام میں دین اور دنیا میں فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت اور Complementryقرار دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ :” اپنے دنیا کے حصّے کو نہ بھولو“( ۰۱) حدیث میں دنیا کو دین کی کھتی بتایا گیاہے (۱۱ )۔ اس طرح دین اور دنیا کی حیثیت ایک دوسرے سے لازمی طورپر جڑ جاتی ہے۔سیاست زندگی کا ایک لازمی جز اور زندگی کو اجتماعی سطح پر برتننے کا نام ہے۔ اس لیے زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی نظریہ سیاست سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دین کے ساتھ تعلق کی حیثیت سے اس کا اپنا دائرہ اور اپنی محدودیت ہے۔ وہ دین کے مجموعی مفہوم میں تو شامل ہے، لیکن دین کے اساسی مفہوم میں شامل نہیں۔ اس حیثیت سے وہ اضافی ہے، دوسرے لفظوں میں دین سیاست کے بغیر بھی اتنا ہی مکمل ہے جتنا سیاست سے وابستگی کے ساتھ۔ در اصل اسلام ایک عملیت پسند(pragmatic)مذہب ہے اور سیاست میں عملیت پسندی کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔ اس لیے اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسے عمل یا ذمہ داری کا مکلف(committed) نہیں کر سکتا جس کا انجام دینا اس کے ماننے والوں کے لیے عمومی طورپر ممکن نہ ہو۔ قرآن میں اس کی صراحت موجود ہے ( ۲۱)۔ اسلام نے جو احکامات دیے ہیں اس کی دو صورتیں ہی: ایک وہ جو اپنی جگہ اٹل ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی۔ انہیں علمائے اصول غیر مجتہد فیہ کہتے ہیں۔ یعنی ایسے احکام جن میں اجتہادکی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے احکام وہ ہیں جن میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور انہیں وقت اور حالات کی بنیاد پر سمجھا اور تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسے علمائے اصول مجتہد فیہ کہتے ہیں۔ پہلے کا تعلق اسلام کے اعتقادی ڈھانچے سے ہے اور دوسرے کا تعلق عملی ڈھانچے سے۔ اسلام میں سیاست اسی دوسرے خانے میں آتی ہے۔ اس لیے عقیدے کی سطح پر سیاست اسلام کا جز ہے۔ دوسرے نظریات کی طرح سیاست اور مذہب میں تفریق نہیں ۔ لیکن عملی سطح پر اس کا جز ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک یونی ورسل مذہب کے لیے یہ خصوصیت اور لچک فطری ہے۔ چنانچہ اسلام اپنے دینی اور روحانی نظام کے ساتھ دنیا کہ ہر ہر خطے میں پہنچا ہوا ہے، لیکن ( معمولی exceptionکے ساتھ)سیاسی نظام کے ساتھ وہ کہیں بھی موجود نہیں۔ اس کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس صورت میں اسلام ادھورا اور ناقص ہے۔ کیوں کہ یہ سرے سے نہ کبھی ممکن ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اسلام جہاں بھی پایا جائے اپنے نظام کے ساتھ پایا جائے اور وہ دوسرے نظاموں پر غالب ہو کر رہے۔ہر نبی کا دین ہمیشہ ایک رہا ہے اور ہر نبی نے ہمیشہ مکمل دین کی لوگوں کو دعوت دی اور خود اس پر عمل کیا۔ لیکن یہ بات خود قرآن و حدیث کی روشنی میں طے شدہ ہے کہ بہت سے انبیاءکو سرے سے اپنے سماج میں قدم جمانے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ کجا کہ وہ کوئی جماعت یا معاشرہ تشکیل دیں۔ انھوں نے صرف دین کی بنیادی باتوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ کیوں کہ یہی ان سے مطلوب تھا۔ اس سلسلے میں خود حضرت عیسیٰ مسیحؑ کی مثال واضح ہے جن کا مشن زبانی تبلیغ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بہت سے انبیا قتل یا ہلاک کر دیے گئے۔ لیکن ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اپنے اس مشن میں پوری طرح کامیاب رہے، جس کے لیے انھیں خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا، یعنی خدا کی معرفت کی انسان کو تعلیم دینا، خدا سے ان کا تعلق قائم کرنا اور ان کی روح کو پاک و صاف کر کے انھیں روحانی اور ربّانی (۳۱ ) انسان بنانا تاکہ وہ خدا کی بنائی جنت میں بسنے اور اس کی ابدی مسرتوں سے ہم کنار ہونے کے لائق ہو سکے۔
اسلام ایک تکثیری مذہب ہےتکثیرت اسلام کی سیاسی فکر کی اہم کڑی ہے۔ اس اعتبار سے اسلام صحیح معنو ںمیں ایک تکثیری مذہب ہے۔ اس کا اصولی اور عملی ڈھانچہ اسی پر مبنی ہے۔ اسلام میں تنوع(diversity) کو فطرت کی ایک ضرورت اور حسن کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ زبان اور رنگ کے اختلاف کو قدرت کی نشانی قرار دیا گیا ہے:
” اس( اللہ) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔“(۶۱)اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:” اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کر سکو۔“(۷۱
قرآن میں ایک واضح اصول کے طورپر کہا گیا ہے کہ دین میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے انسان کو اختیار ہے کہ وہ جو مذہب یا جو نظریہ چاہے اختیار کرے:
” دین میں کوئی زور اور زبردستی نہیں ہے۔“( ۸۱)” جس کا دل چاہے وہ اسلام پر ایمان لائے اور جس کا دل چاہے اس سے انکار کر دے“۔(۹۱)
اس لیے کہ یہ خود اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے کہ سارے لوگ ایک فکر اور ایک طریقے کے پابند ہو جائیں:” اگر آپ کا رب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ ایمان قبول کر لیتے ” کیا مومن بنانے کے لیے آپ ان کے ساتھ زبردستی کریںگے۔“(۰۲) ” اللہ نے ہی تمہاری تخلیق کی ہے تو تم میں کچھ لوگ مومن اور کچھ لوگ منکر ہیں“(۱۲)۔اس طرح مومن کے ساتھ منکر ہونے کو ایک ابدی اور فطری حقیقت کے طورپر تسلیم کر لیا گیا۔ ہر قوم کا مزاج، ماحول، فطری صلاحتیں، اس کے لیے ردو قبول کے امکانات الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے ایک ”شرعہ“( َLaw) اور منہاج(Way) مقرر کیا ہے۔ دین اور اعمال دونوں کو فرد کے اپنے انتخاب پر چھوڑنے کی واضح ہدایت اسی لیے قرآن میں دی گئی ہے:” تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا دین“ (۲۲) ۔” تمہارے لیے تمہارا عمل ہے اور ہمارے لیے ہمارا عمل“(۳۲)۔
پیغمبر اسلام نے مدینے میں جو پہلی ریاست تشکیل کی اس میں تہذیبی تعدد(multiculturalism) ، تکثیرت (pluralism) اور بقائے باہم(coexistance)کو بنیادی اصول کے طورپر استعمال کیا گیا تھا۔ میثاق مدینہ اس اسلامی ریاست اور اسلامی تاریخ کا پہلا تحریری معاہدہ یا دستور تھا۔ معاہدے کے مطابق ، معاہدے کے پابند تمام مسلم وغیر مسلم شہریوں کو یکساں حقوق حاصل تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاہدے میں مسلمان، یہودی اور مشرکین کو ( عیسائی وہاں موجود نہیں تھے) مسلمانوں کے ساتھ ایک متحدہ امت کی حیثیت دی گئی تھی۔ ( یہود امة من المسلمین) ایک شق کے الفاظ یہ تھے کہ : مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین ہے اور یہودیوں کے لیے یہودیوں کا دین (للمسلمین دینہم وللیہود دینہم)(۴۲) قرآن کے مطابق ہر مذہبی کمیونٹی کو مکمل داخلی خود مختاری دی جانی چاہیے۔ اسے نہ صرف عقائد اور عبادات کو اپنے طورپر انجام دینے کی آمادی ہو بلکہ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ بھی اپنی ہی قانون اور ججوں کے ذریعہ کرائیں(۵۲)۔ اس لیے رسول اللہ غیرمسلموں کو دیے گئے اختیارات اور آزادی کو محدود نہیں کر سکتے تھے۔ قرآن میں مسلم اور غیر مسلم عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے مسجد سے پہلے چرچ اور یہودی عبادت گاہ (سینے گاگ) کا ذکر کیا گیا ہے :
Did not Allah chek one set of people by means of anoter there would surely had been pulled down monastries, churches, synagogues and mosques. in wich the name of Allah is commemorated in abundant measure (26)
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ رسول اللہ نے اہل نجران اور اہل حیرہ سے جو معاہدے کیے اس میں غیر مسلموں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دی گئی تھی۔
اسلامی تکثیریت کے اس تصور سے اسلام کے غیر مسلموں ساتھ تعلق کی جو نوعیت سامنے آتی ہے وہ عدل و مساوات اور اشتراک عمل کی بنیاد پر قائم ہے- عدل پر قرآن میں یہ کہہ کر زور دیا گیا ہے کہ : کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو (۷۲) عدل کو قائم کرنے والے بنو(۸۲) مساوات انسانی کے تعلق سے رسول اللہ نے فرمایا کہ :” لوگ ( مسلم اور غیر مسلم ) آپس میں بھائی بھائی ہیں “(۹۲)اوریہ کہ :” وہ کنگھی کے دانوں کی طرح ایک دوسرے کے برابر ہیں۔“ اسلام ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں مذہب اور رنگ و نسل کی قید سے اوپر اٹھ کر لوگ معاشرے میں خیر و عدل کے قیام کے لیے مشترکہ طورپرکوشش کریں اور ایک دوسرے کو تعاون دیں۔ مکہ میں حِلف الفضول کا واقعہ اور مدینے میں ” میثاق مدینہ“ اس کے اہم نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ رسول اللہکے بعد آپ کے خلفا کے دور میں جو اسلامی ریاست تشکیل ہوئی وہ بھی کافی متمول(Rich) اور متنوع (Diverse)تھی اس میں غیر مسلموں کو عقیدہ و عمل کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ اس کی مثالیں اور واقعات اسلامی تاریخ کی کتابوں میں بکثرت موجود ہیں۔ اس تعلق سے یہاں صرف ایک واقعے کا حوالہ مناسب ہوگا۔ حضرت علی کے دور میں سیاسی بحران کی وجہ سے کثیر عیسائی آبادی رکھنے والے بعض علاقوں میں بھی انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیےBazentine بادشاہConstantine II نے عیسائی آبادی کو اس بات پر ابھارا کہ وہ اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دے۔ بازنطینی حکومت اس کی ہر طرح مدد کرے گی۔ لیکن عیسائی آبادی نے اس پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ” ہمارے مذہب کے یہ دشمن تمہارے مقابلے میں ہمیں زیادہ پسند ہیں۔“ البتہ بعد کی اسلامی تاریخ میں اس کا معیار باقی نہ رہ سکا۔ خاص طورپر مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے عہد میں تشکیل پانے والی فقہ میں اسلام کی عالم گیر انسان پسندی کی روح برقرا ر نہ رہ سکی۔( س پرمزید بحث آگے آئے گی)۔
**************************************************************
-حصہ دوم Part-2 -
مسلم سیاسی فکر کے نقائص: قابل غور نکات
اسلام کی سیاسی فکر زیادہ تر اس اسلامی فقہ سے ماخوذ یا اس پر مبنی ہے، جس کی تشکیل 750سے 1100کے درمیان ہوئی، جو مسلمانوں کے سیاسی عروج کا عہد زرّیں کہلاتا ہے۔ ائمہ اربعہ اور اکابر فقہاء( جن میں ائمہ اربعہ کے تلامذہ شامل ہیں) کا تعلق اسی دور سے ہے۔ بعد میں ان فقہا کے علاوہ دیگر فقہا اور اسلامی شخصیات کی آرا و افکار نے اسلامی سیاسی فکر کے ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس میں ابو الحسن علی الماوردی، ابن تیمیہ، ابن قیم الجوزی اور جلال الدین السیوطی وغیرہ شامل ہیں۔ 1258میں تارتا یوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی و بربادی نے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے متوقع اثرات مسلمانوں کے سیاسی فکری ڈھانچے پر بھی پڑے اور اس کے نتیجے میں بہت سے سیاسی و سماجی تصورات تبدیل ہوئے۔ عالم اسلام کے ایک خلیفہ ہونے کا تصور پہلے ہی کمزور تھا، اب اس کا کوئیRelevanceباقی نہیں رہا۔ غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ حکومتی اور سیاسی سطح پر تعاون اور اشتراک عمل کو اسلام کے نظریاتی فریم ورک میں قبول کر لیا گیا۔ رسول اللہ کی مکّی زندگی کے ماڈل کو اختیار کرتے ہوئے غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور تصادم سے مکمل طورپر پہلو تہی کی گئی۔ مسلمانوں کو غیر مسلم ریاست میں ایک پُر امن شہری کی حیثیت سے نارمل زندگی بسر کرنے کو اسلامی نظریے سے درست قرار دیا گیا وغیرہ۔ اسی طرح دارالاسلام اور دار الحرب کے غیر معقول اور نا قابل عمل تصور پر ابتدا میں ہی اعتراضات اٹھائے جانے لگے تھے اور ایک تیسرے ” دار“دارالعہد یا دارالامن کی گنجائش نکالی جانے لگی تھی ۔اس طرح دیکھا جائے تو اسلامی سیاسی فکر ، اسلامی فقہ کے دیگر شعبوں: عبادات و معاملات کی طرح بالکل جامد نہیں تھی۔ تاہم مسلم حکمرانوں کی اپنی مفاد پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دی جا سکی جس کا احساس معاصر علما کو شدت کے ساتھ ہے(۰۳) ۔ اٹھارہویں انیسویں صدی میں جبکہ اسلامی اور مغربی دنیا میں طاقت کے توازن میں زبردست نوعی(qualitative)فرق پیدا ہو چکا تھا، یوروپی ممالک کو مسلم ملکوں کے اندرونی معاملات میں اس لیے بھی دخل اندازی کا موقع ملا کہ وہاں غیر مسلم رعایا کے ساتھ مسلم ریاست کا برتاﺅ قدیم فقہی تصورات کے مطابق انصاف اور مساوات پر مبنی نہیں تھا۔ اس مداخلت کے ذریعہ یوروپی استعماری طاقتوں کو ان پر تسلط کی راہ ہموار ہوئی(۱۳)۔
موجودہ دور میں مسلم علما اور ارباب فکر کے درمیان دو گروپ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروپ کلاسیکی رجحان رکھنے والے قدامت پسند علما پر مشتمل ہے جو انھی قدیم اصول و معیارات پر اپنے نظریات کی عمارت کھڑی کرتے ہیں جو تیسری چوتھی صدی میں تشکیل پائے تھے۔ جب کہ دوسرا گروپ ان دانشوروں پر مشتمل ہے جو جدید سیاسی نظریات کی بنیاد پر اسلامی سیاسی نظریات کی تشکیل کا خواہاں ہے اور اسلام کی فطری اور فقہی اثاثے کو سرے سے کوئی اہمیت دینے کا قائل نہیں۔ان دو طبقوں کے درمیان ایک تیسرا طبقہ ان اہل فکر پر مشتمل ہے جو اسلام کے روایتی دائرہ فکر میں رہتے ہوئے اپنے نظریات کی ترتیب کو درست کرنے اور جدید حالات اور تقاضے سے ناہم آہنگ اور مشکلات پیدا کرنے والے فقہی سیاسی تصورات پر ایک حد تک نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں وسعت پیدا کرنے کا قائل ہے، اگرچہ یہ طبقہ روشن فکر علما اور ارباب دانش پر مشتمل ہے لیکن وہ ایک طرف قدامت پسند علماء جن کی روایتی دینی حلقوں اور عوام پر گرفت مضبوط ہے کے دباﺅ میںاور دوسری طرف سے انھی قدیم فقہی تصورات اور اصول استنباط پر بنیادی طورپر انحصار کرنے کی وجہ سے، ایک ایسا ماڈل فراہم کرنے سے قاصر ہے جو دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں فٹ ہونے کے ساتھ روایتی ماڈل کی جگہ لے سکے۔
اسلامی سیاسی فکر کے صحیح رخ سے ہٹ جانے کا مسئلہ اسلام کے ابتدائی عہد کے بعد پوری اسلامی فکر صحیح اسلامی گر سے ہٹ جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ با ضابطہ انحراف تیسری چوتھی صدی میں ائمہ اربعہ کےCanonisation،تقلید کو علمی و فکری سطح پر رواج عام اور باب اجتہاد کے بند ہو جانے کی شکل میں سامنے آیا۔ ائمہ اربعہ یا دیگر ائمہ فقہ میں سے کوئی بھی اس منصب کا دعویدار نہیں تھا جنھیں یہ منصب عطا کیا گیا ۔لوگوں کو ائمہ اربعہ کی تقلید پر کاربند کرنا اس وقت کے اسلامی سماج کے اس بکھراﺅ کو دور کرنے اور اس میں تنظیم و یک رنگی پیدا کرنے کی کوشش تھی جو بالخصوص سیاسی و سماجی حالات، مختلف رجحانات رکھنے والے فقہا و محدثین کی اکثر مسائل میں مختلف رایوں کا حامل ہونے ، فقہا کی ایک تعداد کے فقہ کو بطور پیشہ اختیار کر لینے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا(۳۳)۔ اس طرح یہ اقدام ایک سیاسی حکمت عملی پر مبنی وقتی اقدام تھا نہ کہ دینی و تشریعی ( قانونی) حکمت عملی پر مبنی فکر کا آخری نتیجہ۔ اس لیے آگے چل کر حالات کی تبدیلی کے بعد جو چیز علاج کے طورپر اختیار کی گئی تھی وہ امت کے لیے بجائے خود بہت بڑا مرض بن گیا اور جس سے امت مسلمہ کی پوری فکر شل ہو کر رہ گئی۔ علمائے اصول نے فقہ کی ایجاد کی، لیکن اجتہادی پراسیس کے عملا معطل ہو جانے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کوئی اضافہ یا ترقی نہیں ہو سکی۔ نتیجے کے طورپر قدیم اصول فقہ کی روشنی میں جدید مسائل پر غور و خوض مسائل کی سنگینی میں مزید اضافے کا سبب بنا۔
