Thursday, December 31, 2009

Ban mazahibi muzakirat main deeni madaris ka kirdar

بین مذاہبی مذاکرات میں دینی مدارس کا کردار


دینی مدارس کے تناظر میں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا بین مذاہبی مذاکرات انٹرفیتھ ڈائلاگ میں مدارس کوئی رول ادا کرسکتے ہیں؟ ہندستان جیسے ملک میں جہاں بد قسمتی سے مذہب مدتوں سے سیاست کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ بین مذاہبی مذاکرات کی ضرورت ہر ہوش مند ودوربیں شخص پر واضح ہے۔ عملی سطح پر یہ کام حقیقت میں شروع نہیں ہوسکا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کے مخصوص مسئلے میں اور جمعیة علما ہند نے اس جانب پہل کی تھی اور ملک کی شدت پسند تنظیموں کے ارکان کے ساتھ مل بیٹھنے کی راہیں نکال لی تھیں۔ لیکن اس سے مسلم حلقوں میں بے چینی اور تشویش کا ماحول پیدا ہوگیا۔ حالاں کہ یہ تشویش قطعا غیر ضروری تھی ۔حقیقت میں یہ ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں ایک ضروری قدم تھا ۔یہ دونوں ملک کے مسلمانوں کی موقر اور نمائندہ تنظیمیں ہیں ان کا اعتبار کیا جانا چاہئے تھا لیکن بنیادی طور پر قومی سیاست میں ان کی زیادہ بڑھی ہوئی شرکت کی وجہ سے ان کے خلاف بے اعتباری کا ماحول پیدا ہوگیا۔ اسی طرح اپریل۲۰۰۵ میں انسٹی ٹیوٹ آف اوبجکٹو اسٹڈیز (نئی دہلی)کی طرف سے بین مذاہبی مذاکرات پر سہ روزہ سیمینار کا انعقاد ایک خوش گوار اور رجحان ساز پہل تھی ۔ اس میں یہ بات واضح طور پرسامنے آئی تھی کہ ہندستان اپنی مختلف خصوصیات و امتیازات کی بنا پر ڈائلاگ کے نظریے کو عملی سطح پر برتنے اور فروغ دینے کی نہایت کامیاب تجربہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے تاہم سیمینار سے متعلق سامنے آنے والے تاثرات میں اس کی مخالفت بھی شامل تھی۔ اور اس مخالفت میں علما اور فضلاے مدارس پیش پیش تھے۔

ہندوستان میں دینی مدارس کو وقار واعتماد کے ساتھ ملک گیر سطح پر جو پھیلاو اور ہمہ گیری حاصل ہے، اس کے پیش نظر اگر اس کام کو دینی مدارس کے پلیٹ فارم سے انجام دینے کی کوشش کی جائے تو ایک طرف اسے عوامی سطح پر معتبریت بھی حاصل رہے گی اور دوسری طرف اس کے اثرات بھی غیر محدود اور وسیع ہوں گے۔ نیزہندستان کے مخصوص ماحول میںجیسا کہ اوپر اس کی طرف اشارہ کیا گیا، مذہب کا اصولی مطالعہ رکھنے والے علما ہی صحیح معنوں میں اس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔

دراصل اس وقت اسلام کے لےے حقیقی معنوں میں سب سے بڑا چیلنج عالمی سطح پر اس کی شبیہ کا خراب ہونا ہے۔ اس بحث کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ کیوں کہ بدنامی بہر حال حقیقت واقعہ ہے ۔اوریہ تسلیم یا فرض کر لینے کے با جود بھی کہ یہ سراسر دشمنوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے ، اس کی خطرناکی میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی۔ اس لےے، نیز ایک داعی قوم کی حیثیت سے، مسلمانوں کا ہی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ یک طرفہ طور پرصورت حال کو بدلنے کے لئے پیش قدمی کریں۔


دوسری طرف مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کے سد باب کے لئے مذاکرات کا طریقہ ہی سب سے زیادہ موثر اورنتیجہ خیز ہو سکتا ہے مدارس کو بدنام کر نے میں بنیادی طور مذہب پسندی کی شناخت رکھنے والے شدت پسند طبقات کا ہا تھ زیادہ ہے ۔ ان کے مقابلے میں گفت و شنید کے لئے مذہب پسند اور اسلام کی پاسبانی کرنے والے طبقات کو ہی سامنے آنا چائے۔


مارچ ۲۰۰۳ء میں دہلی میں وشو ہندو پریشد کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں شدت پسند ہندوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ خبر کے مطابق (دی ہندو ۲ ۴فروری ۲۰۰۳ء) اس میں وی ایچ پی کی طرف سے حاضرین کے درمیان قرآن کریم کے نسخے تقسیم کےے گئے۔ اس کا مقصد وی ایچ پی والوں کی نظر میں یہ تھا کہ لوگ خود قرآن کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ قرآن دوسری قوموں کے تئیں تشدد ونفرت اور قتل وقتال کی تعلیمات پر مشتمل ہے یا نہیں ؟ علما اور اہل مدارس کے لےے یہ زبردست موقع تھا کہ وہ ڈائلاگ کے ذریعے قرآن کی حقیقت کو ان کے سامنے واضح کرنے کوشش کریں کیوں کہ جہاں تک تحریری وضاحت کا معاملہ ہے ، قرآن کی ان۲۴آیات سے متعلق جن پر ہندﺅں کے شدت پسند حلقے کو اعتراض ہے ، مضامین اور کتابچوں کی شکل میں کافی چیزیں شائع ہو چکی ہیں۔ کچھ دنوں قبل خود دیوبند کے کچھ شرپسندوں نے دارالعلوم دیوبند کا پتلا پھونکنے کا اشتعال انگیز اقدام کیا۔ اس کا مقصد فساد پھیلانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں یا بہی خواہوں کی جانب سے اس تعلق سے یہ کوشش کی جا سکتی تھی کہ متعلق شر انگیز گروپ کے لیڈروں سے خوداپنی پہل پر پر امن اور دوستانہ ماحول میںگفت وشنید کریں ۔براہ راست ان کے ذہنوں کو پڑھیں اوران کے اندر رچی بسی یا بسائی گئی غلط فہمیوں کودور کرنے کی کوشش کریں بسا اوقات کسی مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش اس کو اور بگاڑ دیتی ہے۔ ماضی میں مسلم حکم رانوں نے ہمیشہ تصادم کی بجائے تفہیم اور دل جوئی کا طریقہ اپنایا۔ یہی صدیوں ان کی حکومت کی بقا اور شان و شوکت کا راز تھا ۔ تالیف قلب رسول اللہ کی سنت رہی ہے ۔اور اسلامی تاریخ ا س کی مثالوں سے پر ہے۔مدارس کو سیاست کی بھول بھلیوں سے بچتے ہوئے اسلام کی دینی وسیاسی تاریخ کی انھی مثالوں کو نقوش راہ بنانا چاہئے۔


مدارس میں طلبہ کو مذہبی اور مسلکی دونوں سطحوں پرسنجیدہ مذاکرات کی تربیت دی جانی چاہےے یہاں اب تک اس کی بجائے مناظرے اور مجادلے کا طریقہ رائج رہا ہے جو عہد وسطی کے مخصوص ماحول کی پیدا وار ہے۔ اسے یہاں ایک مستقل فن کا درجہ حاصل ہے ۔ پچھلی کئی صدیوں کے دورانیے میں اس فن میں سینکڑوں کتابیں وجود میں آئیں جن کا بڑا حصہ اب مدارس کے مکتبات کی زینت ہے ا ور عمل اور ضرورت کی دنیا میں ان سے استفادہ محدود تر ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ طریقہ اپنا کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے میں تقریباً ناکام ہے۔ کیوں کہ اس طریقے میں اصل زور لفظی کلامیات پر ہوتا ہے جس کے پس پشت صرف فریق ثانی کو فراروشکست کی راہ دکھانے اور مجلس لوٹ لینے کی ذہنیت کار فرما ہوتی ہے۔ اس سے فریق ثانی کے اندر وقتی طور پر خفت وخجالت ضرور پیدا ہوجاتی ہے تاہم محاسبہ نفس اور عقلی سطح پراپنے فکری وعملی نظریات اور رویوں پر نظرثانی کا مزاج پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے تحت دونوں فریقوں میں دوریوں کا تناسب مزید بڑھ جاتا ہے اور ان کے درمیان نفرت وتعصب کی دیوار حائل ہوجاتی ہے۔


مناظرے کی جگہ مذاکرے کا طریقہ سنجیدہ اور فطری طریقہ ہے۔ اس میں ہر فریق کو مکمل طور پر دوسرے فریق کے سامنے اپنی بات کو بے کم وکاست انداز میں رکھنے اور دوسرے فریق کے ذہن کو ٹٹول کر اس بنیاد کو جاننے کا موقع ملتا ہے جس پر غلط فہمی اور اس سے پیدا ہونے والی نفرت وکشیدگی قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخری اور مکمل دین کے حامل ہونے کے اعتبار سے، جس کی تبلیغ واشاعت کی ذمہ داری مسلمانوں کے شانوں پر ڈالی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کا ہی فریضہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں پہل کرکے اس نفرت وکشیدگی کی جڑوں کو دریافت کرنے اور اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ جڑیں مزید مضبوط ہوتی اور پھیلتی رہتی ہیں تو اس کا نقصان اسلامی اور دعوتی اکٹوزم کے غیر موثر یا ٹھپ ہوجانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔


دینی مدارس دین کا قلعہ ہیں۔ لیکن انھیں اپنی سرگرمیوں کوقلعہ بند کرنے کی مطلقا ضرورت نہیں ہے۔ مذاکرات کے خطوط پر کا م کرنے کے تعلق سے مدارس کے طلبہ وفضلااور مدرسین ومنتظمین کا اسکول اور جامعات کے طلبہ کے ساتھ میل جول ضروری ہے۔ اس کے لےے اسپورٹس،مختلف مضامین جیسے: مضمون نویسی، شعروشاعری ،جنرل نالج وغیرہ کے علمی مقابلے اہم وسیلہ بن سکتے ہیں۔ مدارس کو آگے بڑھ کرباضابطہ مذاکرات کے مقصد سے عصری تعلیم گاہوں کے منتخب افراد کواپنے یہاں مدعو کرنا چاہےے۔مدارس کے خلاف موجودہ ہاﺅ ہوکے ماحول نے عصری تعلیم گاہوں میںپڑھنے اور پڑھانے والوں کے ذہنوںمیں مدارس کے طلبہ و اساتذہ کے تعلق سے بہت سی بے بنیاد باتیں بٹھادی ہیں۔


بین مذاہبی مذاکرات کے اس عمل میں دینی مدارس کی شرکت کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سماجی مطالعے کوخصوصیت کے ساتھ نصاب درس میں شامل کیا جائے۔ مدارس کی موجودہ داخلیت پسندی اور فضلاے مدارس کی شعبہاے حیات کے لازمی تقاضوںسے بے خبری ،جس نے ان کے درمیان تقریبا خود ساختہ ذہنی ناپختگی کی عمومی فضا پیدا کردی ہے، کا مداوا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے دوسری اہم چیز مذاہب کاتقابلی مطالعہ ہے ۔ اس موضوع پر اسلامی مکتبات میں کتابوں کی کمی نہیں ہے۔ تاہم ان میں اکثر کتابیں وہ ہیں جو صدیوں قبل لکھی گئی تھیں جےسے ابن حزم، عبدالکریم شہرستانی، علامہ ابن تیمیہ،ابن قیم جوزی وغیرہ کی کتابیں۔ان کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ خصوصا پچھلی دو صدیوں میں دنیا کا سماجی، سیاسی اور ذہنی ڈھانچہ انقلابی تغیرات سے دوچار ہوچکا ہے۔ مغرب میںجدید نظریات : کمیونزم، سرمایہ داری ،سیکولر لبرلزم ،ماڈرنزم ، پوسٹ ماڈرنزم اوروجودیت وغیرہ نے باضابطہ مذاہب کی شکل اختیار کر لی ہے۔جدید انداز میں ڈائلاگ کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لےے ان نظریات کاتفصیلی مطالعہ اور ان سے واقفیت ضروری ہے۔ ہندستان جیسے ملک میں بھی ایک بڑا الٹرا سیکولر طبقہ انھی نظریات کو اپنا مذہب تصور کرتاہے۔ البتہ عوام الناس کی اکثریت اورتعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعدادروایتی مذہبی ڈھانچے پر اعتقاد یا اس سے انسیت رکھتی ہے۔ اس لےے یہاں خاص طور پر دونوں سطح پر مطالعے اور واقفیت کی ضرورت ہے۔ یونی ورسٹی کے اسلامی اسٹڈیز کی نصاب میں اس قبیل کی کچھ چیزیں شامل ہیں۔ لیکن یونی ورسٹی کا مجموعی ماحول ایک بامقصد ذہن اور نتیجہ رخی فضا پیدا کرنے سے قاصر ہے۔


خلاصہ یہ ہے کہ دینی مدارس کوملک کی مخالف فضا کو اپنی موافقت میں کر نے کے لئے ڈائلاگ کا راستہ اختیار کرنا چاہےے۔ اہل مدارس کو خود اس کے لےے پیش قدمی کرنی چاہےے اور ہر ایسی پیش رفت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے بھرپور تعاون دینا چاہئے۔ مدارس کا شعار: میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے، ہے۔ اس کی عملی تشکیل کا اہم وسیلہ یہی ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت کے خاتمے اوررواداری کے فروغ کے لےے ضروری ہے کہ ملک کے مسلم وغیرمسلم حلقوں کے مابین ڈائلاگ کلچرشروع ہو۔حقیقت یہ ہے دینی مدارس اس میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔

Monday, December 28, 2009

مسلمان ، میلی ٹینسی اور جہادی تحریکات
اسلامی سیاست کی شروعات اس نکتے سے ہوتی ہے کہ اسلام صرف فرد کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو وہ محض فردکی اپنی خواہشات کا قیدی بن کر رہ جائے گا۔ جیسا کہ مغرب میں ہوا۔اسلام ایک نظام حیات ہے۔وہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔لیکن اس کے لےے وہ جبر(compulsion (کا نہیں بل کہ قائل کرنے (convincing)کا طریقہ اختیا ر کرتا ہے۔ اسلام کا دستور اہلِ اسلام کے لےے ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو اس کا قائل کرنے یا ان پر اس کے نفاذ کی کوشش کریں۔ خودمسلمانوں پر بھی ریا ست کی طرف سے سختی کا جواز اس وقت ہوگا جبکہ متعلقہ لوگوں کو سمجھنے،سمجھانے اور پرامن ذرائع سے قائل ومطمئن کرنے کی پوری کوشش کی جاچکی ہو لیکن وہ سرکشی اور ماحول کو خراب کرنے پر آمادہ ہوں۔اسلام میں ارتداد کے مسئلے کی حقیقت بھی ہے کہ اس کی سزا کا نفاذ ان لوگوں سے متعلق ہے جن کی باغیا نہ روش سے اسلامی نظام کو خطرہ درپیش ہو۔علامہ یو سف قرضاوی نے اپنی کتاب ‘’فی فقہ الاولیات “میں اس کی وضاحت کی ہے۔

اسلام ایک تکثیریت پسند مذہب ہے۔اسلامی اجتماعیت بقاے باہم کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اسلام کی اجتماعی وسیاسی تاریخ کی بنیاد اسی پر پڑی ہے۔ چناںچہ اسلام کی پہلی حکومت جس کی پیغمبراسلام کے ہاتھوں بنیاد پڑی، اس کی سب سے اہم مثال ہے۔ یہی اصل نظری و عملی معیار ہے۔ دوسری صورت کی جو مثالیں تاریخ میں ملتی ہیںان کا تعلق زیادہ تر بعض وقتی مصالح اور ماحولیاتی تقاضوں سے ہے۔ورنہ اس بات کا کوئی عقلی جوازتلاش کرنا ممکن نہیں کہ وہی عمرفاروق جوذمیوں کی فرمائش پر ان سے جزےے کی بجائے ٹیکس وصول کرتے ہیں ،وہی انہیں قرآن پڑھنے کی بھی ممانعت کردیں جیساکہ شامی عیسائیوں کے ساتھ معاہدے میں دوسری بہت سی قابل حیرت شقوں کے ساتھ اس کا بھی تذکرہ ملتا ہے اسی لےے بعض محققین اس معاہدے کی عبارت کو مستند تصور نہیں کرتے۔دیکھئے (مصطفی سباعی کی کتاب: نظام السلم والحرب فی الاسلام )۔بدقسمتی سے اسلام کی تہذیبی تاریخ کچھ اس انداز میں مرتب کردی گئی ہے کہ وہ خالص سیاسی تاریخ نظر آتی ہے۔ حتی کہ پیغمبر اسلام کی سیرت لکھنے والوں نے بھی آپ کو ایک بڑے غازی کی شکل میں پیش کرنے میں زیادہ فخر محسوس کیا۔ چناںچہ ابتداءً رسول اللہ کی سیرت کو ”مغازی“ ہی کہا جاتا تھا۔ حدیث کی کتابوں میں بھی آپ کی شخصیت کے اسی جزوی پہلو پر زیادہ زور دیا گیا۔ حالاںکہ قرآن میں آپ کو کہیں بھی غازی یا مجاہد کے لقب سے نہیں پکارا گیا۔ اس کی جگہ آپ کو ”مزمل“ اور ”مدثر“ (چادر میں لپٹنے والے) کہا گیا کیوں کہ آپ چادر میں لپٹ کر شب و روز خاموشی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔رسول اللہ کا طریقہ فرد کی تعمیر کا تھا۔ افراد کے دلوں کو جگانے اورمردہ روحوں کو زندہ کرنے کا تھا۔ جس کا طریقہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعوت و تبلیغ تھی اور بس! اس لےے قرآن میں برابر آپ کو یہ تلقین کی جاتی رہی ہے کہ آپ لوگوں پر داروغہ (حاکم) نہیں ہیں۔ آپ کو لوگوں پر زبردستی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان کا اس تعلق سے معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس کی سزا و جزا کا فیصلہ وہ کرے گا۔لیکن موجودہ دور میں بعض اسلامی تحریکات لوگوں کے ساتھ جبر کا رویہ اختیار کیا اس کی سب سے اہم مثال طالبان کی حکومت کا رویہ ہے۔ یہی رویہ پاکستان کے بعض انقلابی روح رکھنے والے افراد اور جماعتوں نے اختیار کیا اور کر رکھا ہے۔لال مسجدکا واقعہ اس دور کاسب سے عبرت ناک واقعہ ہے۔ یہ تحریکات ردِ عمل کی نفسیات کے ساتھ میدان میں آئیں، اس لےے وہ شدید طور پر افراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ گئیں۔ انتقامی ذہنیت کے تحت اپنے ’اسلامی عمل‘ کے لےے انھوں نے ایسی سخت ممنوع چیزوں کو بھی جائز ٹھہرالیا جن سے اسلام کے دین انسانیت ہونے کی امیج پر زد پڑتی ہے۔ دراصل اسلام کی سیاسی فکر میں پائے جانے والے اس کمزور نظرےے نے مسلمانوں کی پستی اور زوال کے دور میں آگ پر تیل کا کام کیا کہ اسلام کے دوسرے مذاہب پر غالب ہونے (قرآن کی اصطلاح میں ”اظہار دین “)کا مطلب سیاسی بالادستی کا حصول ہے۔ حالاں کہ یہ سراسر عقل اور واقعے کے خلاف ہے۔محققین کا یہ نقطہ نظر نہیں ان کی نظر میںقرآن و حدیث میں اس سے مراد اسلام کا نظریاتی غلبہ ہے لیکن اسے سیاسی معنی پہنا کر اسے مسلم امہ کا بنیادی نشانہ بنادیا گیا۔ ہمارے اسلامی شاعروں اور واعظوں نے اسے غالب مسلم فکر کا حصہ بنانے اور مسلمانوں کے ذہنوں میں اسے پیوست کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ دورِ زوال میں اس نشانے کے پورا ہونے کا خواب کسی بھی طرح شرمندہ تعبیرہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس لےے مایوسی یقینی تھی۔ اس پر مزید نئی سامراجی اور امپریل طاقتوں کی مسلمانوں کو مٹا دینے یا غلام بنالینے کی پالیسی ہے۔ جس کے مظاہر افغانستان، عراق، فلسطین سمیت پورے عالمِ اسلام میں نظر آرہے ہیں۔