انیسوی صدی میں عالم اسلام پر استعماری شکنجے کی مضبوطی کے بعد امت کے ” اعلیٰ دماغوں“ اور ارباب حل و عقد کی طرف سے اس کے مقابلے کے لیے نظری اور عملی سطح پر جو جد و جہد کی گئی وہ اس نظری افلاس کو مزید واضح کرنے والا تھا جس کی وراثت اس صدی کے مسلمانوں کوحاصل ہوئی تھی۔ اس کا اندازہ اس مثال سے ہو سکتا ہے کہ اس عہد کے سب سے بڑے اسلامی دماغ جمال الدین افغانی جس کے بارے میں اقبال آخری حد تک ثنا خواں ہیں۔ ( ۴۳)انہوں نے زور و تائید کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ : امت مسلمہ کو ایک عادل ڈکٹیٹر(مستبدµ عادلµ) ہی سوٹ کرتا ہے (۵۳)حالانکہ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ استبداد عدل کے منافی ہے۔ استبداد کی بنیاد پر عدل کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلامی فقہ یا اسلامی فکر میں تقلید کے مظہر کے حوالے سے اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی عین پہلی اوردوسری صدی میں فکری قیادت اور سیاسی قیادت میں اس وقت بُعد و افتراق پیدا ہو گیا جب اسلامی خلافت خاندانی بادشاہت کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ رسول اللہ کے احباب اور ان کی اتباع کرنے والی اسلام کے فکری ورثے کی امین شخصیات خاموشی اور عزلت نشینی پر مجبور ہو گئیں۔ سیاسی لیڈر شپ اور دینی و فکری لیڈر شپ میں دوری اور مقابلہ آرائی کی کیفیت تیسری اور چوتھی صدی میں عروج پر تھی جس کی اہم مثال یہ ہے کہ چاروں ہی اماموں کو شدید سیاسی ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑا۔ امام ابو حنیفہ کی تو موت ہی جیل میں ہوئی۔ زبردستی (by force) طلاق کے ( جس کا مقصد by forceبیعت کے جائز ہونے کو ثابت کرنا تھا) امام مالک کو اس قدر زد و کوب کیا گیا کہ ان کا بازو اکھڑ گیا۔
ان بنیادی امور کے علاوہ اسلام کی سیاسی فکر میں جو جمود اور انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے اس کے بعض اہم اسباب و عوامل یہ ہیں کہ :
(1)
کوئی بھی فکر خواہ اس کا تعلق دین و سیاست یا زندگی کے کسی اور شعبے سے ہو۔ اپنے وقت کے سماجی، جغرافیائی اور سیاسی حالات سے اثر پذیر ہوتی ہے۔ اس تعلق سے بطور مثال کمیونزم کو پیش کیا جا سکتا ہے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں طبقاتی کشکمکش اور مزدوروں پر جبر اور ان کے استحصال کے رد عمل میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی۔ امام مالک ، شافعی، غزالی ، ماوردی، ابن تیمیہ، جوینی شاطبی وغیرہ کے افکار و سوانح سے ان ائمہ کے کاموں پر وقت اور ماحول کے سیاسی و معاشرتی عوامل کا صاف اثر دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے گروہی تنازعات اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے مرکزی سیاسی اقتدار کو استحکام بخشنے اور باہمی اتحاد و یک جہتی کی صورتحال کو مضبوط کرنے کی اہمیت کو فہرست میں سب سے اوپر جگہ دی۔ اسلامی تحریک کو شروع دن سے عرب کے سخت مزاج بدﺅں کے ساتھ کشمکش، دوسری طرف حکومتی سطح پر ایران خاص طور پر رومی امپائر سے مزاحمتوں اور اندیشوں کا سامنا رہا۔ تیسری چوتھی صدی میں اگرچہ اسلامی خلافت کے حدود مضبوط ہو چکے تھے تاہم بالکل محفوظ کبھی نہیں سمجھے گئے۔ مسلمانوں کی فکری قیادت کرنے والے کا ذہن خارجی اندیشوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس بے چینی اور خوف کا اندازہ احمد بن حنبل کے اس قول سے ہوتا ہے کہ” : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تم جنگ نہ کرتے تو اسلام مٹ گیا ہوتا اور پھر رومی کیا کرتے“؟ امام مالک نے بھی ایسے ہی احساسات کااظہار کیا ہے(۶۳)۔ اس دور میں سیاسی انتشار، بغاوت اور محاربة (insergency) کے واقعات کثرت سے پیش آئے جنہوں نے فقہا کے ذہن کو متاثر کیا۔
(2)
سیاسی غلبے کی نفسیات سے قرآن و حدیث اور رسول اللہ اور صحابہ کے دور میں پیش آنے والے واقعات میں سے انہوں نے صرف اسی حصّے کو اپنی فکر کا ماخذ بنایا جو ان کے مخصوص نظریے اور نفسیات کو تقویت دیتا تھا۔ چنانچہ ان کے سامنے نہ تو مکی آئیڈیل رہا جو مدینہ میں رسول کی اقامت سے زیادہ عرصے پر مشتمل ہے اور نہ ہی مدینہ کا ابتدائی سیاسی نبوی ماڈل جو سیاسی وسیع النظری کی اعلیٰ اور مثالی قدروں پر مشتمل تھا۔ اس کے بجائے ان کی توجہ مدینہ کی ریاست کے آخری حصّے پر رہی جب رسول اللہ کو ایک غیر چیلنج آمیز اقتدار حاصل ہو چکا تھا۔ حضرت علیؓ کا ایک بہت با معنی قول ہے جس کی معنویت اسلام کی آئندہ کی تاریخ میں زیادہ کھل کر سامنے آئی:”قرآن ایسی کتاب ہے جو صرف انسان کی زبان سے کلام کرتی ہے۔“ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی مفہوم کے استنباط یا کسی تصور کی تشکیل میں انسان کا اپنا ذہن ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلافات کی کثرت کی ایک لازمی وجہ یہ بھی ہے۔ یہ اشخاص یا اشخاص کے طبقات کا اپنا ذہن ہے جو اپنے طورپر ایسے اصول بناتا ہے جس سے وہ مطلوبہ نتیجہ اخذ کر سکے۔ اس تعلق سے (Gibb)گب کی بات بہت با معنی ہے کہ :” قرآن یا سنت اسلامی قانون کے استنباط کی بنیاد نہیں بلکہ محض اس کے ماخذ ہیں۔ حقیقی بنیاد تو اس ذہنی رجحان میں تلاش کی جانی چاہیے جس نے ان ماخذ سے نتیجے اخذ کرنے کے طریقے متعین کیے۔(٭
ان دو بنیادی اسباب کے پائے جانے کے لازمی نتیجے کے طورپر اس فکر کی تشکیل کے منہج میں ایسی خامیاں در آئیں جنہوں نے پوری فکری بساط الٹ کر رکھ دی اور اسلام کا اخلاقی اور روحانی پہلو بالکل حاشیے پر چلا گیا۔
(3)
قرآنی آیات کے نسخ کے تصور اور اصول کاایسا بے جا استعمال کیا گیا کہ قرآن میں صبر، اعراض ، برداشت، فکر و عقیدے کی آزادی، دوسری قوموں کے تعلق سے اعلیٰ اخلاقی و انسانی معاملے کی تعلیمات اس( نسخ) کے انتہا پسندانہ تصور کے تحت منسوخ قرار دے دی گئیں۔ ان میں وہ آیات بھی شامل ہیں جن میں مذہبی آزادی و رواداری کی تعلیم دی گئی ہے جیسے ” دین میں کوئی زبردستی نہیں“ ۔”جو شخص چاہے اسلام کا راستہ اختیار کرے اور جو چاہے اس سے انکار کا“۔یا کہ ”ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔“سورہ توبہ کی ایک آیت جسے آیت السیف(verse of sword)سے موسوم کیا جاتاہے کی بنیاد پر تقریباً ۰۴۱ آیات منسوخ ہو کر رہ گئیں۔(۷۳)
(4)
قرآن و سنت کی حرفی تعبیر( literal interpretation)سے پیدا ہونے والے فکری ابہام اور اسلامی تاریخ کو غیر معروضی انداز میں لکھے جانے کی وجہ سے عوام و خواص کے اہم طبقات میں مثالیت پسندی (Idealism)کا رجحان پیدا ہوا اور اس نے اہستہ آہستہ با ضابطہ اسلامی فکر کے دھارے میں اپنی جگہ بنا لی۔ دوسری طرف آمرانہ اور خاندانی حکومتوں کی ظالمانہ سیاست سے پیدا شدہ اضطراب اور مایوسی نے اس مشابہت پسندی میں اضافے کے ساتھ اسے عوامی جوش و جذبات سے بھی بھر دیا۔ کیونکہ مظلوم جماعتوں یا طبقات کی نظر میں اس درد کا علاج اس تصور اور طریقہ سیاست کو بحال کیے بغیر ممکن نہیں تھا ،جو بہتر صورت میں اسلام کی ابتدائی تین دہائیوں کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ یہی تصور آج کی احیائی فکر رکھنے والی(revivalist) جماعتوں کے ذہن پر غالب ہے۔
(5)
مسلم و غیر مسلم تعلقات کے حوالے سے اسلام کے یونی ورسل دین ہونے کے پہلو پر صحیح توجہ نہ دی جا سکی۔ اس طرح فقہ کے ٹیکنیکل اصولوں کی شدت کے ساتھ پیروی میں ان کے نتائج اور شریعت کے اصل مقاصد کو مرکز توجہ نہیں بنایا جا سکا۔ حنفی اور مالکی فقہ میں ایسے اصول تھے جن سے اس رخ پر کام میں مدد مل سکتی تھی لیکن، مثال کے طورپر امام شافعی اور دوسرے فقہا کی ان کی مخالفت کی وجہ سے انہیں زیادہ توجہ حاصل نہ ہو سکی اور ان کا صحیح کردار سامنے نہیں آسکا۔
ان کے علاوہ دیگر اہم تاریخی و جوہات اور عوامل ہیں جنھوں نے اسلام کی ناقص قانونی سیاسی فکر کی تشکیل میں نمایاں رول ادا کیا۔
**************************************************************
- حصہ سوم Part-3-
اسلام کی سیاسی فکر کا عصری منظر نامہ
مولانا مودودی اور سید قطب کے سیاسی اسلامی نظریات کا تنقیدی مطالعہ
مارچ1924 میں عثمانی خلافت کے خاتمے کی شکل میں مسلمانوں کے سیاسی مرکز کے ٹوٹنے کے بعد مسلمانوں نے دور جدید میں پہلی مرتبہ شدت کے ساتھ خود کو نہایت کمزور محسوس کیا۔ انھیں محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے چھت ہٹ گئی ہو اور وہ بالکل بے یار و مددگار ہو گئے ہوں۔مسلم ممالک پر قابض سامراجی طاقتوں کو اس واقعے سے مزید شہ اور قوت حاصل ہوئی اور مسلمان مزید سیاسی محکومیت اور مغلوبیت کے عذاب کا شکار ہوتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے اندر اس صورتحال سے پیدا شدہ مایوسی اور انتشار کے رد عمل میں دو طرح کے ذہنی رویّے عالم اسلام میں پیدا ہوئے ایک رویّہ وہ تھا جو اسلام کے روحانی اقدار کی باز یافت پر زور دیتا اور اسی تعلق سے انفرادی عبادت اور صوفیانہ اعمال و اشغال پر زور دیتا تھا۔ہندوستان میں مولانا الیاس کی قائم کردہ تبلیغی جماعت اور ترکی میں سعید نورسی کی” جماعت النور“اسی زمرے میں آتی ہےں جبکہ دوسرا رویّہ اسلام کے اجتماعی و سیاسی پہلوﺅں پر زور دیتا اور اسے بنیادی طورپر مسئلہ کا اصل حل تصور کرتا تھا۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی، مصر میں اخوان المسلمون اور انڈونیشیا کی ماشومی تحریک اس دوسرے زمرے میں آتی ہےں جنھیں احیائیت پسند(revivalist)کہا جاتا ہے۔ ان میں بر صغیر ہند میں” جماعت اسلامی“ اور عالم عرب میں ”اخوان المسلمون“ کو شہرت حاصل ہوئی اور وہ عوام و خواص کے ایک بہت بڑے طبقے کو اپنے افکار و خیالات سے متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔تاہم جماعت کو اخوان المسلمون پر فوقیت حاصل رہی۔ اس نے اس احیائی فکر کی حمایت میں نہایت شاندار اور مضبوط لٹریچر تیار کر دیا۔ اخوان کے پاس تحریکی اور انتظامی صلاحیت بے پناہ تھی لیکن وہ ایسے انقلابی لٹریچر سے محروم تھی جو قرآن و سنت کے ’ مطالعے‘ اور ان سے ’ اخذ کردہ دلائل‘ کی بنیاد پر عصر حاضر کے اسلوب اور نوجوانوں کو اپیل کرنے والے لہجے میں تیار کیا گیا ہو، یہ کمی مولانا مودودی (1903-79)کے لٹریچر نے پوری کر دی۔ احیائی فکر رکھنے کے باوجود اخوان کے بانی حسن البنا (1906-49) اسلام کو سیاسی اور انقلابی شکل میں پیش کرنے کے اس ہنر سے واقف نہیں تھے۔ بلکہ وہ اس کے قائل بھی نہیں تھے۔ یہ در اصل سید قطب (1906-66) ہیں جو مولانا مودودی کی انقلابی دینی فکر سے مولانا مودودی کی مختلف کتابوں خصوصاً ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ سے متاثر ہوئے۔ سید قطب اور بعض دوسری شخصیات کے ذریعے یہ فکر اخوان کے اندر پھیل گئی۔ سید قطب کی کتاب ” معالم فی الطریق“ (Signposts)میں پیش کردہ بنیادی فکر مولانا مودودی کی فکر سے ہی ماخوذ ہے۔ البتہ قید و بند اور اذیت دہی کے اُن تجربات کی بنا پر جو انہیں جمال عبدالناصر کی حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ پیش آئے، اس کا لہجہ زیادہ آتشیں ہو گیا ہے۔
اخوان کے بعض لیڈروں کو بھی اس کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا کہ سید قطب کے انتہا پسندانہ فکر سے متاثر ایک نیا طبقہ اخوان کے اندر پیدا ہو رہا ہے جس سے اخوان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اخوان کے مرشد عام حسن ہُضیبی نے اسی صورتحال کے پیش نظر ” دعاة لا قضاة“ لکھی۔ جس میں انہوں نے سید قطب کی فکر سے برات ظاہر کرنے کی کوشش کی۔اب اخوان سے رسمی طورپر وابستہ ، اس سے ہمدردی رکھنے والے بہت سے علما اور اکٹوسٹ بھی سید قطب کی روایتی اسلامی فکر سے متصادم ان شدت پسندانہ افکارکی یا تو تردید یا تاویل کر تے ہیں جس کے نتائج موجودہ جموری نظام سیاست کے تحت قائم مسلم معاشرے کی تکفیر اور مسلم حکم رانوں سے ناگزیر تصادم کی صورت میں نکلتے ہیں۔ اس ضمن میں یوسف قرضاوی، انور الجندی، محمد عمارہ، علامہ محمود شاکر، ڈاکٹر عزالدین اسماعیل وغیرہ کا نام آتاہے۔
نظری سطح پر اخوان کی صفوں میںاس تبدیلی جیسا کوئی مظہر ہندوستان و پاکستان کی جماعت اسلامی کے تعلق سے بالکل نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہاں کا جمہوری ماحول ہے۔یہاں اظہار رائے کی مکمل آزدی ہے اور اسی وجہ سے جماعت اسلامی کا وہ آتشیں لٹریچر جس نے مسلم دنیا سے لے کر مغربی ممالک تک اسلامزم کو پروان چڑھانے اور مسلم جماعتوں کو ریڈیکل بنانے میں سب سے بنیادی رول ادا کیا ہے، اب بھی اہتمام کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہندوستان کی جماعت اسلامی کے موجودہ کارکنان مولانا مودودی کی زیر بحث شدت پسندانہ فکر پر گفتگو سے دامن بچاتے اور خود کو معتدل ثابت کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں تاہم نہ تو وہ اس سے برات کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی بانی جماعت پر اس تعلق سے تنقید کو جائز تصور کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ ایک نظری کشمکش اور تضاد فکر و عمل(duality)میں مبتلا ہیں۔
مولانا مودودی کی اس نہج پر ذہنی تشکیل، جو بعد میں ایک مخصوص شکل میں سامنے آئی، اس کی ابتدا پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں اس مرحلے میں ہوئی جب انہوں نے ” الجمعیة“ کی ادارت کے دوران ’ الجہاد فی الاسلام‘ لکھنی شروع کی۔ پھر 1928 میں الجمعیة سے دست برداری کے ساتھ انھوں نے 33ءمیں حیدر آباد سے ترجمان القرآن کی اشاعت سے اپنے کام کی شروعات کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں قومی سیاست عروج پر تھی۔ ابو الکلام آزاد جو پہلے احیائی اور پان اسلامک فکر کے حامل تھے، 1920 تک اس سے کنارہ کش ہو کر قومی سیاست میں شامل ہو چکے تھے۔ عالمی سطح پر ایک طرف اشتراکیت کی لے اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ مسلم اہل علم و فکر کی ایک بڑی تعداد اس بہاﺅ کی زد میں آچکی تھی۔ اسلامی نظام کے غلبے کی سوچ رکھنے والے مولانا مودودی کے لیے اس صورتحال سے مضطرب و غیر مطمئن ہونا فطری تھا۔چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے اس بات کی کوشش کی کہ وہ ایک مو¿ثر لٹریچر تیار کر کے نئی نسلوں کے اندر اسلامی مشن کے لیے آمادگی اور امنگ کی کیفیت پیدا کریں۔ اس کے تحت انھوں نے” الجہاد فی الاسلام“، ” اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی“، ” تنقیحات“ وغیرہ لکھیں۔ جن کے اندر جدید مغربی تہذیب کی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے اسلامی نظام کو اس کے ایسے متبادل کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی جس میں ان کی فکر کے مطابق اس دور کے عائلی، سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے تمام تر مسائل کا تشفی بخش حل موجودتھا۔ مولانا مودودی کی اس فکر نے تیزی کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں اپنی جگہ بنائی اور ایک طبقہ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہو گیا، اس کے بعد1941میں جماعت اسلامی کی بنیاد پڑی۔ تقسیم ہند کے بعد مولانا مودودی کےidealistic approach میں مزید شدت آئی۔ اسے پاکستان ریڈیو سے1948میں اسلامی نظام حیات پر کی گئی ان کی پانچ تقریروں میں واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔1979میں اپنے انتقال تک وہ پورے انہماک کے ساتھ اپنے مشن میں لگے رہے ان کی دینی سیاسی فکر کی تنقید میں ان کی زندگی میں ہندوستان کی ہی کم از کم دو اہم شخصیات نے کتابیں لکھ کر ان کی فکر کی کمزوریوں ور اس کی خطرناکیوں کو ان پر واضح کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی فکر پر نظر ثانی کے لیے آمادہ نہ ہوئے(۸۳)۔
جماعت اسلامی کی دینی سیاسی فکر کا اسلام کے مستند سیاسی فکر سے انحراف اور اس کے نتائج
مولانا مودودی لکھتے ہیںکہ : ” اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر کھی گئی ہے:توحید، رسالت اور خلافت“ (۹۳)۔ ان تینوں اصولوں سے وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت اور رسول کی لائی ہوئی شریعت کے نفاذ کا نظریہ اخذ کرتے ہیں۔ توحید کی حقیقت، رسول کی بعثت کا مقصد اور انسان کے اس دنیا میں پیدا کیے جانے کا مقصد ان کی نظر میںیہی ہے۔جس کا انھوں نے مختلف اسلوب و انداز میں مختلف جگہوں پر اظہار کیا ہے۔ رسول کی بعثت اور مشن پر گفتگو اسلام کے غلبے کے تصور کی بحث میں آئے گی۔ یہاں بقیہ دو امور : توحید اور خلافت انسانی پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
توحید: توحید کی تشریح مولانا مودودی اس طرح کرتے ہیں کہ:”توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا تنہا خالق، پروردگار اور مالک ہے۔ حکومت اور فرمان روائی اسی کی ہے۔“یہاں تک بات بالکل صحیح ہے لیکن اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ : توحید کا یہ اصول انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کر دیتا ہے۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حم قانون ہے۔“ اس طرح توحید کو ماننے یا موحد ہونے کا تقاضا ہے کہ غیر اسلامی شریعت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت کا مکمل انکار کیا جائے کیوں کہ یہ ان کی نظر میں توحید کے منافی ہے۔مولانا کی سب سے زیادہ مشہور اور متنازعہ فیہ کتاب ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ در اصل اسی نظریے کو قرآنی بنیاد پر ثابت کرنے کے لیے لکھی گئی۔ اس لیے تو حید اور قرآن کے تناظر میں لکھی گئی اس کتاب نے نوجوان طبقے پر سب سے زیادہ اثرات ڈالے۔ سید قطب نے بنیادی طورپر اسی کتاب سے ” جاہلیت“ اور ” حاکمیت الٰہ “کا نظریہ اخذ کیا جس کے تحت وہ جدید سوسائٹی کو اسلام سے ما قبل کی کفر و شرک پر مبنی، اسلام کی روشنی سے محروم سوسائٹی کے مثل قرار دیتے اور جمہوری و سیکولر سیاسی نظاموں کو ” طاغوت“ اور ان کی اتباع کرنے والوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف برسر جنگ ہونے کو فرض تصور کرتے تھے۔
اس کتاب میں مولانا نے بنیادی طورپر چار اصطلاحوں سے سے بحث کی ہے۔ یعنی : الٰہ، رب، دین اور عبادت۔ مولانا مودودی کی نظر میں یہ چاروں اصطلاحات اس درجے کی ہیں کہ :
” ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم بلکہ اس کی حقیقی روح نگاہوں سے مستور ہو گئی۔ اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد واعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔“(۰۴)
قرآن کی ان چاروں اصطلاحات سے مولانا نے خدا کے مافوق الفطری اقتدار و اختیار کے ساتھ سیاسی و تمدنی اقتدار و اختیار کا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے دلائل و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ : الٰہ یا رب کے مختلف معنیٰ ہیں۔ ان مختلف معنوں میں قرآن میں ان کا استعمال ہوا ہے لیکن ان کا مرکزی مفہوم اقتدار کا مفہوم رکھتا ہے باقی تمام مفہومات اور اس مفہوم میں ایک منطقی ربط ہے اور اس طرح اس کا ایک جامع مفہوم یہ نکلتا ہے کہ خدا ایک ایسی ذات ہے جو ہر صورت میں اقتدار اور حاکمیت کی طالب ہے۔اس حاکمیت اور اقتدار کا تعلق اس سے جس طرح تکوینی امور اور ما فوق الطبیعی(Metaphysical) امور میں ہے اسی طرح سیاسی، سماجی اور تمدنی امور میں بھی ہے۔ ان کے الفاظ میں الٰہیت (الٰہ یعنی خدا ہونے) کی اصل روح اقتدار ہے۔“ یا یہ کہ ” الٰہیت اور اقتدار لازم و ملزوم ہیں اور اپنی روح و معنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی چیزہیں “(۱۴) اسی طرح ’ رب ‘ کا مفہوم پروردگار ( پالنے والا) نہایت محدود مفہوم ہے۔ اس کا اصل مفہوم بھی ’ سید مطاع‘( آقا جس کی اطاعت کی جائے)، سردار ذی اقتدار جس کا حکم چلے جس کی فوقیت و بلا دستی تسلیم کی جائے، جس کو ” تصرف کے اختیار ہو“ ہے۔ اس طرح دین اور عبادت ان کے نزدیک خدا کے اقتدار کے آگے انسان کا جھک جانا اور اس کا محکوم ہو جانا ہے۔ اس اعتبار سے اصل دین اور اصل عبادت یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی ساری مخلوقات ما فوق الفطری طورپر اللہ کے آگے جھکی ہوئی ،اللہ کے حکم کی پابند ہیں اسی طرح سیاسی و تمدنی سطح پر بھی انسان اس کے حکم کو اپنے اوپر نافذ کر کے خود کو اس کا پابند بنائے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو نہ تو وہ دین کا حق ادا کرتا ہے اور نہ ہی عبادت کا۔ نہ ہی دین دار کہلانے کا مستحق ہے اور نہ عبادت گزار۔ اس طرح خدا کے ساتھ اس کا تعلق ، اس کی دین داری، اس کی عبادت کا تقاضا،” حکومتِ الہیہ“ کے اس زمین پر قیام کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ ان چاروں اصطلاحات کے تعلق سے مولانا نے الٰہ کے مطلوبہ مفہوم کے لیے آیات(۸۶:۸۲،۲۲،:۱۲) رب کے مفہوم کے لیے آیات(۵:۷،۴۱:۵۳ وغیرہ) عبادت کے مفہوم کے لیے آیات(۴۱:۰۱،۲۷۱:۲ وغیرہ) اور دین کے مطلوبہ مفہوم کے لیے آیات(۵:۸۹، ۲۵:۶۱،۴۱:۹۳) سے استدلال کیا ہے۔
بنیادی طورپر ان تمام آیات کے مفاہیم میں اقتدار و حاکمیت ( الٰہ اور رب کے مفہوم کے تعلق سے) اور اس اقتدار و حاکمیت کو بلا چون و چرا تسلیم کرنے ( دین اور عبادت کے مفہوم کے تعلق سے ) کا تعلق ما فوق الفطری(Metaphycal) اور تکوینی معنوں میں ہے نہ کہ تشریعی اور تمدنی و سیاسی معنوں میں۔یعنی خدا ” الٰہ“ کے معنی میں پناہ دینے والا، حاجت پوری کرنے والا ، ” رب “ کے معنیٰ میں پرورش کرنے والا ،دیکھ بھال کرنے والا تکوینی طورپر ہمیشہ سے خدا ہی ہے اور وہی رہے گا۔ اسی طرح عبادت اور دین کے حقیقی تقاضے کو اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ سے وابستہ کر کے دیکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی نظام سے باہر گزاری جانے والی زندگی سرے سے اسلامی نہیں ہے۔ دین و عبادت کا حق غیر شرعی معاشرے میں ادا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں پر پہلا فرض ہے کہ وہ ” امامت صالحہ“ یا ” حکومت الٰہیہ“ کو قائم کرنے کی کوشش کرےں۔اس طرح مولانا مودودی نے صدیوں کے ( اوراول درجے میں آج کے) تمام مسلم ممالک کی سوسائٹیوں کو جاہلیت کے خانے میں ڈال دیا۔ مصر کی سب سے ریڈیکل مسلم تحریک الہجرة و التکفیر جس کے ارکان اپنے علاوہ کسی کو مسلمان تصور نہیں کرتے تھے کی نظریاتی اساس در اصل یہی فکر تھی۔ یہ مولانا مودودی اور ان کی پیروی کرنے والوں کے ذریعہ اسلام کی سیاسی فکر میں پہلی صدی کے خارجیوں کے بعد سب سے بڑی تحریف ہے۔
محولہ بالا آیات جن سے مولانا نے استدلال کیا ہے، ان پر ایک نظر ڈالیے: قرآن کی آیت کا ٹکڑا ہے: ” وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں، دنیا و آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اور اس کے لیے حکم ( فیصلہ) ہے۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاﺅگے(۲۴)۔ آیت کے سیاق و سباق سے مافوق الفطری معنوں میں خدا کے اقتدار و حکومت کا معنی واضح ہے اور مفسرین میں سے تمام قابل ذکر مفسرین نے یہی معنی لیے ہیں مثلا: طبری، بحر المحیط، کشاف، خازن ، روح المعانی وغیرہ ۔ دور جدید کے مفسرین و مترجمین قرآن: اشرف علی تھانوی، مفتی شفیع، عبدالماجد دریا بادی، مولانا محمود حسن وغیرہ نے اسی کی پیروی اور تصدیق کی ہے۔
خلافت: خلافت کا نظریہ مولانا مودودی کی دینی سیاسی فکر کی ایک نہایت اہم کڑی ہے۔ خلافت کے تصور کے تعلق سے اسلامی فکر میں بہت پہلے سے ابہام اور انتشار چلا آرہاہے۔ مولانا مودودی نے ابہام سے فائدہ اٹھایا اور اپنے نظریہ سیاسی کو اس سے مستحکم کرنے میں مدد لی۔ خلافت کا نظریہ در اصل اس سوال سے مربوط ہے کہ زمین پر انسان کی حیثیت یا پوزیشن کیا ہے؟ مفکرین اور مفسرین قرآن کا ایک طبقہ اس خیال کا حامل رہاہ ے کہ انسان اللہ کی زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے، یہ نظریہ قرآن کی مختلف آیتوں (۵۶۱:۶،۰۳:۲) سے اخذ کیا گیا ہے جن میں ” خلیفہ“ اور ” خلائف“( خلیفہ کی جمع) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آیت :” ہم نے تم کو زمین پر جانشیں کی حیثیت دی یا جا نشیں بنایا“کی تشریح میں مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ :” انسان کو خدا کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔“ اپنے اس نظریے کی مزید تشریح وہ اپنی کتاب ” اسلامی نظام حیات“ میں اس طرح کرتے ہیں:
” اب خلافت کو لیجئے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب(vicegerent)ہے، یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے(۳۴)۔
ایک دوسری جگہ وہ اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
” اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں مسلمان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے۔ اسلامی نظریہ¿ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہوگی وہ در اصل خدائی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہوگی جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کرکے اس کا منشا پورا کرنا ہوگا۔“(۴۴)
مولانا مودودی کی طرح ہی سید قطب اپنی مشہور تفسیر ” فی ظلال القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ : وہ ( انسان) اس کی زمین میں ا س کا خلیفہ ہے۔ اور اس خلافت پر اس کو مقرر کرنے والا وہی ( اللہ) ہے۔“(۵۴) ۔ اس تفسیر کے انگریزی ترجمے میں قرآن کی اس آیت کا کہ : ” میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں“ ترجمہ یہ کیا گیا ہے:
Iam going to make my vicegerent on earth-(46)
اس میں myکا اضافہ مترجم نے اپنی طرف سے ( شاید) سید قطب کی فکر کو سامنے رکھ کر کر دیا، ورنہ قرآن میں اس کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز نے سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی کی متفقہ رائے سے اس موقف کی حمایت میں فتویٰ دیا اور مخالف رائے کی تردید کی(۷۴)۔
بہر حال مولانا مودودی کا یہ تصور سراسر اسلام کے خلاف ہے اس لیے اس بنیاد پر یہ نظریہ قائم کرنا کہ:
” یہ ( مسلمان) مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین و مبشرین کی جماعت نہیں، بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے اس پارٹی کے لیے حکومت کے اقتدار پر قبضہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔“(۸۴)
خلافت کے اس تصور کے تعلق سے سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام بنی نوع انسان( مسلم وغیر مسلم) خلیفة اللہ ہونے کی حیثیت میں برابر ہیں تو پھر یہ اختتار صرف ایک گروہ( مسلمان) کو کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دوسرے گروہوں کو اللہ کی حکومت کا شہری بنا کر ان پر حکومت کرے اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرے؟ اس لیے مولانا مودودی قرآن کی دوسری آیات سے مسلمانوں کے اس منصب یا مشن کو اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک آیت یہ ہے :’ ’ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو“(۹۴)۔ ” قائم رکھو“ کے لیے قرآن میں ” ا قیموا“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ا قام کے معنی عربی میں کسی چیز کو اچھی طرح کرنا ، اس کا حق ادا کر دینا کے ہیں۔چنانچہ نما ز کو اچھی طرح ادا کرنے کےحکم کے تعلق سے بارہ جگہ قرآن میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ۔ اس تعلق سے کوئی دوسرا معنی مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ عربی اور اردو کے تمام بڑے مفسرین نے دین کو قائم رکھنے سے دین کی اساسی تعلیمات(خدا کا ایک ہونا، مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، یوم حساب پرایمان لانا، رسالت کو تسلیم کرنا وغیرہ) پر اچھی طرح قائم رہنا یا خود کو قائم رکھنا مراد لیا ہے۔” دین“ سے شروع سے اخیر تک تمام انبیا کے درمیان مشترک دین کا یہی بنیادی تصور مراد ہے نہ کہ کل دین ( شریعت کا عملی ڈھانچہ) گویا اقامت دین ایک انفرادی عمل ہے نہ کہ اجتماعی۔ وہ ہر فرد سے اس کی اپنی ذات سے مطلوب ہے نہ کہ دوسروں کی ذات کے تعلق سے۔ اسلام پسند حلقوں میں اس کا ترجمہ جو ” دین کو قائم اور نافذ کرو“ سے کیا جاتا ہے اس کی کوئی علمی بنیاد اور قرآن و سنت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
خلاصہاوپر کی گئی پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک اخلاقی اور روحانی مذہب ہے۔ وہ کسی سیاسی فکر کا نام نہیں ہے۔ سیاست اسی کا جز ضرور ہے لیکن وہ اس کے Coer Values میں شامل نہیں۔ مذہب ہونے کی حیثیت سے وہ سیاست کے بغیر بھی اتنا ہی مکمل ہے جتنا سیاست کے ساتھ۔ قرآن کی آیات اور رسول اللہ کا عمل اس بات کے واضح دلائل فراہم کرتے ہیں کہ اسلام پلورلزم میں یقین رکھتا ہے۔ وہ کسی کے عقیدے کی بنیاد پر اس کے ساتھ امتیازی برتاﺅ کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کی سیاسی فکر کی تشکیل چونکہ اسلام کے تہذیبی عروج اور غلبے کے دور میں ہوئی تھی اس لیے اس میں ایسے نظریات نے راہ پالی یا بعض نظریات کے ایسے مفہومات نکال لیے گئے جن سے دوسری قوموں کے ساتھ ابدی طورپر جنگ اور کشمکش کو جواز فراہم کر دیا گیا حالانکہ یہ قرآن کی فکر اور اسلام کی روح کے خلاف ہے۔
مولانا مودودی ، سید قطب اور اسی طرح کی بیسویں صدی کی دوسری مسلم شخصیات کی فکر اس دور کے سیاسی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھی۔ انھوں نے اسلام کو سیاست کے تابع کر دیا اور سیاسی اقتدار کے حصول اور اسلامی حکومت کے قیام کو اسلام کا اصل مقصود قرار دے ڈالا۔ یہ ایسی جسارت ہے جو اسلام کی پوری فکری تاریخ میں کبھی نہیں کی گئی۔ اس فکر سے پورے دین کا تصور اپنے مرکز سے ہٹ گیا۔ لیکن یہ بات ذہن مںی رہنی چاہیے کہ در اصل یہ اسلام کی روایتی دینی سیاسی فکر کا انتشار اور غیر معقولیت ہے جس نے جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون سمیت دوسری احیائی تحریکوں کو اسلام کوPoliticiseکرنے کا موقع دیا۔
شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ : رسول اللہ کے انتقال کے ساتھ ہی روم اور فارس کی مہمات شروع ہو گئیں اور عرب کی دماغی اور عملی قوت کا سارا زور مہمات ملکی کی طرف مصروف ہو گیا۔“( مقالات شبلی) اسلام کی دینی سیاسی فکر کے نقائص اور کمزوریوں کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس وقت کی شدید ضرورت ہے کہ اسلام کی روایتی سیاسی فکر پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں مناسب تبدیلی لائی جائے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کے عمل کو متحرک کر کے مذہبی فکر کی نئی تشکیل کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔
حواشی اور فٹ نوٹس
(۱) الخلق عیال اللہ ( بیہقی) (۲) الشوری: ۳۱ (۳) فتح الباری: ۲۷۱/۱ (۴) بخاری حدیث نمبر ۳۱ ، نسائی حدیث نمبر ۹۳۰۵ (۵) نسائی حدیث نمبر ۵۹۹۴ (۶)مشکوٰة : باب الرفق والحیا وحسن الخُلق ص ۴، ۳، ۲ (۷) البقرہ : ۵۹۱، التوبہ : ۶۳ (۸) البقرہ : ۳۹۱، البقرہ : ۷۱۲ (۹) بخاری (۰۱) القصص : ۷۷ (۱۱) بخاری (۲۱) البقرہ : ۶۸۲ (۳۱) آل عمران: ۹۷ (۴۱) بنی اسرائیل :۰۷ (۵۱) در مختار (۶۱) الروم : ۲۲ (۷۱) الججرات: ۳۱ (۸۱) البقرہ: ۶۵۲ (۹۱) الکہف: ۹۲ (۰۲) یونس : ۹ (۱۲) التغابن: ۲ (۲۲) الکافرون : ۶(۳۲) البقرہ: ۹۳۱، القصص : ۵۵ (۴۲)ابن ہشام: السیرة النبویة ۲/۷۴۴ (۵۲) حمید اللہ: خطبات بہاول پورص:۸۱۴ (۶۲) الحج: ۰۴ (۷۲) المائدہ: ۸ (۸۲) النسائ: ۵۳۱ (۹۲) نسائی (۰۳) یوسف قرضاوی: من فقہ الدولة فی الاسلام ص: ۷ (۱۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: اسلام اور بین قوامی تعلقات منظر اور پس منظر ( مصنف کی اصل کتاب عربی میں یہ اس کا اردو ترجمہ ہے جو قاضی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا ہے۔ (۲۳) محمد اقبال: تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ( ترجمہ : نذیر نیازی Reconstruction of Religious thought in Islam )چھٹا خطبہ الاجتہاد فی الاسلام ص :۳۵۲ (۳۳) احیاءعلوم الدین : ۱/۲۲ (۴۳) اقبال افغانی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” یہ غالباً شاہ ولی اللہ تھے جنھوں نے سب سے پہلے ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی۔ لیکن اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا تو سید جمال الدین افغانی کو جو اسلام کی حیات ملی اور حیات ذہنی کی تاریخ میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور ان کی عادات و خصائل کا خوب خوب تجربہ رکھتے تھے۔“ لیکن ان کا زیر حوالہ عادل ڈکٹیٹر کا نظریہ اقبال کی ان کے بارے مںی رائے کے بالکل بر عکس ہے۔ (۵۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: ازمة العقل المسلم ص ۸۳ (۶۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: اسلام اور بین اقوامی تعلقات ص: ۲۹(۷۳) مصطفی ابو زید الناسخ والمنسوخ ۲/۸۰۵ (۸۳) ان دو شخصیات میں سے پہلا نام مولانا وحید الدین خاں کا ہے جنھوں نے اس موضوع پر ” تعبیر کی غلطی ( ۳۶۹۱) “ لکھی اور دوسرا نام مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ہے ۔ ان کی کتاب کا نام ہے” عصر حاضرمیں دین کی تفہیم و تشریح(۸۷۹۱)‘ (۹۳) اسلام کا نظام حیات (۰۴) قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ص: ۰۱ (۱۴) ایضاً (۲۴) القصص: ۰۷ (۳۴) اسلام کا نظام حیات ص ۶۱ (۴۴) ایضاً (۵۴) ص:۷۰۷/۲ (۶۴) ص :۰۱ (۷۴) محمد صبیح الدین انصاری : کیا انسان خلیفة اللہ ہے ص ۱۷۱ (۸۴) مسلمان اور سیاسی کشمکش (۹۴) الشوریٰ: ۳۱ (۰۵) المعجم الوسیط (٭) H.A.R. Gibb : Muhammadanism p.91 ( بحوالہ اسلام اور بین الاقوامی تعلقات ص ۵۳۱)