مسلمانوں کی جہادی تنظیموں کی اکثریت اس وقت اسلام کے نام پر غیر اسلامی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔ ان کی حرکتوں سے اسلام بدنام ہورہا ہے۔ دنیا میں ان کے لےے جگہ تنگ ہورہی ہے۔مسلم قوم کمزور ہورہی ہے۔ خود مسلم ملکوںکے لےے یہ تنظیمیں سردرد بنی ہوئی ہیں۔ سعودی عرب سمیت مختلف عرب اور وسط ایشیائی ممالک میں ہزاروں مسلم اکٹووسٹ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہیں۔ ظاہر ہے یہ سارے الزامات صحیح نہیں ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں بے قصور بھی شامل ہیں۔ غیر جمہوری شخصی حکومتوں نے یہاں عوام کی زبانوں پر تالے لگادےے ہیں، تاہم ان میں ایک بڑی تعداد وہ ہے جو حکومتی نظام میں تبدیلی لانے کے لےے تشدد کی کسی بھی غیر انسانی حدتک جانے کو تیار ہے، حالاںکہ اسلام میں صرف ”کفر بواح“ (کھلا کفر) کے سامنے آنے کی صورت میں تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ صورت حال کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔اس وجہ سے ایسی تمام کوششوں کا نتیجہ اسلا می دعوت کے امکانات کی مزید تباہی اور اس کی راہوں میں پیدا ہونے والی چنددر چند مشکلات کی شکل میںسامنے آرہا ہے۔

تاہم اسی کے ساتھ ایک حوصلہ افزا امر بھی سامنے آیا ہے کہ عربوں میں ایک بہت بڑی تعداد اپنے سابقہ تشدد پسندانہ نظرےے اورعمل سے توبہ کرکے پیس فل اکٹوزم کی وکالت کررہی ہے۔ ”مراجعات جھادیہ“ (جہاد ی اکٹوزم سے رجوع )کے عنوان سے ان کے خیالات شائع ہورہے ہیں۔مصر کی کئی ایک تشدد پسند جماعتوں :الجہاد الاسلامی ،الجامعہ الاسلامیةاسی طرح،المجاہدون اور حزب التحریر وغیرہ سے وابستہ افراد نے حالیہ دنوںمیں تائب ہونے کا اعلان کیا ہے۔

حالیہ دنوں میں بعض مسلم تحریکات اورمغربی حکومتوںکے درمیان آویزش کی صورت حال قائم ہوگئی ہے۔ اس پرقابو پانے کے لےے تین سطحوں پر کوششوں کی ضرورت ہے:۔
(1)
روایتی مسلم سیاسی فکر میں مناسب ترمیم و اصلاح۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:۔٭ متحدہ قومیت کے تصور کو اسلامی بنیادوں پر تسلیم کرتے ہوئے اس حوالے سے پوری دنیا کوایک دارالمعاہدہ ہونے کا برملا طور پر علما کی تمام جماعتوں کی طرف سے اعلان واعتراف کیاجائے اور اس تناظر میں قومی جنگوں کو(جو بلاشبہ اپنے ملک کے دفاع میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہیں) جہاد کا نام دینے کو غیر اسلامی قرار دیا جائے۔کیوں کہ اس تعلق سے غیر اسلامی بلکہ بسا اوقات غیر انسانی سلوک واقدامات سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔

٭ سیکو لر زم کو اس کے مغربی مفہوم سے الگ کرکے ، جس کے تحت وہ مذہب کےخلاف بل کہ اس کے بر عکس نظر آتا ایک ایسے نظرےے کے طور پر متعارف کرانے کوشش کی جائے جس کا دین کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ یہ ایک تکثیری سماج میں مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور سیاسی دائرے سے الگ تمام مذاہب کویکساں اہمیت و آزادی دینے سے عبارت ہے۔ اسی طرح تکثیریت سے متعلق اسلام کے روایتی دینی حلقوں میں پائے جانے فکری دھندلکوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

٭جہاد کے معنیٰ کو قتال سے عام کیا جائے اور اسے اسلامی سرگرمیوں کے پُر امن ذریعہ کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ قتال کے معنی میں جہاد ایک دفاعی عمل ہے۔ اسلام میں کسی اقدامی جنگ کا تصور نہیں ہے یہ اسلام کے واضح اور یونیورسل تصور عدل کے خلاف ہے۔اس سے ظالم قوتوں کے preemtive war کے تصور کوتقویت ملتی ہے۔

٭ دوفریقوںکے درمیان تنازع اورکش مکش کی صورت حال کو ختم کرنے کے لےے کم سے کم مشتر کہ بنیاد پر باہم ڈائلاگ کے نظرےے اور عمل کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہےے۔ اوریہ کہ جنگ و جدال ڈائیلاگ کوششوں کی ہر طرح سے ناکامی کے بعد دو آپشنوں میں سے ایک آپشن ہے: اور پہلا آپشن صبر ہے۔

٭ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے مفہوم کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ فقہ الاقلیات کے تحت اس موضوع پر غوروخوض کیا جانا چاہےے۔ قدیم فقہا کے یہاں اس سلسلے میں غلو پایا جاتا ہے۔ قرآن کی بعض آیات جن میں مخصوص حالات میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی کا تعلق قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض احادیث (مثلاً وہ حدیث جس میں دیگر قوموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے) کی روایتی تفسیر و توضیح سے ہٹ کر جن کے تحت اکثر حالات میں غیر مسلموں سے دوری بنائے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ موجودہ حالات اور تجربات کی روشنی میں تفسیر و توضیح کی ضرورت ہے۔

یہ اور اس طرح کی بہت سی دوسری چیزیں ہیں جن پرازِ سر نو غوروخوض کرکے اسلامی فکر کی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی فکر کی تشکیل جدید کا کام اپنے ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ برصغیر ہند میں اقبال کے بعد کوئی دوسری ایسی شخصیت پیدا نہ ہوسکی۔ خود عربوں میں مفتی محمد عبدہ کی فکری اصلاحی تحریک جس زور و قوت کے ساتھ ابتدا میں آگے بڑھی تھی آگے چل کر اسے عبدہ اور رشید رضا جیسے روشن دماغ اور عالی ظرف اصحاب علم میسر نہ آسکے۔
(2)
موجودہ کشمکش کے خاتمے کے لےے دوسری چیز مغربی سیاسی طاقتوں کا جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے، مسلم ممالک کے تعلق سے اپنی جارحانہ اور جابرانہ روےے اور غاصبانہ پالیسی پر نظر ثانی اور اپنے انسانیت کش اقدامات سے باز آنا ہے۔ اس کی فوری صورت یہ ہے کہ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضہ ختم ہو۔ اس کی اور دوسرے ممالک کی فوجیں وہاں سے واپس جائیں۔ فلسطین میں مسلمانوں کا اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل و خون بند ہو اور قضیہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کیا جائے۔ امریکہ اسرائیل کی سرپرستی بند کرے اور اس کو اس کی غیر انسانی حرکات سے باز رکھنے کا ذمہ لے ۔ اگر بڑی طاقتوں سے یہ ممکن نہیں ہے تو اس کے بغیر مسلمانوں میں ریڈی کلزم کے فروغ کو روکا نہیں جاسکتا ۔ مایوسی اورجھلاہٹ کمزور قوم کے لےے سب سے اہم ہتھیار کا کام کرتی ہے۔
(3)
تیسری چیز موجودہ مسلم ملکوں میں صحیح جمہوری فضا کی بحالی ہے۔ مسلمانوں میں خاندانی، اقتدار پسنداور مغرب نواز حکومتیں اپنے مفادات کے لےے شہریوں کے حقوق کو بری طرح پامال کرتی ہیں۔ ان مسلم حکم رانوں کا محاسبہ ہونا چاہےے۔ ان کو ان کی من مانی، قومی دولت کے بے دریغ استعمال سے روکا جانا چاہےے، جو حساس شہریوں کے دلوں میں کانٹے چبھوتی ہیں۔

غرض ہم صرف ریڈیکل اور جہادی اسلامی تحریکات کی اصلاح اور ان کو صحیح رخ پر لانے کی بات کرکے ہی موجودہ صورتِ حال کوتبدیل نہیںکرسکتے ۔اس کے لےے موجودہ سیاسی نظامات میں،خواہ ا س کا تعلق غیر مسلم ممالک سے ہویا مسلم ممالک سے ، عملی سطح پر عدل و انصاف کے تصورات کو بحال کر نے کی ضرورت ہے۔