Friday, November 27, 2009

Hadith Ghazwatul Hind aur Mas'ala-e-kashmir per us ke Intibaq ki Jasarat

حدیث غزوةالہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کے انطباق کی جسارت
کشمیر کے تنازع کی بنیاد پر ایک عرصے سے پاکستان کی جہادی تنظیموں نے ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔اقدامی اور جارحانہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شخصی اور خفیہ (proxy) نوعیت کی جنگ ہے جس کی اسلام میںکسی بھی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہ اسلام کے تمام تر مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔پاکستان کے معتبر دینی و علمی حلقے اسے محض ایک قومی و سیاسی لڑائی تصور کر تے ہیں۔اسے اسلامی جہاد کی شکل میں نہیں دیکھتے۔لیکن پاکستان کی مختلف جہادی تحریکیں، جنھیں ملک کے علما اور اسکالر س کے ایک گروپ کی بڑے پیمانے پر عوامی تائید حاصل ہے ،دونوں ملکوں کے اس تنازع کو جہاد کی شکل میں دیکھتی ہیں، بلکہ اسے اپنے جہادی مہم کا پہلا پڑاﺅ تصور کرتی ہیں۔دوسرا پڑاﺅ پورے ہندوستان کو دارالاسلام(پاکستان) میں شامل کر نا اور اس کے بعد کے مراحل میں دنیا کے دوسرے خطوں پر اسلامی ’بالا دستی ‘(hegemony)قائم کرنا ہے۔ہم نے بالا دستی کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔در اصل پاکستان اور عرب ممالک کی ریڈیکل مسلم تحریکوں کا ذہن پوری طرح ماضی کی استعماری اور حال کی امپریل طاقتوں کی سفاکانہ جولانیوںسے متاثر ہے۔وہ ان کی سیاسی بالادستی کے کاﺅنٹر کرنے کے لےے اسلامی سیاسی بالا دستی کا تصور رکھتی ہیں جو اسلام میں سراسر اجنبی ہے۔قرآن (الصف : )اور حدیث(الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ) میں غلبہ¿ اسلام سے مراد اسلام کا نظریاتی ا ورروحانی غلبہ ہی ہوسکتا ہے اور بلا شبہ دوسرے مذاہب و نظریات کے مقابلے میں اسلام کو یہ غلبہ پہلے بھی حاصل تھا اور اب بھی حاصل ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبرانہ مشن بنیادی طور پر یہی تھا جس میں آپ پوری طرح کامیاب رہے ورنہ دوسری صورت میں کو ئی یہ کہہ سکتاہے ،جیسا کہ ایک عرب مصنف سلیمان البدر نے دعوی کیا تھا کہ (نعوذ با للہ ) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم دینی سطح پر کامیاب لیکن تاریخی سطح پر ناکام رہے( عربی روزنامہ الانبائ۔کویت۹،دسمبر ۱۹۹۶ بحوالہ: عربی ماہنامہ البیان ۔لندن اپریل ۔مئی ۱۹۹۷)۔خود اسلام پر اسلام کے ماننے والوں کی طرف سے کےے جانے والے ظلم و ستم میں سے ایک بڑاظلم یہ ہے کہ آج غیر مسلموں کے ساتھ پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی قومیت ،علاقائیت،یا دوسری بنیادوں پر واقع ہونے والی لڑائی یا تنازع کو عوام کا دل جیتنے اور دنیا کما نے کے لےے جہاد سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔اس سے دنیا بھر میں اسلام کی جو رسوائی ہورہی ہے اس کی مثال ماضی میں کم ملتی ہے۔
ہند وپاک کے مابین کشمیر کا تنازعہ پچھلے ساٹھ سالوں سے جاری ہے جس کو حل کر نے کی مختلف سطحوں پر کوششیں ہوتی رہی ہیں۔اس تعلق سے پاکستان کے حصے میں آنے والی ناکامیوں اور مایوسیوں کی بناپر وہاں کی جہادی تحریکوں کے علاوہ علما اور اہل دانش کی ایک بہت بڑی تعدادنے بھی اسے اسلامی جہادو قتال سے تعبیر کرنا شروع کردیا ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اسے بعض معروف علما کی طرف سے فرض عین قرار دینے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ اب جہاد کو ہی غایت اور وسیلہ سمجھنے کی بالقصد غلطی میں مبتلا ایک بڑا جہادی حلقہ کشمیر سے متعلق اپنے نام نہاد جہاد کوعین اس حدیث رسول کامصداق تصور کرنے لگا ہے جس میں ہندوستان پر غزوے کی بات کہی گئی ہے۔صحاح ستہ میں سے صرف نسائی میںحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ،اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کر دوں گا۔اگر قتل ہوگیا تو میں افضل ترین شہدا میں شمار ہوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا“(۱۱/۲۶)۔اس قبیل کی ایک دوسری روایت رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:میری امت میں دو گروہ ایسے ہوںگے جنھیں اللہ تعالی نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے۔ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا گروہ وہ ہے جو عیسی ابن مریم کے ساتھ ہوگا“۔الفاظ کی کمی و زیادتی کے ساتھ نسائی کے علاوہ یہ حدیث مسند احمد بن حنبل ،بیہقی،اور طبرانی وغیرہ میں بھی نقل کی گئی ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر اس حدیث کے انطباق سے مختلف ملکوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جاری کش مکش کے مقابلے میں اس کی حیثیت بالکل منفرداور ممتاز ہو جاتی ہے ۔اس صورت میں اس بات کا امکان شدید طور پر بڑھ جاتا ہے کہ ہندوستان پر غزوے(چڑھائی)کی” فضیلت“ کے مد نظر شہادت کے لےے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے بے تاب افراد اور جماعتیں کشمیر کو اپنی امیدوں کا مرکز تصور کر لیں۔فی الواقع بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔انٹرنیٹ پر غزوة الہند کے تعلق سے مختلف سائٹس(مثلاً:ww.ghazwatulhind.com)اس نکتہ نظر کی تبلیغ میں مشغول ہیں۔ایک سائٹ پرغزوةالہند پر ریکارڈ شدہ کسی عرب کی انگریزی تقریر صاف طور پر سنی جا سکتی ہے۔پاکستا ن میں اس موضوع پر مقالات شائع ہوتے رہے ہیں۔ہمارے سامنے پاکستان کے موقر اردو مجلے”محدث“ لاہور کا ا گست2003 کا شمارہ ہے۔۔ اس میں غزوئہ ہند پر بیس صفحات کا ایک مضمون شامل ہے ۔مقالہ نگار: ڈاکٹر عصمت اللہ انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔اس میں کشمیر کے نام نہاد جہاد کو اس حدیث پر منطبق کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے ۔اسی حدیث کے تحت پاکستان کے نام نہاد جہادیوںکی ایک تعداد پورے ہندوستان کے ساتھ جہاد وقتال کی بات کرتی ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ اس میں ملوث بھی ہے،لےکن ”محدث“ نے مذکورہ مقالے میںواضح طور پر اس نکتہ نظر سے اختلاف کیا ہے ۔ اور جا بجا فٹ نوٹس میں اس پر عالمانہ تنقید کی ہے۔ پاکستان کے موقر دینی و علمی پرچوں میں یہ بحث نظر نہیں آتی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کی غالب راے اس کے خلاف ہے۔لیکن اس تعلق سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ موجودہ جہادی سرشت کی ترکیب میں علم و دلائل کو کم اور اندھی جذباتیت اور موجودہ سیاسی صورت حال سے متاثر رد عمل کی نفسیات کو دخل زیادہ ہے۔پاکستان سمیت عرب و غرب کی ساری جہادی تحریکات اسی ضمن میں آتی ہیں ۔اس لےے بجا طور پر یہ حدیث ان کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے اور مزید بن سکتی ہے، معصوم ذہنوں کواس سے پھانسنے کا کام لیا جا رہا ہے۔ممکن ہے کہ ممبئی حملے کے نوجوان جہادیوں کے ذہن کو اس حدیث کے ذریعے mouldکرنے کی کوشش کی گئی ہو۔قابل تشو یش بات یہ ہے کہ اس حدیث کے تحت، اگر بالفرض کشمیرانڈیاسے علاحدہ ہو جائے تب بھی اس کے ساتھ تاقیامت جہاد کاتصور قائم رہتا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک پہلو ہے۔اس جہادکی زد ہندوستانی مسلمانوں پر جس طرح پڑ رہی ہے اور پڑ سکتی ہے وہ بالکل ظاہر ہے۔اس اعتبار سے یہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے سنجیدہ فکر علما و اہل دانش کے لےے لمحہ فکریہ ہے۔
بد قسمتی سے جہاد سے متعلق نظریہ ان اسلامی نظریات میں سے ایک ہے جو تحریف اور افراط وتفریط کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں ۔اس کی ابتدا اسلام کی پہلی صدی سے ہی ہو گئی تھی جب مسلمانوں کی باہمی جنگ و جدال کو ایک گروہ نے جہاد کے ہی نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔بخاری کی کئی روایتوں میں حضرت عبداللہ بن عمر کی اس پر تنقید موجود ہے۔ جہاد و قتال کی اس غلط تعبیر و تشریح کی مستقل روایت کا نتیجہ ہے کہ دوسروں کے ذریعے کےے جانے والے ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اعمال کو اپنے لےے حلال اور دینی کارنامہ سمجھ لیا گیا،جس کی ایک بد ترین مثال خود کش حملہ ہے۔ اس کے علاوہ غیر حکومتی (پرائیوٹ) سطح پر جہاد کا تصور بھی اس کی نمایاں مثال ہے۔جہاں تک میرے علم میں ہے”سیمی“ نے بھی اس حدیث کی اپنے حلقوں میں تقسیم و اشاعت کی تھی۔ ” سیمی“ کے علاوہ کسی قابل ذکر ہندوستانی عالم نے اس کی ”پاکستانی تشریح“ نہیں کی۔
اس حدیث سے متعلق غور و فکر کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:۔٭پہلی بات تو یہ کہ یہ حدیث صحاح ستہ میں سے صرف نسائی میں مذکور ہوئی ہے۔حالاں کہ اس حدیث میںغزوة الہند کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا تقاضا تھا کہ یہ صحابہ کرام خصوصا اکابرصحابہ رضی اللہ عنہ کے درمیان زیادہ سے زیادہ مشہور ہو ۔اور فتح قسطنطنیہ(ترکی )کی پیش گوئی کی طرح بلکہ اس سے زیادہ اس کو اہمیت حاصل ہو۔فتح قسطنطنیہ سے متعلق حدیث صحیحین میں واضح الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔
٭اگر یہ حدیث صحیح ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ صحیح ہو،تو حقیقت میں اس کی پیش گوئی اسلام کی ابتدائی دور میں ہی پوری ہو چکی ہے۔علما کی اکثریت اس پر متفق ہے اور یہی بات عقل و قیاس کے عین مطابق ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت 15ھ میں حضرت حکم رضی اللہ عنہ اور حضرت مغیرہ بن العاص رضی اللہ عنہ کے ذریعے تھانہ،بھروچ وغیرہ اور اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں سندھ و گجرات کے مختلف شہروں کے راستے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ہندوستان میں قدم رکھا اور دعوتی و سیاسی سطح پر اسلام کے تعارف و اشاعت کی کوششیں کیں۔
٭بعض علما اور شارحین حدیث کی راےے میں اس سے 93ھ میں محمد بن قاسم ثقفی کے ذریعے سندھ پر کیا جانے والا حملہ مراد ہے جو بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اسلام کی اشاعت اور استحکام کا ذریعہ بنا۔مسند احمد بن حنبل میں با ضابطہ اس جملے کے ساتھ یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ ’:’سندھ و ہند کی طرف لشکر کی روانگی ہوگی“۔اس سے جہاں اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ ہو نہ ہو یہ حدیث دور اموی میں اسی خاص سیاسی مقصد کے لےے وضع کی گئی ہو، وہیں اس کے صحیح ہونے کی صورت میں یہ واقعہ حدیث کا قریب ترین مصداق نظر آتاہے۔محدث کے مذکورہ مقالے میںادارے کی طرف سے تنقیدی نوٹ میں اسی کو ترجیح دیا گیا ہے۔
٭اس حدیث سے واضح طور پر کسی متعین واقعے(غزوے) کو ہی مراد لیا جا سکتا ہے نہ کہ واقعات (غزوات) کا تسلسل جیسا کہ اوپرذکر کردہ مضمون میں ثابت کرنے کی کوشش گئی ہے۔ بعض دیگر علما کو بھی یہ خیال گزرا ہے جو سراسر حدیث کے الفاظ اور مضمون کے خلاف ہے۔
٭ نہایت اہم سوال ہے کہ کیا برصغیر ہند پر مسلم حکم رانوں کی طرف سے متعدد اور مسلسل جنگی یا جہادی کارروائیوں ، تقریبا600 سال تک برصغیر ہند پر مسلمانو ںکی حکومت اور اس کی آدھی آبادی کے اہل اسلام پر مشتمل ہونے کے با وجود ، اس بات کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اس کو جہاد و قتال کا ہدف قرار دیا جائے ۔بر صغیر ہند میں اب باضابطہ دو مسلم ملک وجود میں آچکے ہیں ۔موجودہ ہندوستان میں اسلام کی پر امن دعوت کے تمام تر ذرائع اور امکانات موجود ہیں ۔یہ پہلو اس کے علاوہ ہے کہ دونوں ملک باہم اشتراک و تعاون کے معاہدوں سے جڑے ہوئے ہیں اور علما کی متفقہ راےے کے مطابق آج پوری دنیا ایک عملی معاہدے کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے اہم علما آج سے تقریبا پون صدی پیشتر اس کا اعلان کرچکے تھے۔ ا س صورت حال میں کشمیر کی نام نہاد آزادی کے نام پر کی جانے والی’ پراکسی‘ جنگ فریق ثانی کے ساتھ دھوکے کی کارروائی اور اسلام کے تسلیم شدہ اصولوں کے ساتھ کھلی بغاوت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
٭محمود غزنوی، شہاب الدین غوری،امیر تیمور ،نادر شاہ وغیرہ مسلم حکم رانوں کے لےے یہ بہت آسان تھا کہ وہ اس حدیث کو ہندوستان پر اپنی لشکر کشی کے جواز کے کے طور پر پیش کریں ۔ ان کے درباری علما انھیں یہ نکتہ سجھا سکتے تھے۔لیکن ہندوستانی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں میں ان کے حالات میں یہ بات نہیں ملتی ۔ شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے مراٹھوں کے زور کو توڑنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر چڑھائی کی دعوت دی لیکن انھوں نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنا یا۔
٭پیغمبرانہ پیش گوئیوں کے تعلق سے یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ان کی زبان بالواسطہ اور علامتی ہوتی ہے۔اس کے صحیح مفہوم ومصداق تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لےے بہت کچھ تاویل و قیاس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لےے ان کی توجیہ و تفہیم محض امکانی اور قیاسی حد تک ہی ممکن ہے۔
بہر حال یہ اندھی اور افسوس ناک جسارت ہے کہ غزو ةالہندسے متعلق حدیث کو نام نہاد جہاد کشمیر اور ہند و پاک کی محاذ آرائی پر محمول کیا جائے۔ یہ صریح طور پر اللہ کے رسول کے ساتھ آپ کے نام نہاد متبعین کی طرف سے برتا جانے والا ظلم ہے ۔برصغیر ہند وپاک کی جہادی تحریکات اپنی نفسیات اور طرز عمل میں خوارج کی طرح ہیں جن سے متعلق پیغمبر اسلام نے واضح پیش گوئی کی تھی کہ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔وہ انھی کی طرح سے ،جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے متعلق کہا تھا،کلمئہ حق سے باطل مراد لیتے ہیں (کَلِمَة ُحَقٍّ اُرِیدَ بِہَا البَاطِلُ)۔
اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اہل علم و فکر خصوصا علما کا طبقہ اسلامی نصوص کے ساتھ اس کھلواڑ اور احیائے اسلام کے نام پر تخریب اسلام کی کوشش کاسخت نوٹس لے ۔جہاد اسلام میں فتنے کے خاتمے کے لےے مشروع کیا گیا لیکن اس وقت فتنہ پھیلانے کے لےے جہاد کیا جارہا ہے۔ عوام کو اس پہلو کی خطرناکیوں اور اس کے نتائج سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس تعلق سے ہند و پاک کے علما کی ذمہ داری خاص طور پر بڑھی ہوئی ہے۔مسلم حلقوں کی طرف سے دہشت گردی کے الزامات کے دفاع کے لےے جہاں آئے دن سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہور ہی ہیں ،وہیں با ضابطہ طور پر ایسے علمی پروگراموں کے بھی انعقاد کی ضرورت ہے،جن کے توسط سے یہ محاسبہ کیا جا سکے کہ کس طرح اسلام کے نام پر اسلام کے نام نہاد سپاہی جہاد کے عنوان سے دہشت گردی کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسلامی جہاد کے روایتی تصورات پرنظر ثانی کی شدید ضرورت ہے ۔ اقدامی جہاد اسی طرح تکثیری معاشرے میں جہاد کی اجازت دینا محض دعوتی امکانات کوتباہ کر نا اور امت مسلمہ کی تباہ حالیوں میں اضافہ کرنا ہے۔اسلام کی سیاسی فکر میں پائے جانے والے خلا او ر مختلف تضادات کو نظری سطح پر جبتک دور نہ کیا جائے ، آج کے جمہوری اور مشترکہ معاشرے کے ساتھ اس کے تصادم کوختم نہیںکیا جاسکتا۔اس سے مسلمانوں کے اندر ایک شدید اجتماعی اخلاقی بحران کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے آثار صاف نظر آرہے ہیں۔ صرف الزامات کا لفظی سطح پر دفاع اور دہشت گردی کی سادہ اور عمومی اندازکی مذمت کافی نہیں ہے۔حقیقت یہ کہ اس وقت خود جہادی تحریکات کے خلاف ’جہاد‘چھیڑنے کی ضرورت ہے اور یہ جہاد بلا شبہ علما اور اہل فکر ہی کر سکتے ہیں۔

Islami Akhlaq ke tanazur main muslim gher muslim ta'alluqat ki tashkil

اسلامی اخلاق کے تناظر میں مسلم غیر مسلم تعلقات کی تشکیل
مسلم غیرمسلم تعلقات کے حوالے سے اسلامی اخلاق کی چار اہم بنیادیں ہیں: ۔
انسانیت عامہ کا اسلامی تصور۔
انسانی حقوق کا اسلامی تصور۔
تکثیریت کا اسلامی تصور۔
اسلام میں امن کا تصور۔
انسانیت عامہ کا اسلامی تصور:۔
اسلام کے انسانیت عامہ کی بنیاد تین اصولوں پر ہے:(۱)وحدت (۲) کرامت (۳) مساوات۔ قرآن میں تکرار کے ساتھ اس بات کو انسان کے ذہن نشیں کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کی اصل(۳) ایک ہے اور وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہے۔ البتہ اسے شعوب وقبائل میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ (۴) اور اس کا مقصد قرآن کے لفظ میں ”تعارف“ ہے۔ تعارف کا مطلب ہے مواسات اور ایک دوسرے کی خبرگیری کرنا۔ حدیث سے اس مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ انسان وہ ہے جو خدا کے کنبے کے ساتھ بہترین سلوک کرے (۵) گویا صورت میں متفرق بندے کو اللہ تعالیٰ دلوں میں متحد دیکھنا چاہتا ہے اور یہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کی مصلحت میں سے ہے اور انسان کے لیے ایک آزمائش ہے۔ انسان کو اس فرق وامتیاز کو تسلیم کرتے ہوئے دلوں کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیے۔
توحید انسان کی فطرت ہے اور اس کا تعلق خود خدائے واحد کی ذات وحقیقت سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا۔(۶) بہترین صورت پر پیدا کرنے کی وضاحت اس حدیث سے یہ ہوتی ہے کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ہے (۷) قرآن کے مطابق خدا نے آدم کی اپنے ہاتھ سے تخلیق کی اور اس میں اپنی روح پھونکی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پوری انسانیت اپنی صورت اور حقیقت میں خدا کی ذات کا پرتو ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اسلامی تصوف کے وجودی فلسفے میںوسیع طور پر استعمال کیا گیا ہے اور صوفیا کے بعض طبقات اور سلسلے اسے تصوف کے مغز اور روح سے تعبیر کرتے ہیں۔ حدیث میں انسان کو خدا کے اخلاق کو اختیار کرنے کی ترغیب وہدایت انسان کی اسی خصوصیت کی بناپر دی گئی ہے۔ خدائی اخلاق کے بغیر وہ خدا کی عطا کردہ خلافت کی ذ مہ داری ادا نہیں کرسکتا۔
(ب)انسانیت عامہ کی دوسری اصولی بنیاد کرامت انسانی کا قرآنی نظریہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو مکرم بنایا اور دنیا والوں پر اسے فضیلت بخشی۔ (۸) انسان اپنے اعمال سے قطع نظر خود اپنی خلقت اور ذات کی بنیاد پر بھی کرامت کا مستحق ہے۔ اسی بات کو ایک شرعی اصول کے طور پر مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین شامی نے اس طرح بیان کیا ہے کہ: الآدمی مکرم شرعا ولو کافرا(۹) رسول اللہ کی احادیث اور آپ کے عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔آپ کے سامنے سے کسی یہودی کا جنازہ بھی گزر تا تو آپ کھڑے ہوجاتے اس عمل پر صحابہ کی حیرتناکی اور سوال کا جواب آپ نے یہ دیا کہ:” کیا یہ انسان نہیں “(الیست نفساً) (۱۰) پیغمبر اسلام کا اس طرح کھڑا ہونا اسی انسانیت کے احترام میں ہوتا تھا۔
واقعاتی سطح پر انسان کی تکریم کے دو اہم پہلو ہیں:۔
ایک یہ کہ خدا نے اسے فرشتوں کا مسجود بنایا اور ابلیس کو اس سے انکار پر ابدی لعنت کا مستحق قرار دیا۔ دوسرے اسے زمین کا خلیفہ بنایا اور اسے اپنی امانت سونپی۔ اس میں پائے جانے والی فساد فی الارض اور خوں ریزی کی صفت کو، جس کا سوال فرشتوں نے خدا کے سامنے اٹھایا تھا، اسے خلافت کے منصب سے جوڑ کر دیکھے جانے کو یہ کہہ کر نظر اندازکر دیا کہ: انی اعلم مالا تعلمون(۱۱) گویا اس کے اندر بدی کی صفات اس کے اس اعزاز ( خلافت ارضی) میں حارج نہیں ہیں۔
(ج) اس کی تیسری بنیاد مساوات بین الناس پر ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الناس سواسیة کا سنان المشط ( انسان کنگھی کے دانوں کی طرح آپس میں برابر اور یکساں ہیں)اور ان العباد کلہم اخوة (اللہ کے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں)(۱۲) عالمی بھائی چارے اور مساوات بین الناس کے اس تصور میں بھی انسان کا عقیدہ شامل نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق، تاریخ میں جن انسانی جماعتوں اور قوموں: عاد،ثمود، اصحاب مدین اور قوم لوط وغیرہ کے پاس پیغمبروں کو مبعوث کیا گیا۔ قرآن میں ان پیغمبروں کو ان لوگوں کا بھائی بتایا گیا ہے۔ (۱۳) حالاں کہ ان قوموں میں سے کم یا بیش لوگ ان پیغمبروں کا انکار کرنے والے تھے۔ اسی طرح قرآن کے مطابق، پیغمبروں نے اپنے مخاطبین کو ”قومی“ کہہ کر مخاطب کیا حالاں کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد ان پر ایمان لانے والی نہیں تھی۔ ان میں کفار ومشرکین بھی شامل تھے۔ گویا خود قرآن کے مطابق ان دونوں کو ایک رشتے میں پرونے والی چیزنسلی قومیت تھی نہ کہ مذہب۔(مزید تفصیل کے لیے: متحدہ قومیت: مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ)۔
پیغمبر اسلام پوری انسانیت کے نبی تھے۔ اس لیے پوری انسانیت کے ساتھ ان کا پہلا رشتہ قومی رشتہ ہے اور اس میں تمام مسلم وغیر مسلم برابر ہیں۔ متفقہ طور پر علمائے اسلام نے اس کی تعبیر اس طرح کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے تعلق سے مسلمان امت اجابت اور غیر مسلم امت دعوت ہیں۔ غیرمسلموں کو خواہ یہ رشتہ قابل قبول نہ ہو لیکن مسلمان ان کے ساتھ دوہرا رشتہ رکھنے کے پابند ہیں۔ پہلا رشتہ رکھنا اگر انسانی ذمہ داری ہے تو دوسرا رشتہ رکھنا مذہبی ذمہ داری ۔
انسانی حقوق کا اسلامی تصور
انسانیت عامہ کے اس اسلامی تصور سے حقوق انسانی کا اسلامی تصور قائم ہوتا ہے۔ یعنی ایک شخص جو انسان ہونے میں مشترکہ انسانیت کا حصہ ہے وہ بنیادی انسانی حقوق کا بھی مستحق ہے۔ قرآن میں ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے۔ گویا ایک انسان کا وجود پوری انسانیت کا وجود ہے۔ ایک فرد کی اس یونی ورسل اہمیت کی معنویت اسی صورت میں باقی رہ سکتی ہے کہ اسے یونی ورسل حقوق بھی حاصل ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی ملک کے شہری پر شہری ہونے کا صحیح اطلاق اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسے شہری حقوق حاصل نہ ہوں۔ ہر انسان خدا کی ”یونی ورسل مملکت“ کا ایک شہری ہے اور اس لیے وہ دوسرے انسانوں کی طرح تمام انسانی حقوق کا حق دار ہے۔ وہ مذہبی حقوق ہوں، یاسماجی، سیاسی، معاشی یا اور دوسرے حقوق۔ پچھلی قوموں کے مقابلے میں رسول اللہ کے بعد اب پوری انسانیت سے ہلاکت وتباہی کا عذاب اٹھاکر اسے ایک خدائی تحفظ فراہم کردیا گیا ہے۔ خدائی تحفظ کا یہ تکوینی نقشہ اپنے آپ میں اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے انسانی اور مادی سطح پر اسی طرح برتا جائے۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ نے زمین پر جو شریعت نازل کی اس کامقصد ان پانچ بنیادی حقوق کی حفاظت ہے: (۱) حفظ نفس۔ (۲) حفظ مال۔ (۳)حفظ دین۔ (۴)حفظ عقل۔(۵) حفظ نسل۔ پانچ کی تعداد استقرائی ہے۔ تحدیدی نہیں۔علّامہ شاطبی کے بعد دوسرے علما نے ان میں اضافے کئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس ضمن میں ان تمام حقوق کو سمجھا جانا چاہیے جو ضروری اور بنیادی ہیں اور جن کا تحفظ ضروری ہے۔
مختصراً یہ تمام حقوق انسان کو اس لیے حاصل ہیں، جیسا کہ اسلامی نصوص سے اس کا تصور قائم ہوتا ہے، کہ: خدا تمام انسانوں کا خالق ہے ۔وہ انسانوں سے محبت کرتا ہے ۔تمام انسانوں کو اس نے مکرم بنایا انھیں خلافت کا اعزاز بخشا۔ تمام مذاہب میں مشترک اس زریں اصول کاکہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو کا تقاضا یہی ہے اور بجائے خود یہی بات عقل و فطرت کے مطابق ہے۔
اسلامی تکثیریت اور بقائے باہم
اسلامی تکثیریت اور بقائے باہم اسلامی عقائد وروایات کے بنیادی اقدار میں سے ہے۔ قرآن کی مختلف آیات میں اسے فطری مظہر کے طور پر پیش کیا گیا ہے: ”اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تم نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مختلف رنگتوں کے پھل نکالے اور پہاڑوں کے مختلف حصے ہیں، سفید اور سرخ کہ ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاہ اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ ان کی رنگتیں مختلف ہیں۔ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔“ (۱۴)۔
رنگ، نسل زبان، قومیت اور قبائلی شناخت کوامتیاز کی بنیاد تسلیم نہیں کیا گیا ہے بلکہ فطرت کا تقاضا سمجھ کر اسے برداشت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ صرف ایک امتیاز کو باقی رکھا گیا ہے اور وہ مذہب کا امتیاز ہے کیوں کہ انسانی اعمال کا میزان مذہب ہے۔ تاہم مذہب کے اس امتیاز کے باوجود ہر شخص کو ارادے اور عمل کی کلی آزادی دے دی گئی ہے اور مذہب کو اس کے سماجی و شہری حقوق میں حارج نہیں ہونے دیا گیا ہے۔
قرآن میں ایک واضح اصول کے طور پر کہا گیا ہے کہ دین میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے (۱۵) اور انسان کو اختیار ہے کہ وہ جو مذہب یا جو نظریہ چاہے اختیار کرے (۱۶) اس لیے کہ یہ خود اللہ کی مصلحت میں سے نہیں ہے کہ سارے لوگ ایک فکر اور ایک طریقے کے پابند ہوجائیں: اگر آپ کا رب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ ایمان قبول کرلیتے۔ کیا لوگوں کو مومن بنانے کے لیے آپ ان کے ساتھ زبردستی کریں گے۔“ دوسری جگہ کہا گیا ہے: ”اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو صرف ایک امت بنادیتا۔ “(۱۷) ”اللہ نے ہی تمہاری تخلیق کی ہے تو تم میں کچھ لوگ مومن ہیں اور کچھ لوگ منکر“۔ اس طرح مومن کے ساتھ منکر ہونے کو ایک ابدی اور فطری حقیقت کے طور پر خود قرآن میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر قوم کا مزاج، ماحول، فطری صلاحیتیں، اس کے لیے رد وقبول کے امکانات الگ الگ ہیں۔ اس لیے قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے ایک ”شرعة“ اور ”منہاج“ مقرر کیا ہے۔ دین اور اعمال دونوں کو فرد کے اپنے انتخاب پر چھوڑنے کی واضح ہدایت قرآن میں اسی لیے دی گئی ہے (جیسا کہ ”لکم دینکم ولی دین“ اور ”لنا اعمالنا ولکم اعمالکم“ سے ظاہر ہے) کہ انسان کی اصل توجہ معاشرے کے اجتماعی خیر وفلاح، عدل و احسان، قرابت داروں اور پڑوسیوں کے حقوق بہم پہنچانے، غلط اور ناشائستہ حرکتوں سے اور ظلم وسرکشی سے اجتناب اور دوسروں کو اس سے باز رکھنے کے تصورات پر مرکوز رہے۔ قرآن میں کہا گیا کہ کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو،(۱۸) انصاف کرو اور یہ کہ: ”عدل کے معاملے میں اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو“۔
پیغمبر اسلام نے مدینے میں جو پہلی اسلامی ریاست تشکیل کی اس میں تہذیبی تعدد، تکثیریت اور بقائے باہم کو بنیادی اصول کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ میثاق مدینہ اس اسلامی ریاست اور اسلامی تاریخ کا پہلا تحریری معاہدہ یا دستور تھا۔ اور اس دستور میں اسلام کے تکثیری اصول اور نظریے کو عملی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق، مدینہ کے تمام مسلم وغیر مسلم شہریوں کو، جو اس معاہدے کے پابند تھے، یکساں حقوق حاصل تھے۔ معاہدے میں مسلمان یہود اور مشرکین تمام کو ایک امت کی حیثیت دی گئی تھی۔ اس کی ایک شق میں یہ واضح الفاظ تھے کہ: للمسلمین دینہم وللیہود دینہم (۱۹) (مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین ہے اور یہودیوں کے لیے یہودیوں کا دین) قرآن کے واضح اعلان کے بعد کہ عیسائی اپنے معاملات کا فیصلہ خود انجیل کے مطابق کریں۔ رسول اللہ غیر مسلمین کی خود مختارانہ حیثیت کو محدود یا ختم نہیں کرسکتے تھے۔
قرآن میں عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے مسجد سے پہلے چرچ اورسینے گاگ کا ذکر کیا گیا ہے” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں سے ایک دوسرے کے ذریعہ دفاع نہ کرتا تو عیسائیوں کی خانقاہیں، گرجے، یہودیوں کے سینے گاگ اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر ہوتا ہے۔“(۱۹)۔
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلمین جن میں اہل کتاب اور دوسرے غیر مسلم بھی شامل ہیں، کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اپنے نظام فطرت کے تحت لے رکھا ہے۔ اس کی وجہ آیت کے مطابق، ظاہر ہے، یہ ہے کہ اس میں کثرت سے خدا کا ذکر ہوتا ہے۔مذہبی تکثیریت پر یہ آیت سب سے واضح دلیل ہے۔
رسول اللہ نے اہل نجران (دمشق) اور اہل حیرہ سے جو معاہدے کئے ان میں بھی یہاں کے غیر مسلم باشندوں کوہر طرح کی مذہبی ، معاشی اورسماجی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ رسول اللہ کے بعد صحابہ اسی طرز پر عامل رہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل فلسطین کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس میں بھی غیر مسلموں کو مکمل خود مختاری دی گئی۔ بعد کی تاریخ میں بھی اس کی واضح نشانیاں موجود ہیں، البتہ اہل ذمہ کے تعلق سے فقہا کے ایک طبقے کی طرف سے جو افراط و تفریط کی شکلیں سامنے آئیں انہیں اسلامی اخلاق کا نمونہ قرارنہیں دیا جا سکتا۔تاہم مسلم حکمرانوں کا مجموعی طرز عمل غیر مسلم رعایا کے ساتھ بہتر تھا۔
برنارڈ لیوس جو یہودی ہیں اور اپنے مسلم مخالف نقطہ نظر کے لیے مشہور ہیں۔لکھتے ہیں:۔
'' Religious persecution of the members of other faiths was almost absent. Jews and Christians under Muslim rule were not subject to exile, apostasy or death which was the choice offered to Muslim and Jews in reconquered Spain. And Christian and Jews were not subject to any major territorial and occupational restrictions such as were the common lot of Jews in premodern Europe.''(20)
”(مسلم عہد ہائے حکومت میں) دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مذہبی بنیاد پر اذیت دینے کے واقعات بہت کم ہوئے۔ مسلم حکمرانی میں رہنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کو جلا وطنی، ترک مذہب اور ہلاکت سے دوچار نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ اسپین کی ( عیسائیوں کے ذریعہ) دوبارہ فتح کے موقع پر مسلمانوں اور یہودیوںکے ساتھ پیش آیا۔ عیسائی اوریہودی بڑی سطح پر علاقائی اور پیشہ ورانہ محدودیتوں کا شکار نہیں ہوئے جیسا کہ جدید یورپ میں عام طورپر یہودیوںکے ساتھ پیش آیا“۔
اسلام میں امن کا تصور:۔
بین مذاہبی تعلقات کے حوالے سے چوتھی اخلاقی بنیاد اسلام میں امن کا تصور ہے اسلامی اخلاقیات کے مطابق جس طرح اشیاءمیں اصل چیز اباحت ہے اسی طرح عام انسانی تعلقات میں امن۔
اسلام میں امن کا تصور اسلام کے بین اقوامی تعلقات کے معاملے سے جڑا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے بعض فقہانے اس اخلاقی بنیاد کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ فقہا نے بالکل برعکس طور پر امن کے دائمی تصور کی جگہ جنگ کے وقتی تصور کو دے دی اور دوسری قوموں کے ساتھ رجائیت کے بجائے قنوطیت پر تعلقات کی بنیاد رکھی۔ مسلم غیر مسلم تعلقات میں شروع سے یہی مسئلہ سب سے زیادہ نزاع کا باعث رہا ہے اور اس نے اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے میں بنیادی رول ادا کیا ہے۔