Sunday, December 27, 2009

خواتین کی سماجی سرگرمیاں اور ہمارا مذہبی رویہ

موجودہ دور میں خواتین کی آزادی کا مسئلہ چند ان اہم مسائل میں سے ایک ہے، جن پر علمی حلقوں میں زبردست بحثیں جاری ہیں۔ اس میں روایت پسند علماودین دار اورجدیدتعلیم یافتہ حضرات ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہے۔علماپوری طرح اس بات کے حق میں ہےں کہ معاشرے کو بے حیائی اور جنسی آوارگی سے محفوظ رکھنے کے لےے خواتین پر زیادہ سے زیادہ پابندی عائد کی جائے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ خانہ نشین بنانے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے روایتی علما کی نظر میں خواتین گھر کی مملکت کی ’رانی‘ ہیں۔ انھیں اس پر راج کرتے ہوئے باہر کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہےے، جو مردوں کے دائرہ کارمیں آتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے فساد پھیلتا اور معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ معاشرے کی بہت سی چھوٹی بڑی خرابیوں کوعلما عورتوں کی اسی ’بے راہ روی‘ سے جوڑ کر دیکھتے ہےں۔ جب کہ جدید دتعلیم کا حامل بڑا طبقہ حجاب کو بھی عورتوں پر ظلم تصور کرتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ عورتوں کی شخصیت بہت حساس ہے اور سماج کی خوبی اور خرابی کا بہت کچھ دار و مدار عورتوں پر ہے۔ ظاہر ہے وہ سماج کا ایک بہت بڑا حصہ بلکہ اس کے دو بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورتوں سے متعلق ہمارا رویہ دین و شریعت کی روح سے ماخوذ و متاثر کم اور موجودہ دور کے مظاہر سے متاثر زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے تعلق سے اس وقت روایتی اسلامی حلقوں میں جو تصور پایا جاتا ہے، اس پورے تصور پر یہ بات صادق آتی ہے کہ اس کو قرآن وسنت اور اسلامی روایت سے کم اور ”دوسروں “کے اس غلط طرزِ عمل سے زیادہ ثابت کیا جاسکتا ہے جس کواس تصور کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تہذیبی تناظر میں یہ ”دوسرا“ مغربی دنیا ہے ۔مغرب میں عورتوں کو جس طرح پروجیکٹ کیا گیا۔ آزادی اور مساوات کے عنوان سے انہیں جس طرح جنس بازار بنانے کی کوشش کی گئی اور اس کے جو افسوس ناک نتائج سامنے آئے، اس نے مسلمانوں کے طبقہ علما کو حد سے زیادہ حساس اور احتیاط پسند بنادیا۔عورت کی غیر فطری آزادی کے ردعمل میں ان کے اندر عورتوں کوگھر کی چہار دیواری میں قید کرنے اوران پر زیادہ سے زیادہ پابندیا ں عائد کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس کے وقتی فائدے ضرور ے ہوئے لیکن اس کا ناقابل تلافی نقصان یہ ہوا کہ مسلم معاشرہ اپنی آبادی کی ایک بڑی تعدا د کی انمول صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوگیا۔

خالص روایتی علما کی تو کیابات؟روشن خیال اسلامی طبقے کے نمائندہ عالم مولانا مودودی رحمة اللہ کی کتاب ”پردہ“ کوسامنے رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ جو شدت ان کے یہاں اس تعلق سے پائی جاتی ہے متقدمین علما میں نہیں تھی۔ چاروں ائمہ سمیت متقدمین علما عورتوں کو چہرہ کھولنے کی اجازت دیتے تھے لیکن موجودہ دور کے علما نے یہ اجازت ختم کردی۔جس کی دلیل ان کی نظر میںیہ تھی کہ اصلا چہرہ ہی مرکزحسن اور اس طرح منبع فتنہ ہے حالاں کہ متقدمین علما،فقہا اور محدثین کی اکثریت، جو حصول خیر کے مقابلے میںدفع شر کے اصول پرسختی کے ساتھ عمل پیرا تھی ،اس نے اس دلیل کوقابل توجہ نہیں سمجھا۔مولانا اشرف علیتھانوی کی حساسیت کی انتہا یہ ہے کہ وہ عورتوں کے اخبار میں نام تک چھپنے کو معصیت تصور کرتے ہیں ان کا آئڈیل یہ ہے کہ عورت اس طرح گھر میںچھپی اودر بند ہو کہ پڑوس کو یہ معلوم بھی نہ ہوسکے کہ اس گھر میں عوت ہے۔ تعلیم کے تعلق سے وہ ابتدائی لٹریسی سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔مولا نااحمد رضا خان کے فتاوی میں عورتوں پرپابندی سے آگے بڑھکران کے تعلق سے جس تصغیر و تحقیر کارویہ اختیار کیا گیا ہے اس کی مثالیں ارون شوری کی ”ورلڈ آف فتواز“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ عورت کی آواز کے پردہ ہونے (صوت المرءة عورة) جیسا بالکل غلط اور مضحکہ خیز نظریہ تک دینی حلقوں میں مقبول ہوگیا۔ مستند اسلامی لٹریچر اور اسلام کے عہدِ زریں کا مطالعہ بالکل ایک دوسری تصویر پیش کرتا ہے۔

تاریخی طور پر عورتوں کے تعلق سے اس صورت حال کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عالمِ اسلام پر تاتاری حملے کے بعدسیاسی وسماجی سطح پرمسلمانوںکے اندرجوانتشار وپراگندگی کی کیفیت پیدا ہوئی اس کے نتیجے مسلمانوں میں یہی نفسیات پیدا ہوگئی تھی۔اس وقت یہ بحث تھی کہ عور توں کو لکھنا سکھانا جائز ہے یا نہیں۔ ملا علی قاری جیسے فقیہ عالم و محدث نے عورتوں کو لکھنا سیکھنے کے ممنوع ہونے کا نہ صرف فتوی دیا بلکہ اس کی ممانعت میں باضابطہ کتاب لکھی۔تقریبا چھ سو سالوں تک دینی حلقوں میں یہ بحث جاری رہی کہ عورتوں کو پڑھانے کے علاوہ لکھنا سکھانے کی بھی اجازت حاصل ہے یا نہیں اس فتوے کی منسوخی کی اور عورت کے لےے لکھنا سیکھنے کی اجازت کا باضابطہ فتوی انیسویں صدی میں مولانا عبدالحی فرنگی محلی نے دیا اور اس طرح گویا ’شرعی‘ طور پرعورتوں کو لکھنا سیکھنے کی اجازت حاصل ہوئی(منصورخالد:دینی مدارس میں تعلیم ص:۲۱۶۔۲۱۹ بحوالہ:پروفیسر محمد سلیم :دینی مدارس کے لےے نصاب نو کی تجاویز ص:۴۳،۴۴)۔

اسلام نہ تو مغربی فریم ورک میں عورتوں کی آزادی) emancipation) کاقائل ہے اور نہ ہی مشرقی طرزعمل کے مطابق قیدو بندemprisenmnt))کا۔ا سلام کا صحیح رویہ ان دونوں انتہاﺅں کے درمیان مخصوص حدود وشرائط کے ساتھ عورتوںکوسماجی سطح پر آزادی دینے کا ہے۔اصولی سطح پر قرآن وحدیث کی نصوص اور عملی سطح پرعہدنبوی اورعہد خلافت راشدہ کی روشنی میںدیکھا جائے تواندازہ ہوگا کہ اسلام میںسماجی سطح پر عورتوں کے تحرک پر کوئی پابندی عائدنہیں کی گئی ۔ سماجی سطح پر ان کا رول متعین کیا گیا تھا اور وہ اس رول کو انجام دیتی تھیں ۔غور کیا جا سکتا ہے کہحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت شفا بنت عبداللہ العدویہ کوبازار کا نگراں یا محتسب بنایا تھا،آج کے تصور کے مطابق ،عورت کے لےے سب سے بڑی فتنے کی جگہ بازار ہے۔عورتیں مسجدوں ،عیدگاہوں میں جاتیں ،جنگوں کے موقعوںپر اپنی صلاحیت کے مطابق خدمات انجام دیتیں۔ بغیر کسی رکاوٹ کے رسول اللہ کی مجلسوںمیں مردوںکی موجوگی میں شریک ہوتیں اور آپ سے مسائل معلوم کرتی تھیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی اسما گھربیرون خانہ اپنے شوہرزبیر بن العوام کے کاموں میں اس طرح ہاتھ بٹاتیں کہ ان کے گھوڑوں کی مالش کرتیں ان کے لےے دانے کوٹتیں اور انھیں دورمقام سے یہ دانے اپنے سر پراٹھا کر لاتی تھیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ ایک عورت نے بھری مجلس میں آپ کو ٹوکا اور آپ اور آپ نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا۔یہاں نہ کسی کے ذہن میں نہ آواز کے پردے کی بات آئی اور نہ ہیں اختلاط مرد وزن کی۔رسول اللہ نے حضرت ام حرام کے لےے دعا کی کہ وہ سمندر کا سفر کر کے جہاد پرجائیں ۔چناں چہ حضرت عثمان کے زمانے میںوہ اس کے لےے قبرص گئیں اور وہاں جنگ میں شریک ہوئیں ۔بخاری ومسلم جیسی حدیث کی اہم کتابوں میںدسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے مردو عورت کا ایک دوسرے کے چہرے کودیکھنے،ان سے باتیں کرنے ،لین دین کرنے،مختلف امو ر میںایک دوسرے کو تعاون دینے کا ثبوت ملتا ہے۔(اس طرح کی روایات وآثار کے لےے دیکھیں:”خواتین کی آزادی عہد رسالت میں“ناشر: IIIT امریکہ) امہات المومنین جنہیںخاص طور قرآن میں پردے کی آیا ت میں مخاطب بنایا گیا ہے،خدمت میں صحابہ وتابعین حاضر ہوتے اور ان سے علم حاصل کرتے تھے ۔اس میں سب سے اہم نام حضرت عائشہ کا ہے جو عمر میں سب سے کم تھیں۔قرآن میں حضرت سلیمان کابلقیس سے ملانا اورگفتگو وغیرہ کرنا ،اسی طرح زکریا کا حضرت مریم سے ملنا ،حضرت شعیب کی بیٹی کاغیر محرم مسافر(حضرت موسی علیہ السلام) سے بات کرنا اورجانوروںکو پانی پلانے میں ان سے مد د حاصل کرنے کاواقعہ مرقوم ہے ۔قرآن میں سابق انبیا کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے (انعام:۹۰)۔