اسلام خود لفظ امن سے مرکب ہے۔ مسلمان ہونے کا مطلب ہے پُر امن ہونا اور دوسروں کو پُر امن رکھناا (المسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ)(۲۲) اس کے عملی اظہار کے لیے اسلام میں اس کو بنیاد بنایا گیا کہ ہر شخص ایک دوسرے کو السلام علیکم کہہ کر اس کی امن وسلامتی کی دعا کرے۔ اسلام میں جنگ خارج سے لاحق ہونے والی علت ہے نہ کہ داخل میں پائے جانی والی حقیقت۔ وہ ایک استثنا ہے نہ کہ باضابطہ حکم تقریباً اسی معنی میں فقہا نے بھی اسے ”حسن لغیرہ“ قرار دیا ہے ”حسن لوجہہ“ نہیں۔ قرآن میں صلح کو خیر کہا گیا ہے (الصلح خیر) پیغمبر اسلام نے اپنے پیرووں کو تلقین کی کہ تم دشمن کے رو برو ہونے کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے پناہ مانگو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نرمی پر جو کچھ دیتا ہے وہ سختی پر نہیںدیتا۔ نرمی کو سراپا خیر (خیر کلّہ) بتایا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ آسان انتخاب کو اختیار کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں“۔ پڑوسی سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، آپ کے بیان کے مطابق، حضرت جبریل علیہ السلام نے اتنی تاکید کی کہ انھیں لگا کہ کہیں پڑوسی کو آپ کا وارث نہ بنادیا جائے۔ پڑوسی ہونے میں بلااختلاف مسلم غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔
غلط فہمیوں کا ازالہ:۔
ان اہم نکات کے بعد جو ہمیں مسلم غیر مسلم تعلقات کی اخلاقی بنیادیں اوراقدار فراہم کرتے ہیں،ہم یہاں ان چند غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کریں گے جو نظریاتی سطح پر مسلم و غیرمسلم تعلقات کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس غلط فہمی میں مسلم غیر مسلم دونوں شریک ہیں۔ اس لیے ان دونوں کے ذہن کی صفائی ضروری ہے۔
مسلمانوں کا ایک رویہ فکری اور دوسرا جذباتی ہے۔ پہلے کا تعلق اسلامی تعلیمات واحکام سے ہے اور دوسرے کا ان کے اپنے طرز عمل سے ،جو حال کے سیاسی حالات اور ماضی کی بعض غلط روایات کی پیداوار ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سے مثلاً یہ چند زیادہ بحث ومباحثے کا موضوع ہیں: قرآن میںغیر مسلموں سے دوستی کی ممانعت، غیر مسلموں سے جہاد یا قتال، اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی قانونی یا سماجی حیثیت، ارتداد کی سزا، غیر مسلموں کی نجات کا مسئلہ وغیرہ۔
مسلمانوں کے طرز عمل سے تعلق رکھنے والی بعض چیزیں یہ ہیں: خود کو جنت کا پیدائشی مستحق سمجھنا، اسلام کے عالمی سیاسی غلبے کومقدس مشن قرار دینا اور اس کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرنا۔ غیر مسلموں کو خدا کی رحمت سے محروم اور ابدی لعنت کا مستحق سمجھنا۔سماجی تعلقات کے حوالے سے بعض دوریاں جو ثقافتی شناخت وغیرہ کے حوالے سے انھوں نے بنا رکھی ہیں۔ ان کا تعلق اسلامی احکام سے نہیں ہے اور مسلمانوں کی اکثریت انھیں ایک نقطہ نظر سے نہیں دیکھتی۔
ان تعلیمات واحکام کے تعلق سے اصولی طور پر دو باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے ایک یہ کہ ان کے مخاطب بنیادی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب ہیں اور یہ یا تو ان کے عہد کے ساتھ خاص ہے یا ان کا تعلق وقتی اور ہنگامی صورت حال سے ہے۔ جس سے الگ کرکے انھیں دیکھنا غلط نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ جن پر پیغمبر اسلام نے تبلیغ کی حجت پوری کردی تھی اور انھیں وحی کے ذریعہ دانستہ طور پر ان کے انکار کا علم ہوچکا تھا۔ دوسرے وہ رسول واصحاب رسول سے برسرجنگ تھے۔ اور انھیں وہ بنیادی حقوق بھی دینے کو تیار نہیں تھے جو فطرت اور اخلاق کا تقاضا ہیں۔ قرآن میں اسی کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔اور رسول واصحاب رسول کو اسے ختم کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
اسی طرح غیر مسلموں سے دوستی کا معاملہ ہے۔ مختلف آیات میں مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا ہے۔تاہم اس کے بالمقابل اُسی سورت( ممتحنہ) جس کی پہلی آیت میں ممانعت کا حکم ہے، کی آٹھویں اور نویں آیت میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ نے تمھیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکا ہے جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگیں لڑیںاور تمھیں وطن سے نکالا۔ یا تمھیں وطن سے نکالنے والوں کی مدد کی۔ اگر علی العموم غیر مسلموں کے ساتھ محبت وتعلق کا معاملہ صحیح نہ ہوتو پھر اس تضاد کو رفع کرنا کس طرح ممکن ہوگا کہ ایک طرف اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی جائے اور دوسری طرف ان سے محبت رکھنے کو منع کیا جائے۔ اسی طرح ارتداد کی سزا سے متعلق مسلم فکر میں اختلاف اور تفصیل ہے جس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
اندلس کی اموی، عباسی اور عثمانی اور ہندستان کی مغلیہ حکومتوں میں غیر مسلموں کو مذہبی اور سماجی حقوق حاصل تھے، اس کا اعتراف خود غیر مسلم مورخین اور اسکالرس نے کیا ہے۔استثناکو چھوڑ کر مجموعی طور پر ان مسلم حکومتوں میں غیر مسلموں کے ساتھ اکثر وہ تعصبات جوبعض فقہاءکی آرا کی شکل میں ان کتابوں میں موجود ہیں، باقی نہیں رہے تھے، جزیہ اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے، وہ رومی اور ایرانی وراثت کے طور پر پہلے سے عرب میں موجود تھی۔ چنان چہ خود لفظ جزیہ قدیم فارسی لفظ(گزیت) کی عربی شکل ہے۔(۲۳ )۔
اسلام کا دائمی قانون عہد یا معاہدہ ہے۔ اس اعتبار سے جن غیر مسلم ملکوں میں مسلمان یا مسلم ملکوں میں غیر مسلم رہ رہے ہیں، وہ ایک عملی معاہدے میں بندھے ہوئے ہیں۔ جن کی اخلاقی ودینی سطح پر پابندی لازمی ہے۔ اگر متعلقہ ملک کا قانون ان میں سے کسی کے لیے دینی یا سماجی حیثیت سے سازگار نہیں تو ان کے سامنے صرف یہ انتخاب ہے کہ وہ اس ملک سے ہجرت کرجائیں۔ معاہدے کے اقرار کے باوجود اس ملک کے خلاف سرگرم ہونا اپنے دینی حقوق کے لیے تحریکیں برپاکرنا، اخلاقاً صحیح نہیں ہے۔
جہاں تک غیر مسلموں کی نجات یا خدا کی رحمت ومغفرت کے ان کے مستحق ہونے کا معاملہ ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا عیسائیت، یہودیت مسلمانوں کو نجات کا مستحق سمجھتی ہے؟ آخرت کے حوالے سے ہر فرقے کو یہ سمجھنے کا حق ہے کہ وہ صحیح اور دوسرا غلط ہے۔ دوسری کوئی بھی شکل نفاق اور تذبذب کو جنم دینے والی ہے۔ صحیح رویہ خود کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسروں کو برداشت کرنے اور ان کے عقیدہ وعمل کے احترام کا ہے نہ کہ ان اختلافات کا سرے سے انکار کرنے یا ان کو مٹانے کا، جو بنیادی عقائد کی سطح پر مختلف قوموں کے درمیان موجود ہیں۔
باقی جس طرز عمل کا تذکرہ اوپر آیا، اس کا تعلق مسلمانوں کے ذہنی زوال اور فکری تعطل سے ہے۔ ثقافتی شناخت وغیرہ کی تعبیر مسلمانوں کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے اس کی نظریاتی بنیاد کمزور ہے بعض احادیث میں دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرنے کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے اسے اس تناظر میں دیکھنا چاہیے جب کہ ایک نئی ثقافت پروان چڑھنے کے ابتدائی مرحلے میں تھی۔ اخذورد کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کا ڈھانچہ بن کر تیار نہیں تھا۔ اس لیے پیغمبر کی زندگی کے ایک حصے میں بعض چیزوں کے تعلق سے جو سختی یا پابندی تھی وہ بعد میں ختم ہوگئی۔ ایک عالم گیر مذہب میں ثقافتی شناخت کا اعتبار ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ پوری دنیا کو ایک ثقافتی رنگ میں رنگنا سرے سے محال امر ہے ۔ موجودہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ مظاہر کی سطح پر ایسی ثقافتی شناخت کو ترک کرچکا ہے۔
غیر مسلموں کو سلام کرنا، ہدایا کا تبادلہ، ان کی تعزیت یا عیادت، ان کی ضیافت، تقریبات میں شرکت، تہواروں پر انھیں مبارکباد دینا، انھیں گواہ بنانا، ان کے برتنوں اور کپڑوں وغیرہ کا استعمال، یہ تمام بحث ومباحثے جو ہماری متاخر دور کی فقہ نے پیدا کئے، وہ عام انسانی اخلاق کے تصور سے بھی میل نہیں کھاتے کجا کہ ہم اسلام کے عالم گیر تصور اخلاق کے فریم ورک میں رکھ کر اس کی تردید کریں۔(۲۴)۔
یہ عہد وسطیٰ کے اس ماحول کی پیداوار ہے جب فقہ کو اسلامی سماج کے بعض طبقات نے ایک پیشے کی شکل میںاختیار کرلیا تھا (۲۵) اور اس پر تکنیکیت کا رنگ غالب آگیا تھا۔ لیکن بہرحال عہد وسطی کی باقیات کی شکل میں یہ ایک اہم چیلنج ہے کیوں کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کا ذہن بلاشبہ اس سے متاثر ہے۔
مسلم غیر مسلم تعلقات کے لیے ہم اسلام کے جس کی بات کررہے ہیں، اس کے بغیر مسلم غیر مسلم تعلقات کے مطلوبہ تصور کو عملی شکل دینا ممکن نہیں ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے سامنے بڑا چیلنج اصلاً نظریاتی ہے۔ اس نظریاتی چلینج کے جواب کے لیے اسلامی فکر کی تشکیل جدید ضروری ہے جس کی اصولی بنیاد اسلام کا وسیع اخلاقی تصور ہو اور وہ اجتہادی طریقہ کار کے ذریعہ عمل میں آئے۔یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ وہ شروع بھی ہوچکا ہے اگر چہ موجودہ سیاسی ماحول اس کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اس وقت اس کی جس قدر شدید ضرورت ہے، اتنا ہی وہ مشکل بھی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کا ذہن ما بعد استعماریت کا شکار ہے۔ دوبارہ غور و خوض اوراصلاح کے عنوان سے بعض اسلامی نظریات میں نظرثانی کی جو تحریک مغرب خصوصاً امریکا میں اس وقت زور وشور کے ساتھ چل رہی ہے وہ امریکی حکومت کی جارحانہ سیاست کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کی فکری اصلاح ایک داخلی معاملہ ہے اسے خارج سے مسلط نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے رویہ ترک کرکے رویہ اختیار کیا جانا چاہیے اور کنونسنگ کا عمل فریق ثانی کے ایسے معتبر دینی و سماجی حلقوںکی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں جن پر مسلمانوں کی با شعور اکثریت اعتماد کرتی ہو۔ضرورت یہ ہے کہ یہ کام مسلمانوں کے سنجیدہ دانش ور طبقے کے داعیے کی بنیاد پر ہو۔ بنیادی کوشش اس داعیے کو پیدا کرنے کی کی جانی چاہیے۔
ڈائلاگ:۔
اسلامی اخلاق کے تناظر میں بین مذاہبی تعلقات کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی چیز ڈائلاگ ہے۔ اسلامی فکر کی تشکیل یک طرفہ عمل ہے۔ اسے مسلم اہل فکر اور علماکو کرنا چاہیے جبکہ ڈائلاگ ایک دو طرفہ عمل ہے اور وہ دونوں فریقوں کے مخصوص طبقات تک بھی محدود نہیں۔ مختلف سیاسی، سماجی اور دینی میدانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان ڈائلاگ ہوسکتا ہے۔اسلامی فکر کی تشکیل جدید میں بھی ڈائلاگ ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈائلاگ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ اسے کسی خاص ماحول اور پس منظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، جیسا کہ آج دیکھا جارہا ہے۔ ہمیں ڈائلاگ کی ضرورت اس وقت اتنی شدت سے صرف اس لیے معلوم نہیں ہورہی ہے کہ موجودہ گلوبل ویلج میں ہمیں تہذیبی تصادم کے آثار نظر آرہے ہیں، جن کو ختم کرنا ضروری ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ ماضی میں یہ کام نہیں ہوا۔ ڈائلاگ کا اہم مقصد ایک دوسرے کو اچھی طرح جاننا ہے جس میں خاص طور پر دوسرے کی تہذیب وعقائد سے واقفیت ہے۔ ماضی میں اس کے دو ذریعے تھے: (۱) مناظرانہ بحث و مباحثے (۲)اوراپنے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے کے مذہب کو اختیار کرنے والے لوگ یہ دونوں ہی ذریعے مثبت اور سنجیدہ نہیں تھے۔ پہلے کی وجہ تو ظاہر ہے دوسرے کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنے مذہب کو ترک کر کے دوسرے مذہب کو اختیا کرتا ہے تو فطری طورپر اس کا ذہن پہلے مذہب کی صرف خامیوںپر مرتکز ہوتا ہے۔
دوسرے اس کا رخ مشنری عمل پر مبنی تھا، یعنی یہ کہ ہم کس طرح دوسرے کو اپنے مذہب کی طرف راغب کر لیں اور اسے اپنے دائرے میں شامل کرلیں حالاں کہ ڈائلاگ کے عمل کو اس سے وسیع اور مذہب کے بجائے انسانی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ یہ انسانی بنیادیں وہ اخلاقی و انسانی اقدارہوں جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں۔ ڈائلاگ قرآن کے مطابق، ایک اسلامی فریضہ ہے۔ قرآن کی تیسری سورت میں باضابطہ اس کا حکم دیا گیاہے(۲۶)مسلم ذہن میں اس کے تئیں جو رکاوٹ ہے اس میں بنیادی دخل عالمی سیاسی حالات کا ہے جس کی زد میں پوری دنیا کے مسلمان ہیں ۔ ڈائلاگ کا عمل صرف ایک شکل میں جاری رہ سکتا ہے اور وہ شکل یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے سامنے ایک مشترکہ ہدف ہو جسے دونوں فریقوں کی طرف سے پانے کی کوشش کی جائے۔ ہم نے اس مشترکہ ہدف کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ورنہ ہم مستقل اس سوال کا جواب ڈھونڈنے اور پانے کی کوشش کرتے کہ کیا ہم نے و ہ مشترکہ ہدف حاصل کرلیااور اس طرح متحرک رہتے۔ موجودہ ماحول میں ہمیں اس کے لیے جتنی چیزیں آگے لے جانے والی ہیں، اس سے کچھ کم پیچھے کھینچنے والی نہیں ہیں۔
کسی نے کہا ہے کہ:۔
The earth can not be changed for the better unless the consciousness of individuals changes first
ڈائلاگ میں مشغول فریقوں کی یہ ذہنی تبدیلی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ دونوں اصولی طور پر یہ احساس رکھتے ہوں کہ(مذہبی عقائد ونظریات سے قطع نظر) ہم ایک حد تک غلط اور دوسرا فریق ایک حد تک صحیح بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بات کہ ہم سو فیصد صحیح ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرافریق سو فیصد غلط ہے۔ ڈائلاگ ہمیشہ اپنے آئیڈیل سے سمجھوتہ کرنے، دوسرے سے متعلق اپنی معلومات پر نظرثانی کرنے اور دوسرے کو خود اس کے ذہن سے اس کے اصول و ضوابط کی بنیاد پر سمجھنے کا نام ہے نہ کہ اپنے اصول و ضوابط کی بنیاد پر۔
حواشی
(۱)فتح الباری۱/۱۷۲(۲)مسلم کتاب الایمان،فتح الباری ۱/۷۱(۳)النسائ: ۱(۴)الحجرات: ۱۳(۵)بیہقی(۶)التین: ۴(۷)بخاری کتاب الاستیذان(۸)بنی اسرائیل: ۷۰(۸)در مختار(۱۰)فتح الباری ۳/۲۲۱(۱۱)البقرہ: ۳۰(۱۲)ابو داﺅد ۔ ترمذی(۱۳)الاعراف : ۸۴،۷۳، ۶۵ وغیرہ(۱۴)فاطر: ۲۷(۱۵)البقرہ : ۲۵۶(۱۶)الکہف : ۲۹(۱۷)المائدہ: ۴۸(۱۸)المائدہ: ۸(۱۹)سیرت ابن ہشام ۔ اس سے پہلے کا جملہ یہ ہے کہ یہود بنی عوف اور ان کے اعوان و انصار مومنین ہی کی ایک امت شمار ہوںگے۔( و ان یہود بنی عوف و موالیہم و انفسہم امة من المومنین) ص ۲۰۴(۲۰)الحج: ۴۰(۲۱)برنارڈ لیوس:۔
The jews of Islam P-8 quoted by Adnan Aslan in Religious pluralism in christian and islamic philosophy-p-191
(۲۲)نسائی(۲۳)مقالات شبلی ج۲۲/۲۲۱(۲۴)اس موضوع پرمختلف نقطہ ہائے نظر اور تکنیکی مباحث کے لیے دیکھئے:” غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کے کچھ اہم مسائل“۔ ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی(۲۵) احیاءالعلوم ص : ۲۲/۱

Friday, November 13, 2009

Muslim Mua'ashere ka Zawal Aur Ulama ki Zimmedariyan

مسلم معاشرے کا زوال اور علما کی ذمہ داریاں
وارث مظہری
اس وقت ہر طبقے میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ مختلف پہلوﺅں سے مسلم معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے۔ وہ خصوصیات و امتیازات جس سے مسلم اور غیر مسلم معاشرے میں فرق قائم ہوتا تھا، وہ بعض مذہبی اعمال اور ظاہری تشخص کی حد تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان خصوصیات و امتیازات کے اجتماعی انسانی سطح پر رونما ہونے والے وہ نتائج جو اسے دیگر معاشروں کی نظر میں قابل رشک حیثیت عطا کرتے ہوں، دوسروں کی نظر میں ہی نہیں خود ہماری نظر میں بھی سامنے نہیں آرہے ہیں۔ علما مسلم معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو معاشرے کو صحیح اور متوازن رخ پر گام زن رکھنے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ مسلم سماج کی تشکیل و اصلاح میں دوسرے تمام طبقات کا رول ضمنی جبکہ علما کا رول اساسی اور جامع ہے۔ مسلم سماج کے اصل پاسبان وہی ہیں ان کی اس حیثیت کی تعیین رسول اللہ کی اس مشہور حدیث سے ہوتی ہے جس میں انہیں ” انبیاءکا وارث“ کہا گیا ہے( العلماءورثة الانبیائ(بخاری باب العلم)) اسلامی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلم سماج نے علما کو ہمیشہ رہنماکے مقام پر رکھا۔ اس میں عموماً قابل ذکر کمی اس وقت آئی جب حکمراں علما کو اپنے دامن ظلم و فریب میں پھنسانے میں کامیاب ہو گئے۔ یا دوسرے طریقوں سے علما دنیا کی ہوس میں مبتلا ہو کر شاہراہ علم و عمل سے ہٹ گئے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں طبقہ علماکی اکثر تعداد عزم و استقامت پر قائم رہتے ہوئے اپنے بنیادی اجتماعی فرائض کی انجام دہی پر قائم رہی۔