قرآن میں کہا گیا ہے کہ مسلمان مرد وعورت ایک دوسرے کے رفیق ومددگار ہیں،یہ سب مل کر نیکی کا حکم دیتے اور لوگوںکو برائیوں سے روکتے ہیں(التوبہ:۱۷)اس طرح قرآن کے منشا کے مطابق عورت اور مرد دونوں ہیںاجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے مکلف ہیں اور ان کی ادائگی ایک دوسرے کے اشتراک و تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔عورت کو جائزاور ضروری آزادی دینے کے تعلق سے ہمارے یہاں جو تحفظات کی روش پائی جاتی ہے، اس کا بہت کچھ تعلق مقاہمی اقدار وتصورات سے ہے نہ کہ رسول اور اصحاب ر سول کے اسوہ اورطریقہ کار سے۔

حقیقت یہ ہے کہ عورتوں سے متعلق تعصب و تنگ نظری کی جو صورت حال تاریخ کے تمام ادوار میں قائم رہی ،اسلام آنے کے بعد وہ یکسر ختم نہیں ہوگئی ،نہ ہی ایسا ممکن تھا(ورنہ دنیا میںکوئی بھی برائی باقی نہیں رہتی )رسول اللہ نے نہ صرف نظری بلکہ عملی سطح پر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن بہت کم ہونے کے باوجود اس کے اثرات اسلامی معاشرے میں باقی رہے ۔اس صورت حال غلامی کی مسئلے پر قیاس کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے اسلام کے انسانی عدل کے تصور کے مطابق ،اسلامی سماج سے غلامی کو ختم ہوجانا چاہےے تھا لیکن وہ باقی رہی۔اسی طرح عورتوں کے تعلق سے تنگ نظری کی روش دینی حلقوں تک میںباقی رہی ۔اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ عورتوںکے تعلق سے کم وبیش ایک درجن ایسی احادیث گڑھ لی گئیں یا آثار واقوال پید اکر لےے گئے جن میں عورتوں کے درجے کو نہایت گھٹاکر، جب کہ بعض میں نہایت قابل نفرت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔مثلا:”عورتوں سے مشورہ کرو اور ان کے مشورے کے برعکس کرو“۔”عورتوں کی بات ماننا شرمندگی ہے۔“مرد ہلاکوہوگئے جب انھوں نے عورتوں کی بات مانی۔“اگر عورت نہ ہوتی تو اللہ کی عبادت کا حق زیادہ بہتر طور پر اد ا کیا جاتا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی یہ قول کہ”:عورت مکمل برائی ہے اور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کی برائی سے مفر نہیں ہے“۔

بہر حال ضرورت ہے کہ خاص طور پر مذہبی حلقوں میں عورتوں کے تعلق سے تاریخی سطح پر پایا جانے والے متعصبانہ رویے پر نظر ثانی کی جائے اورعورت کی فطری صلاحیتوں سے مسلم سماج کو بہرہ ور کرنے کے لےے سماج میں اسے اسی سطح پرمتحرک اور سر گرم ہونے کی اجازت دی جائے جو اجازت اسے نبوی عہد میں حاصل تھی۔