موجودہ دور میں یہ سوال بکثرت اٹھایا جاتاہے کہ مسلم سماج کی اصلاح اور اس کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے تعلق سے علما کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ انہیں کس حد تک نبھانے میں کامیاب ہیں؟ سماج کے تعلق سے محاسبہ سماج کے ہر طبقے سے ہونا چاہیے۔ اس میں علما کا کوئی اختصاص نہیں، لیکن مختلف وجوہات سے علما پر احتساب کی نگاہ بجا طورپر زیادہ ٹھہرتی ہے۔ ان میں تین وجوہات خاص اور نمایاں ہیں

٭ قرآن و حدیث کی رو سے علما کو دوسرے طبقات پر فضیلت ان کی اجتماعی ذمہ داریوں کی بنا پر عطا کی گئی ہے۔ اگر وہ ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں تو اپنے مقام پر باقی نہیں رہتے اور اس صورت میں وہ خود دوسروں کو تنقید کا موقع دیتے ہیں۔

٭ خود علما اس بات کے مدعی ہیں کہ انھیں مسلم سماج کی رہنمائی اور قیادت کا مقام حاصل ہے اور اس حیثیت میں وہ اعزاز و احترام کے مستحق ہیں۔

٭ ہندوستان جیسے ملکوں میں فی زمانہ طبقہ علما کی اکثریت معاشی سطح پر عوام پر انحصار کرتی ہے۔ یہ انحصار عوام کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ علما کا محاسبہ کریں۔ اس کے علاوہ اسلام کی عمومی اسپرٹ بھی یہ ہے کہ سماج کا ہر طبقہ اور ہر فرد دوسرے کو خیرکی تلقین کرنے والا اور برائیوں پر ٹوکنے والا ہو۔

اس میں شک نہیں کہ مسلم سماج میں خیر و فلاح کے جواثرات اور مذہبی اقدار کی جو شکلیں محفوظ و برقرار ہیں ان میں علما کا اہم رول ہے۔ اگر علما کو پس منظر سے ہٹا دیا جائے تو مسلم سماج دوسرے سماجوں کی طرح مختلف ایسی اجتماعی خرابیوں کا شکار ہو جائے گا جو سرے سے اسلامی تعلیمات کی نفی کے ہم معنی ہیں۔ لیکن اس وقت بر صغیر ہند کے تناظر میں علما کے اجتماعی کردار اور معاشرتی ذمہ داریوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے تو نہایت الم ناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ علما کا طبقہ آہستہ آہستہ بذاتِ خود اپنے آپ کو اجتماعی ذمہ داریوں سے علاحدہ کرتا جا رہا ہے یا دوسری صورت میں اس طبقے کو موجودہ تقاضوں کی روشنی میں رہنمائی کی صفت سے محروم ہونے کی بنا پر عوام نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ نظر انداز کرنے کے اس عمل کو علما عوام کی گمراہانہ اور غیر اسلامی روش کی شکل میں دیکھتے ہیں جبکہ عوام کھلے طورپر علما پر یہ الزام عائد کر تے ہیں کہ ظاہری اسلامی صورت کے علاوہ، جو ان کی شناخت کا وسیلہ ہے، علما اخلاقی سطح پر عوام سے بلند نہیں ہیں، بلکہ عوام بہت سی چیزوںکا ارتکاب گناہ سمجھ کر کرتے ہیں جبکہ ہمارے علما بہت سے کبائر کو حیلوں اور تاویلات سے اپنے حق میں جائز کر لیتے ہیں۔

سماجی اصلاح کی دو سب سے اہم بنیادیں ہیں: تعلیم اور اخلاقیات۔ قرآن میں کار نبوت کے حوالے سے ان دونوں چیزوں کا تذکرہ اس آیت قرآنی میں موجود ہے: ربنا و ابعث فیہم رسولا منہم یتلو علیہم آیاتک و یعلمہم الکتاب و الحکمة و یزکیہم انک انت العزیز الحکیم۔” اے ہمارے رب ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور ان کے باطن کی صفائی کرے۔“ (۲/۱۲۹) ان دونوں چیزوں کے مختلف پہلو ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے اہم پہلو ہے: دین کی بنیادی تعلیمات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانا۔ حقیقت یہ ہے کہ علما نے اس پہلو پر کافی محنت کی۔ بر صغیر ہند پر انگریزی عمل داری قائم ہو جانے کے بعد یہ مسئلہ بہت پیچیدہ اور مشکل ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن علما نے مستقل جد و جہد اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعہ اس محاذ پر کامیابی حاصل کی۔

البتہ تعلیم کا دوسرا پہلو قوم کی فکری تشکیل و تعمیر کا ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں یہ کام خاص طورپر1947میں آزادی کے بعد علما کی دوسری نسل کو انجام دینا تھا لیکن یہ کام سرے سے انجام نہیں دیا جا سکا۔ کسی قوم کی ذ ہنی تعمیر ہی در اصل اس قوم کی تمدنی ارتقا کی بنیاد ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم ذہنی سطح پر زمانے کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتی اور دوسری مقابل اقوام کی ذہنی صلاحیتوں کا ساتھ نہیں دے پاتی تو عین فطرت کے بے لچک قانون کے مطابق وہ حاشیہ پر آجاتی ہے۔ علما کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی نسلوں کے اذہان کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے بعد انھیں فطرت کے بطن سے پیدا ہونے والے علوم و حقائق سے آگاہی کا بندوبست کریں۔ کیونکہ صرف ذہن کا اسلامی سانچے میں ڈھلنا، مذہبی معلومات اور ما بعد الطبعیاتی معارف سے آشنا ہونا اس منصوبے کی عملی تشکیل کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک ایسی نسل وجود میں آجائے جو خدا کے نقشے کے مطابق، انسانی سماج کو ترقیات کی بلندیوں تک لے جانے والی ہو۔

دوسری چیز اخلاقیات ہے جو دین کی اصل روح اور پیغمبروں کی بعثت کا اصل مقصد اور نشانہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ : بعثت لاتمم حسن الاخلاق( میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔موطا) علما نے مسلم نسلوں کی اخلاقی تربیت و تزکیے کے پہلو کو بہت حد تک نظر انداز کر دیا۔ اس کے نقصانات فطری طورپر اس شکل میں سامنے آئے کہ ہماری نسل چاہے وہ مدارس سے اٹھنے والی ہو یا جدید دانش گاہوں سے۔ عام انسانی اخلاقیات کو بھی سماجی سطح پر برتنے میں کمزور ہے کجا کہ وہ اس کا اعلیٰ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ اگر مدارس کے ارباب انتظام و اہتمام خود اپنے طبقے کے علما و فاضلین کے استحصال میں کوئی کسر نہ چھوڑیں؟ جمہوریت کی تمام شکلوں کو پامال کر کے تمام وسائل و ذرائع پر اپنا اور اپنی اولاد کا قبضہ بحال رکھیں۔ بلند و بالا مساجد اور فضول وغیر ضروری یا نمائشی عمارتوں کی تعمیر میں اپنے پڑوس کے ان غربا اور مریضوں کو نظر انداز کر دیں جن کے یہاں مشکل سے چولھے جلتے ہیں اور جو مناسب دواﺅں کی بر وقت فراہمی سے عاجز رہ جانے کی بنا پر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں، تو ایسی صورت میں انہیں معلمین اخلاق کے منصب پر بٹھانے کے لیے کون اور کیوں تیار ہوگا؟ اسی طرح خود علما کے ذریعہ چلائے جانے والے دوسرے دینی و سماجی اداروں کا نظام تصادم، داخلی خانہ جنگی، بے اصولی، بد دیانتی، اقربا پروری، نا اہلیت اور اس طرح کی دوسری قابل ذکر اجتماعی امراض کی آماجگاہ ہو تو آخر کس طرح علما کو یہ سرٹیفیکیٹ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کو پھیلانے اور ان کا احیا کرنے والے ہیں؟

سماجی اصلاح کی بنیاد سماج کے باشندوں کے اخلاقی ارتقا پر ہے۔ اگر ان میں سماجی اخلاق نمو پانے سے قاصر ہیںتوسماجی اصلاح کا عمل دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

علما کی طرف سے ایک افسوس ناک روش قومی تعصب میں اجتماعی اخلاقیات کو نظر انداز کر دینا ہے۔ اس کو ایک مثال کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ 2007میں جامعہ نگر اوکھلا میں پولیس کے ذریعہ مبینہ طورپر قرآن کی بے حرمتی کا معاملہ سامنے آیا۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ نے جامعہ نگر پولیس چوکی کو آگ لگا دی۔ قریبی دوسری پولیس چوکی پر بھی حملہ کیا اور اس طرح نہایت اشتعال انگیز اور سنسنی خیز کیفیت پیدا ہو گئی۔ بعد میں علاقے کے ہر با شعور پر معاملے کی حقیقت واضح تھی کہ یہ محض نوجوانوں کی شرارت ہے کیونکہ قرآن کے پارے پولیس والے کی غلطی سے گرے تھے نہ کہ دانستہ طورپر، لیکن راقم الحروف نے بعض طویل القامت علماکی زبان سے خود سنا کہ اگرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ غلطی خود ہمارے نوجوانوں کی ہے لیکن چونکہ یہ معاملہ کافی طول پکڑ چکا ہے اس لیے اب اس صورت میں ہمیں سیاسی مصلحت کے تحت اسی( غلط) موقف کی تائید کرنی چاہیے۔

آخر یہ عین قومی تعصب نہیں تو کیا ہے جس پر اللہ کے رسول نے وعید سنائی ہے ۔اور اسے گڑھے میں گرے ہوئے اونٹ کو اس کی دم کھینچ کر بچانے سے تشبیہ دی ہے۔ اکثر قومی معاملات میں ہمارا رویہ ہمارے اس قومی تعصب و جانب داری کا آئینہ دار ہوتاہے۔ ایسی مثال عنقا ہے کہ ہمارے علما کی لیڈر شپ نے ایسے اجتماعی معاملات میں انصاف وغیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوم کی غلطی کا اظہار و اعتراف کیا ہو۔ بنیادی طورپر علما نے ملت کی اکثر صورت میں دفاع کو ہی سیاسی اخلاق کا بنیادی فلسفہ بنا رکھا ہے۔

علماکے اندر اصلاح معاشرہ کی فکر اور اس کا چرچا پایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا تصور صرف اس حد تک محدود ہے کہ مسلم معاشرے کو غیر مسلم اثرات سے پاک کیا جائے ۔ اس تناظر میں بھی صرف چند غیر اسلامی سماجی رسوم اور مظاہر پر نظر ٹھہر کر رہ جاتی ہے۔ جبکہ سماجی اصلاح کا مطلب انسان کے انفرادی و اجتماعی اعمال کی اس طرح ترشید (channalisation) کرنا ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی سماج کے تمام تر طبقات اور گروہوں کے لیے خوبی اور خیر خواہی کا ضامن ہو۔ سماجی اصلاح کی بنیاد پر سماج میں امن اور عدل کی فضا قائم ہو جو ہر شعبے میں سماجی ترقیات کی بنیاد ہے۔

علما کی سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے چند مزید نکات قابل غور ہیں۔ یہ حتمی نہیں لیکن ان کی روشنی میں بحث کے بعد کسی با ضابطہ نتیجے تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے

٭ علماپر ملی و قومی سیاست بہت تیزی کے ساتھ حاوی ہوتی جا رہی ہے ۔ بدقسمتی کا پہلو یہ ہے کہ بے صلاحیت اور با صلاحیت، دیندار اور دنیا پرست علماکا قد اس صف میں بالکل برابر ہے۔ نتیجہ کے طورپر عوام فریب اور کنفیوژن کا شکار ہیں کہ وہ کس کو ماڈل اور اسوہ بنائیں کس کی بات پر لبیک کہیں اور کس کی بات کو نظر انداز کردیں۔ قومی و ملی سیاست میں اس غلو آمیز انہماک کی وجہ سے خود اپنی بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے اور اپنی تعمیر کے لےے کوشاں ہونے کی ذہنیت ماند پڑتی جارہی ہے۔

٭ سماج کی اصلاح صرف شریعت کی دہائی دینے اور اس کے نفاذ کی کوششوں کے ذریعہ ہی ممکن نہیں ہے ۔ فتاویٰ کے زور پر معاشرے کے غلط اور تخریبی رجحانات کوبدلا نہیں جا سکتا ۔ اس کے ذریعہ متعلقہ شرعی پوزیشن کو صرف ان لوگوں کے سامنے جو حقیقت میں شریعت کو اپنی فکر و عمل میںاصل مقام دیتے ہوں ،واضح کیا جاسکتا ہے ۔ اصل چیز صرف ذہنی اور فکری تربیت ہے اور اس کے لیے سماج کے ہر ہر شعبے میں رچ بس کر خاموشی اور صبر کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

٭ عملی سطح پر ماضی کو ماڈل بنا کر پیش کرنے سے زیادہ موثر مستقبل کے آئینے کو سامنے رکھنا ہے۔ ماضی کو پانے کی اندھا دھند دوڑ حال کے تقاضوں سے بے خبری پر منتج ہوئی ہے۔ علما کا ماضی سے زیادہ حال سے با خبر اور مستقبل شناس ہونا ضروری ہے۔

٭ مدارس سماجی اصلاح کے عمل میں سب سے اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔بہت سے اہم سوشل ریفارمر مدارس کی گود سے ہی پروان چڑھ کر سامنے آئے۔ مدارس خصوصاً بڑے مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ باضابطہ سماجی اصلاح کے شعبے اپنے یہاں قائم کریں۔ ان کے تحت طلبہ کو سماجی اصلاح کی تربیت دی جائے۔

٭ سماجی اصلاح کے عمل میں مساجد کے ائمہ کا رول سب سے زیادہ اہم ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر تربیت یافتہ ائمہ بسا اوقات مسلم سماج میں مزید انتشار اور کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کی باضابطہ تربیت کا نظم مذکورہ بالا شعبہ تربیت کے ذریعہ ضروری ہے۔دوسری صورت میں ملت کے دوسرے سماجی و دینی اداروں کو الگ سے اس کا نظم کرنا چاہیے۔ ائمہ کی با شعور ،اسلام کی حقیقی اجتماعی اسپرٹ اور سماجی اصلاح کا سنجیدہ جذبہ رکھنے والی جماعت مسلم سماج کی اصلاح کی سب سے بڑی نقیب بن سکتی ہے۔

بہر حال مسلم سماج میں اصلاح کا عمل بہت دھیما رہاہے اور اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ علماکا یہ احسا س اطمینان بھی ہے کہ مسلم ( یا اسلامی) سماج دوسرے سماجوں کے مقابلے میں بہرصورت فائق اور قابل رشک ہے حالاںکہ قابل رشک ہونے کا یہ مفہوم نہایت تنگ، خوش فہمی پر مبنی اور اس بناپر دوسروںکو مطلقاً قائل کرنے والا نہیں ہے۔