Monday, December 21, 2009

Musalman aur Maghrib: Bahimi Istefade ki rahian

مسلمان اور مغرب:باہمی استفادے کی راہیں
مسلمان اور مغرب کے آپسی تعلقات کا موضوع پرانا ہونے کے باوجود اس حیثیت سے نیا ہے کہ اس میں نائن الیون کے بعد ایک نیا موڑ آگیا ہے۔ اس کے بعد اس موضوع کی اہمیت مسلم اور مغربی مفکرین کے درمیان بڑھ گئی ہے۔ مشرق و مغرب دونوں میں اس پر بکثرت لکھا اور بولا جارہا ہے۔ مغرب میں فوکویاما کی(دی اینڈ آف دی ہسٹری) اور سموئیل پی ہن ٹنگٹن کی کلیش آف سیویلائزیشن کے پچھلی صدی کے آخری دہائی میں منظرِ عام پر آنے کے بعد مغرب میں ایک بڑا طبقہ اس خیال کا حامی ہوگیا کہ مسلمانوں کے ساتھ مصالحت اور ٹکراو ناگزیر ہے۔ مغرب کے فکر سازاداروں نے اس فکر کو خاص رخ دیا۔ اب انتہا پسند سیاسی یا نیم مذہبی نیم سیاسی جماعتوں نے اسے باضابطہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرکے تحریک کی شکل دے دی ہے۔بعض انتہا پسند یہودی اور عیسائی جماعتیں اس میں پیش پیش ہیں۔ کسی ایک مغربی ملک کی نہیں بلکہ پورے یورپ و امریکہ کی یہی صورتِ حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں تبدیلی کیوں کر پیدا ہو؟ کیا مسلمانوں کے پاس اس تعلق سے کوئی منصوبہ ہے؟ جو اب نفی میں ہے۔
اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اب تک مغرب کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں کے دانش مند طبقے کا مغرب سے متعلق مطالعہ انتہائی محدود اور سطحی ہے ۔مغرب کو سمجھنے میں اصل رکاوٹ ہماری اپنی ذہنیت ہے ۔ یہ ذہنیت عین اس مغربی ذہنیت کے مماثل ہے جو اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے عیسائیوں کے اندر صلیبی جنگوں کے بعدپیدا ہوگئی تھی۔ مسلمانوں نے مغرب کے تعلق سے کچھ ویسے ہی ایسٹیریو ٹائپس بنالےے ہیں جس طرح مغرب نے اس وقت مسلمانوں کے بارے میں بنائے تھے۔ اندزہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت عیسائی مذہبی رہنما عوام کو یہاں تک باور کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ مسلمان تین بتوں:ٹرواگانٹ،اور مہومیٹ کی پوجا کرتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کے مذہبی قائدین اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ باور کراسکیں کہ مغرب صرف نام ہے: شراب نوشی، جنسی آوارگی، عورتوں کی بے مہار آزادی اورفکری اباحیت کا ۔ اس کے نتیجے میں ہمارے یہاں مغرب سے سیکھنے اور اپنی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ مغرب کے توسط سے حاصل کرنے کی جگہ اس سے نفرت اور بے زاری مذہب پسندی کی سب سے بڑی علامت بن گئی۔ مسلمانوں کی اس ذہنیت کی تشکیل عہد استعمار میں ہوئی تھی۔ لازمی طور پر اس عہد کے خاتمے کے بعد اسے ختم ہوجانا چاہےے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں مستقل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اور اب یہ اتنا پختہ ہے کہ اس کو کھرچ کر صاف کرنا مسلمان مصلحین کے بس میں نہیں ہے۔
یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی فکر تاریخ و ثقافت اور مذہب پر تحقیقات کے بلامبالغہ سینکڑوں ادارے قائم ہیں۔ یونی ورسٹیز کے مختلف شعبے اس کے لےے وقف ہیں۔ جن کے نتائج مسلمانوں سے متعلق لا تعداد کتب، رپورٹ اور سروے کی شکل میں دنیا کی تمام لائبریریوں میں موجود ہیں۔ عالمی صحافت میں ان کا غلغلہ ہے لیکن اس کے مقابلے میں مسلم دنیا میں مغرب کے تعلق سے ایسے باضابطہ اور صحیح منہج کے مطابق کام کرنے والے ادارے گنتی کے دوچار بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میںمغرب کو باضابطہ ایک اہم موضوع کے طور پر یونی ورسٹیز کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت تھی۔ ہمارے یہاں بھی فورڈ فاونڈیشن، کارنیگی فاونڈیشن فل برائٹ جیسے ادارے ہونے چاہےے تھے جو خصوصاً مغرب سے متعلق آزاد تحقیقات کے لئے اسکالرس کومالی بجٹ فراہم کریں۔ آئی ایس آئی ایم (ہالینڈ) جیسے ادارے کی ضرورت تھی جو مغربی فکر و ثقافت کے مختلف عناصر پر کھلی تنقیدی لیکن غیر جانب دارانہ بحث کو پروان چڑھائیں۔ تاکہ مسلمان مغرب کی خامیوں اور کمزوریوں کے ساتھ اس کی خوبیوں سے بھی واقف ہوسکےں اور ان کو اختیار کرسکیں۔
کم ازکم علم کو مشرق اور کے خانوں میں تقسیم کرناایک بے معنی سی بات ہے علم ایک یونی ورسل شئے ہے اور یہ پوری انسانیت کی وراثت ہے ۔ تمام انسانی نسلوں نے مل کر اسے اس موجودہ ترقی یافتہ شکل تک پہنچایا ہے۔ جہاں تک تہذیب کی بات ہے، وہ عقیدہ، عمل، تاریخ اور معاشرت تمام چیزوں کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔ اس لےے اس کا ایک حصہ دوسرے مختلف مذہبی اورگروہی تشخص رکھنے والوں کے لےے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا وہ اعتبارات سے وہ دوسرے کے لےے نقصان دہ بھی ہوتا ہے
اس وقت مسلمانوں کی اکثریت مغرب سے متعلق دوہرے معیار کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ ایک طرف وہ مغرب سے نفرت کی مدعی اور اس سے دامن بچانے کی داعی ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ شدید طور پر یہ خواہش رکھتی ہے کہ کس طرح مغربی سرزمین پر اس کو اور اس کے اہلِ خانہ کو قدم جمانے کا موقع مل جائے۔ راقم کے ذاتی مشاہدے کے مطابق ،جو امریکہ میںمقیم بہت سے مسلمان امریکہ کو شیطان اعظم سمجھتے ہیں لیکن اسی شیطان اعظم کے دسترخوان پر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی امریکی شہریت پر فخر کرتے ہیں یا بے تابی کے ساتھ اس کا شہری بننے کے دن گن رہے ہیں۔ اپنی اولاد کا خوش حال مستقبل امریکہ کی سرزمین پر دیکھتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟ سوال یہ ہے کہ آپ اس’ دارالکفر‘ کو چھورڑ کر’ دارالاسلام‘ میں کیوں نہیں بس جاتے؟قرآن میں کہا گیا ہے کہ”:اللہ کی سرزمین وسیع ہے توتم اس میںنقل مکانی کرو“ حقیقت یہ ہے مسلمانوں میں عمومی طور پر معروضی سوچ کی کمی اور مغرب کے تئیں روایتی نفرت کی ذہنیت کی وجہ سے وہ زندگی کے مختلف مادی میدانوں میں اس سے ضروری استفادہ نہ کرسکے۔یہ کوئی پوشیدہ بات نہیںکہایسی بہت سی اجتماعی اقدار جومسلم دنیا میں ان کہیں نہیں پائی جاتیں وہ مغربی معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ اجتماعی سطح پر اسلام اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے لےے خود اسلامی ملکوں کی سر زمین کس قدر تنگ ہے۔سچائی ،امانت و اخلاق ،معاملے کی صفائی اور خدمت خلق کا ہمارے یہاں کیا حال ہے؟
مغرب میں ہمارا سارا زور صرف اپنی تہذیبی شناخت کے منوانے پر ہے۔ ساری قوت اسی پر خرچ ہورہی ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا مسلم مسائل کی فہرست میں حجاب ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے؟ مغرب میںحجاب کی لڑائی لڑنے والوں کا رویہ ایسا لگتاہے کہ جیسے اسلام کی ساری دینی و اخلاقی تعلیم صرف حجاب میں محصور ہوکر رہ گئی ہو۔ یورپ کی سرزمین پربعض مسلم تنظیمیں اسلامی حکومت کے قیام اور بائبل کو ہٹا کر قرآن تک کو لانے کی بات کہتی ہیں (جیسا کہ تنظیم ”المجاہدون“ کے سربراہ عمر البکری کادعوی ہے)مطلوبہ جگہ پر مسجد کے قیام کی اجازت نہ ملنے پر زمین و آسمان کو سر پر اٹھا لیا جاتا ہے لیکن ایک لمحہ کے لےے یہ سوچنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ کیا یہ سب مواقع اور سہولیات ہمیں’ دارالاسلام‘ میں بھی حاصل ہیں؟
مغرب کے ساتھ مسلمانوں کا اصل مقابلہ اس وقت فکری میدانوں میں ہے۔ عسکری میدان میں ہم دو سو سال سے شکست کھائے بیٹھے ہیں ۔ مغرب کو ہم اپنا دشمن اور حریف سمجھتے ہیں۔ بہت بڑی تعداد مغرب کو دارالحرب تک تصور کرتی ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ اپنے ”دشمنوں“ سے لڑنے کے لےے ہم دشمنوں ہی اسلحہ اور فوجی ٹکنالوجی خریدنے پر مجبور ہیں۔ناطقہ سر بہ گریباں ہیںاسے کیا کہئے۔
دفاع اور مقابلہ آرائی کی اصل ضرورت پہلے ہمیں فکر کے میدانوں میں ہے۔ اس کے لےے ’حریف صحیح اور سنجیدہ شعورکی پرورش کے لےے مسلمانوں کے درمیان مستشرقین کی طرح ’مستغربین‘ (اوکسیڈنٹلسٹس)کی ضرورت ہے۔ اس معنی میں نہیں کہ وہ صرف مغرب کی اندھی نقالی کرنے والے ہوں اور اس کی ظاہری چمک دمک پر فریفتہ۔ جیسا کہ اس کی وقت عام صورت حال ہے بلکہ دانش مندوں کا ایسا طبقہ جو مغرب کی خامیوں اور خوبیوں دونوں کو واضح طور پر غیر جانب داری کے ساتھ سامنے لاسکے۔ مستشرقین کی اکثریت نے اسلام اور مسلمانوںکے تعلق سے ایسا نہیں کیا۔ کےوں کہ جیسا کہ ایڈورڈ سعید نے اورینٹلزم میں ثابت کیا ہے وہ سامراج کا ہراول دستہ تھی۔ البتہ بہت سے لوگ ان میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔
چند سال قبل میںنے ڈیوک یونی ورسٹی(امریکہ) کے ایک مسلم پروفیسر سے مغرب میں مسلمانوں کے مستقبل سے متعلق سوال کیا کہ وہ اسے کس زاوےے سے دیکھتے ہیں ۔ انھوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ بہت مایوس کن تھا۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مستقبل میں مغربی ممالک مسلمانوں سے اپنی سرزمین کو ’پاک‘ کرنے کا فیصلہ تک کرسکتے ہیں۔میرے خیال میں یہ بات تقریبا نا ممکن ہے۔ جس طرح مسلمان مغربی ممالک سے تعلق توڑ کر نہیں جی سکتے بالکل اسی طرح مغربی ممالک کے بہت سے اہم اور بنیادی مفادات کی تکمیل مسلم ممالک سے تعلق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔مسلمان اس وقت مغرب کے ’ورک فورس‘ کا اہم حصہ ہیں۔یوروپی ممالک کے کئی ایک سربراہوں کو اس بات کا اعتراف ہے کہ مغرب کی ترقیات میںمسلمانوں نے اہم حصہ ادا کیا ہے۔مغرب کے جدید سائنسی علوم وافکارکی بنیادعہد اسلامی کی سائنس پررکھی گئی ہے۔اس لےے دونوں ہی کے مفادات میں یہ شامل ہے کہ یہ نفرت کی فضا جلد ازجلد ختم ہو۔ بدقسمتی سے مغرب میں رہنے والے بعض مسلمانوںاور مسلم جماعتوں کی سادہ لوحی اور ان کی بے جا انانیت کے ساتھ مغرب ممالک کی بعض سیاسی و مذہبی حلقوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف برتا جانے والا تعصب نفرت کی اس فضا کو بڑھا رہا ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی سنت یہ رہی ہے کہ نارمل حالات کے قیام کے لےے آگے بڑھ کر خود حریف کی شرطوں پر کشمکش کی صورتِ حال ختم کردی جائے۔ یہی مسلمانوں کو بہر حال کرنا چاہےے۔ بشرطیکہ دین کا ضروری حصہ اس سے ضائع نہ ہو اور بہرحال اس کا امکان کم ہے۔رسول اللہ کے اس قول کے مطابق کہ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے؛ اس تہذیب کے قابلِ قدر عناصر سے اپنی تہذیب کو مالا مال کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

Thursday, December 17, 2009

Islami tasawwur jihad ke baaz fikri wa amli inhirafat

اسلامی تصور جہاد کے بعض فکری وعملی انحرافات
جہاد ایک کثیر المعنیٰ لفظ ہے اور اس کے معانی کی جہتیں وسیع ہیں۔ اسے کسی ایک یا دوسری صورت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے عمومی مفہوم میں وہ تمام کوششیں آتی ہیں، جو انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنی یا معاشرے کی اصلاح، انسانیت کی بھلائی وخیرخواہی اور خدا کی خوشنودی کے حصول کے لےے کی جائیں۔ اس کے خاص معنوں میں مخالفین اور دشمنوں کے ساتھ ایسے برتاو کا معنیٰ بھی شامل ہے، جس میں ضرورت کے وقت طاقت و قوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاد کی اس مخصوص شکل کو قرآن میں ”قتال“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسلام میں صرف دفاع کے لےے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ بقیہ دیگر صورتوں میں جہاد ایک پرامن عمل ہے جس کا مقصد خود کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنا اور دوسروں تک اللہ کے پیغام کو صحیح شکل میں پہنچانا ہے۔ اس معنیٰ میں سید شریف جرجانی نے جہاد کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ : دین حق کی طرف دعوت دینے کا نام ہے (ہو الدعاءالی دین الحق)۔
جہاد صرف دشمنوں سے جنگ کا نام نہیں۔علامہ ابن قیم رضی اللہ عنہ نے جہاد کی کل ۱۳قسمیں کی ہیں۔ اس کی چھ قسمیں نفس اور شیطان کے ساتھ خاص ہیں۔ تین قسمیں بدعات ومنکرات کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ اور چار قسمیں منکرین و منافقین کے ساتھ اس طرح شروع کی نو قسمیں داخلی سطح پر جہاد کی ہیں اور باقی صرف چار قسمیں خارجی سطح پر جہاد کی۔ ان چار قسموں میں دل، زبان، مال اور جان کا جہاد شامل ہے۔ (زاد المعاد ۳/۱۱۵) ۔
اس وقت جہاد کا وہ پہلو جس کا رخ خود اپنی طرف ہے، عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ خاص طور پر ہمارے انقلاب پسندوں کا وہ طبقہ جو اسلام کے غلبے کا آرزو مند ہے، اس کی نظر میں جہاد صرف قتال کی ایک صورت میں محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا۔(العنکبوت: ۶۹) ”اور جنھوں نے ہماری راہ میں کوشش کی انھیں ہم ضرور اپنا راستہ دکھائیں گے۔“ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ”لا تطع الکافرین وجاہدہم بہ جہادا کبیراً“اے محمد! تم کافروں کے آگے نہ جھکو اور ان سے قرآن کے ذریعہ جہاد کرو۔“(الفرقان:۵۲) پہلی آیت میں حضرت عبداللہ ابن عباس کے مطابق، ہر طرح کی طاعت مراد ہے اور عبداللہ ابن زبیر کے مطابق اس سے ”علم پر بہتر طور پر عمل“ مراد ہے۔دوسری آیت میں واضح طور پر رسول اللہ کو منکرین سے قرآن کے ذریعہ جہاد کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ: ”اصل مجاہدوہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور اصل مہاجر وہ ہے جو خطاوں اور گناہوں کو چھوڑ دے۔“( المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعة اللہ والمہاجرمن ہجر الخطایا والذنوب۔ مشکوٰة) اسی طرح ایک حدیث میں نفس کے جہاد کو ”جہادِ اکبر“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دعوت کی راہ میں صبر کرنا اور مصیبتوں کو برداشت کرنا بھی جہاد ہے جس کی طرف سورہ عنکبوت کی ابتدائی آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔
علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ: چوں کہ خارج میں خدا کے دشمنوں سے جہادکرنا جہاد بالنفس کی فرع ہے، جیسا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ: ”مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑدے جنھیں چھوڑنے کا اللہ نے اسے حکم دیا ہے؛ اس لےے نفس کے ساتھ جہاد خارج میں دشمن کے ساتھ جہاد سے مقدم ہے۔“ ( زاد المعاد بحوالہ:فی فقہ الاولویات: دراسة جدیدة فی ضوءالقرآن والسنة، ص:۱۸۴)۔
مسلّح جہاد یا قتال دائمی طور پر مطلوب نہیںہے۔ مختلف شرطوں کے ساتھ مشروط ہونے کی وجہ سے وہ ”امر موجل“ کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ جہاد کی دیگر تمام قسمیں ”امر معجل“ کی حیثیت رکھتی ہےں۔ وہ ہر وقت مطلوب ہیں۔ اس طرح جہاد بمعنیٰ قتال فرض کفایہ ہے، وہ امتِ اسلامیہ کے ہر فرد اور جماعت سے مطلوب نہیں لیکن جہاد کی دوسری اکثر قسمیں تمام لوگوں سے حسبِ صلاحیت مطلوب ہیں۔
دوسری اہم چیز جہاد کی شرائط ہیں۔ جس طرح وضو نماز کے لےے اور غنا و استطاعت زکوٰة و حج کے لےے شرط ہے اسی طرح مسلح جہاد کی مخصوص شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کے بغیر مقصد میں کامیابی مل بھی جائے، تب بھی وہ عمل اسلامی نہیں قرار پائے گا۔ اور اسے اللہ کی نصرت کا نہیں بلکہ بخت و اتفاق کا کرشمہ تصور کیا جائے گا۔ یہاں جہاد کی تمام شرطوں سے بحث نہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں، بلکہ صرف ان شرطوں پر توجہ مقصود ہے۔ جن کا نظر انداز کردینے کی وجہ سے بیسویں اور اکیسویں صدی میں جہاد کے نام پر برپا ہونے والی اکثر تحریکیں اپنے مقصد میں ناکام رہیں۔
ان شرطوں میں سے سب سے اہم ضروری اور بنیادی تیاری کی مطلوبہ شرط کو نظر انداز کردینا ہے جس کے لےے قرآن میں ”اعداد“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن اس بارے میں صریح طور پر حکم دیتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے جہاد کے لےے اتنی تیاری کرو کہ اس سے تمہارے دشمن خوف کھاسکیں(الانفال:۶۰) رسول اور اصحابِ رسول نے ”مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“پر نہ کبھی عمل کیا اور نہ اس کی ترغیب دی۔ مکہ میں جب کہ ابھی ضروری تیاری نہیں ہوسکی تھی۔ مسلمان کمزور اور قلیل تعداد میں تھے اللہ کا حکم تھا کہ: ”اپنا ہاتھ (جہاد و قتال سے) روکے رکھو اور نماز قائم کرو“(النسائ:۷۷) مصائب وآلام سے دوچار صحابہ کے اپنے دفاع کے لےے جہاد کا حکم طلب کرنے پر آپ کا یہ واضح جواب تھا کہ: ”ہم تعداد میں کم ہیں(نحن قلیلون ) کئی مواقع پرصحابہ کرام نے دشمنوں کی بری تعداد کے مقابلے میں پسپائی کو ترجیح دی اور رسول اللہ ان کے اس عمل کی مذمت کی بجائے ان کا حوصلہ بڑھایا کہ تم لوگ” فُرّار “( راہ فرار اختیار کرنے والے نہیں بلکہ ان شااللہ” کُراّر(پلٹ کر حملہ کرنے والے) ہو۔ اس دارالاسباب میں نبی اوراصحاب نبی کے لےے بھی کوئی شارٹ کٹ اور دین کی اشاعت و حمایت میں ضروری اسباب ووسائل کواختیار کرنے سے مفر نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ معاملہ عین اللہ کی سنت سے جڑا ہوا ہے اور اللہ کی سنت میں تبدیلی ممکن نہیں(فاطر:۴۳) ۔
دشمن سے جنگ کرنے کی طاقت کا معیار کیا ہے؟ سورہ انفال کی آیت ۶۰ میںاس پر اجمالاً اور اسی سورت کی آیت۶۵ اور ۶۶میں اس پرتفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس کے مطابق مسلم سپاہیوں کی تعداد کا تناسب پہلے دشمن سپاہیوں کی تعداد کے مقابلے میں ایک بمقابلہ دس (۱۰:۱) تھا پھر اس کا حکم منسوخ کرکے اس کی اگلی آیت میں اس کا تناسب ایک بمقابلہ دو (۲:۱) بیان کیا گیا۔ گویا ایک کامل درجے کے ایمان، نیت خالص اور روحانی تربیت سے آراستہ مومن کے لےے بھی ضروری ہے کہ دشمن کی طاقت کا معیار دگنے سے زیادہ نہ ہوصرف دگنا ہونے کی صورت میںیہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ جنگ کے وقت اپنے دشمن کو پیٹھ دکھائے لیکن اگر قوت کا تناسب یہ نہ ہو بلکہ دشمن کی طاقت دگنی کی بجائے تگنی یا اس سے زیادہ ہو تو اس صورت میں خدا اپنے بندے کو دشمن سے برسرِ پیکار ہونے کا مکلف ہی نہیں کرتا،کجا کہ کامیابی کی کوئی ضمانت دی جائے۔ ایسی صورت میں صبر کا حکم دیا گیا ہے اور خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کی مذکورہ دونوں آیتوں میں طاقت کے توازن کو اعداد کی صورت میں بیان کیاگیا ہے۔ کیوں کہ اس وقت کے زرعی معاشرے میں عددی قلت و کثرت ہی طاقت کا بنیادی معیار تھی۔ البتہ امام مالک رضی اللہ عنہ نے قوت کے معیار کو کمیت کی بجائے کیفیت کے تناظر میں دیکھا ہے۔ چناںچہ ان کے نزدیک اگرچہ ایک مسلم سپاہی کو دو دشمن سپاہی سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اگر مسلم سپاہی غیرمسلح اور دشمن سپاہی گھوڑے یا تلوار (یعنی اسلحہ) کے اعتبار سے بہتر جسمانی قوت میں برتر ہو تو مسلمان سپاہی ایک دشمن سپاہی کے مقابلے سے بھی فرار جائز ہوگا(بدایة المجتہد:ج ،۱ص،۳۱۳)آج جب کہ جنگوں میں فوجیوں کی قلت و کثرت کے کوئی معنیٰ نہیں رہ گئے ہیں۔ جنگ کا سارا انحصار جدید اور ترقی یافتہ اسلحوں فوجی سازوسامان اور تکنیکی مہارتوں پر ہے۔ مذکورہ آیت کو قوت کے اس کیفیتی معیار کی روشنی میں ہی دیکھا جاسکتا ہے اور حضرت امام مالک کے نقطہ نظر کو ہی قابل عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔
ایسی ضروری تیاری کے بغیرجہادکی کوشش کہ فتح کی بجائے شکست یقینی ہو،صریح طور پرقرآن کے اس کے تحت آتا ہے کہ :اے ایمان لانے والو!اپنے آپ کو ہلاکت میںنہ ڈالو(البقرہ:۱۹۵) ۔
جہاد کے تصور میں کئی اور طرح کا خلط مبحث اور کنفیوژن پایا جاتاہے۔ان میں سے ایک کنفیوژن تو یہ ہے کہ داخلی اصلاح کی کوششوں کوبھی جہاد کانام دے دیا گیا۔بخاری کتاب الفتن میں اس طرح کے موقف پرعبداللہ ابن عمر کی شدید نکیرموجود ہے۔ پھر اس تعلق سے بھی تغییر منکر کے تصور میںشدید انتشار پیا جاتاہے ۔تغییر منکر(ازالہءبدی) کا تصور اس حدیث سے ماخوذ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ:” تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے تو اسے چاہےے کہ وہ اسے ہاتھ سے بدل دے یا اگر اس کی استطاعت نہ ہو توزبان سے اوراس کی بھی استطاعت نہ ہو تودل سے“ اس حدیث کے تعلق سے اہم سوال ہے کہ اس کے مخاطب کون ہیں۔علما کی اہم جماعت جس میںامام غزالی جیسے لوگ شامل ہیں اس حدیث کا مخاطب عوام کی بجائے اصحاب اقتدار کو سمجھتے ہیں۔دوسری اہم بات اس حدیث کے تعلق سے وہ ہے جس کی طرف حضر ت علامہ ابن قیم نے توجہ دلائی ہے ۔وہ اپنی مشہور کتاب ”اعلام الموقعین عن توقیع رب العالمین“میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے تغییر منکر کے چاردرجات یا چار قسمیں قرار دی ہیں:۱۔ایک یہ کہ وہ بڑائی زائل ہوکر اس کے مقابلے میں بھلائی پیدا ہوجائے ۲:دوسرے یہ کہ وہ بڑائی کم ہوجائے اگرچہ پوری طرح ختم نہ ہو۴:تیسرے یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی ویسی ہی بڑائی پیدا ہوجائے۔۴:چوتھے یہ کہ اس سے کوئی بڑ ی برائی اس کی جگہ پیدا ہوجائے ۔علامہ ابن قیم کے مطابق پہلی دو قسمیںجائز ہیں ۔تیسرے کافیصلہ اجتہاد کی بنیاد پر ہوگا(کہ موجودہ صورت میں کون سا اقدام زیادہ قرین مصلحت ہے)البتہ چوتھی قسم سو فیصد حرام ہے(ج:۳ص:۱۲)اگرغور کیا جائے تواس وقت میں مسلم ملکوں میںہماری نام نہاد جہادی تحریکات نے جہاد کے نام پرجوفساد پھیلا رکھا ہے وہ اسی چوتھی قسم میں آتی ہیں۔
موجودہ دور میںجہاد کے تصور میں ایک بڑا عملی انحراف یہ آیا کہ قومیت اورملک کے دفاع کی بنیاد پرلڑی جانے والی جنگوں کوجہاد کا نام دے دیا گیا۔ جہاد کا مقصد حدیث میں اعلاے کلمةاللہ کو قرار(بخاری کتاب الجہاد والسیر)سیاسی مناصب ،شہرت اور انتقامی رد عمل کی نفسیات کے تحت کی جانے والی جنگوں کا جہاد کے حقیقی تصور اور مقاصد سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اسی طرح جہادکی ایک اہم شرط امام یاحکم راں کی اجازت وقیادت ہے۔ اصولی طور پر یہ بات متفق علیہ ہے کہ جہاد کا فیصلہ اور اقدام افراد کی اپنی مرضی کے تابع نہیں۔ یہ سمجھنا کہ چوں کہ موجودہ دور کی ساری مسلم حکومتیں بدعنوان اور اللہ کی باغی ہیں۔ ان ملکوں کے قوانین اور ان کا حکومتی ڈھانچہ اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں اس لےے اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے مقصد سے کی جانے والی جہادی کوششوں میں حکمراں کی اجازت و قیادت کے کوئی معنیٰ نہیں رہ جاتے، فکر و نظرکا انحراف ہے ۔کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث اس باب میں صریح ہیں کہ تم پر کوئی چپٹے سر والا حبشی ہی کیوں نہ حاکم ہو، تمہارے لےے اس پر خروج کرنا جائز نہیں گویا اس صورتِ حال میں وہی قائم مقام ولی امر اور حکمراں ہے۔ صحابہ و تابعین کی اکثریت کا عمل اسی پر تھا۔ اس لےے انھوں نے اسلامی اصولِ حکمرانی سے روگردانی کرنے والے اور ظلم و جبر کی روش اختیار کرنے والے حکمرانوں کے خلاف خروج نہیںکیا، کیوں کہ اس صورت میں سخت بدامنی اور انتشار کا اندیشہ تھا اور آج کے نفس پرست اور ظالم حکمرانوں کے تعلق سے بھی پہلے کے مقابلے میں سینکڑوں گنا زیادہ بدامنی اور فساد کا اندیشہ ہے۔ اس سے امت کی قوت اورپارہ پارہ ہوگی۔ اس کی دیواروں میں اور دڑاڑیں پڑیں گی اور دشمنوں کو مسلمانوں کے وجود کو کمزور اور تباہ کرنے کے لےے مزید دراندازی کا موقع ملے گا۔
ان چند چیزوں کے علاوہ جہاد کے تصور میں افراط وتفریط کی ایک اہم بنیاد جہاداقدامی کا تصور ہے جس کے تحت کفر کے خاتمے یااس کی شوکت کو توڑنے کے لےے ایک غیر مسلم حکومت پراسکے مصالح اور غیر معاند ہونے اوراس کی طرف سے اہل اسلام کو شعائر اسلام کی بجا آو ری اور دعوت وتبلیغ کی اجازت کے با وجودقیامت کے لےے حملے کا جواز فراہم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کے اسلام میںباضابطہ صرف ایک ہی جہاد کی اجازت ہے اور وہ دفاعی جہاد ہے ۔جہاد اقدامی کا تصور پوری غیر مسلم دنیا کی نظر میں مسلمانوں کوایک بڑے چیلنج اورخطرے کی علامت بنا دیتا ہے(میں نے اس موضوع پر ایک الگ مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے)۔
بہر حال اسلامی نظریہ جہاد کے تعلق سے ان امور ونکات کو سامنے رکھ کر دیکھاجاسکتاہے کہ جہاد کے نام پر اس وقت جو سرگرمیاں مختلف اسلامی وغیر اسلامی ملکوں میںبعض مسلم جماعتوں کی طرف سے چلائی جارہی ہیں، وہ کس حد تک عقل و شریعت کے تقاضے کے مطابق ہیں اور ان میں خدا کی طرف سے کامیابی کی کس حد تک ضمانت ہے؟٭٭

Iqdami jihad ka nazriya: Chand qabil-e- ghaur nikat

اقدامی جہاد کانظریہ:چند قابل غور نکات
اسلام کے نظریہ جہاد میں پائے جانے والے اختلال و انتشار کا ایک بڑا مظہر اقدامی جہاد کا تصور ہے۔فقہا ومحدثین کی اصطلاح میں اسے جہاد الطلب کہا جاتا ہے۔عربی میں آج کل اس کے لےے الجہاد الھجومی یا جہاد المہاجمہ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔دفاعی جہاد کے مقابلے میں،جو دشمن کی جارحیت اور سرکشی کے دفاع کے لےے کیا جاتا ہے،جہاداقدامی کا تصور یہ ہے کہ اسلام کے اظہار وغلبے اور کفر کی شوکت کو توڑنے کے لےے اقدامی جہاد نہ صرف جائز بلکہ امت پر فرض کفایہ ہے ۔اس سے مستثنی وہ حکومتیں ہیں جن کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو لیکن فقہا کا غالب نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ معاہدہ وقتی اور ایسی صورت میں کیا جائے گا جبکہ مسلم حکومت کے اندرمنکرین کے ساتھ قتال کی قوت نہ ہو۔اس نظریے کے تحت غیر مسلم حکومتوں کو تین میںسے کوئی ایک اختیار حاصل ہے:(۱) وہ اسلام قبول کرلیں (۲) اسلام کی ماتحتی میںجزیہ دینا منظور کرلیں (۳) یاپھر قتال کے لےے تیار ہوجائیں۔اس کی دلیل میں قرآن کی جو آیات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے چند آیتیں یہ ہیں:”اہل کتاب میںسے جولوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روزآخرت پر،نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیںجو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھیرائی ہیںاور نہ دین حق کو اختیار کر تے ہیں،ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے لگیں اس حال میںکہ وہ زیر دست ہو کر رہیں(التوبہ:۲۹)۔”ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ مٹ نہ جائے اوراللہ کادین غالب نہ آجائے“(البقرہ:۱۹۳)”اے ایمان والو!ان منکرین حق سے جنگ کر و جو تم سے قریب ہیںاور چاہےے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں(التوبہ:۱۲۳) وغیرہ۔
ان میں سے پہلی آیت جسے آیت السیف کہا جاتا ہے اس کے بارے میں ایک جماعت یہ راے رکھتی ہے کہ اس آیت نے تقریبا ان تمام آیتوں کو منسوخ کر دیا ہے جن میں غیر مسلموں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے ،ان سے اعراض کرنے اوران کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اس طرح اس نظرےے کے تحت قرآن کی تقریبا ۱۴۰ آیتیں منسوخ قرار پاتی ہیں۔ فقہا ومحدثین، اسلامی سیاست کوموضوع بنانے والے مفکرین کی اکثریت جہاددالطلب یا جہاد اقدامی کی قائل رہی ہے اور اب بھی معمولی استثنا کے ساتھ علما اور اہل فقہ کی اکثریت نہ صرف اس کی قائل ہے بل کہ وہ اسے تقریبا ایک اجماعی امر تصور کرتی ہے۔ بر صغیر ہند میںاس نظرےے کو زیادہ شدت اور مبالغے کے ساتھ مولانا مودودی نے پیش کیا۔عرب علما میں سلفی علما اس تعلق سے سب سے زیادہ پرجوش ہیں۔انٹرنیٹ پر ہزاروں صفحات میں اس کی حمایت میں تحریریں اور کتابیںموجود ہیں۔اس میںشک نہیںکہ موجودہ دور کی انقلابی اور جہادی جماعتوں کواس تصور سے بھرپور شہ حاصل ہوئی ہے۔
ا لبتہ شروع سے ایک جماعت اس کی بھی قائل رہی ہے کہ اسلام میں جنگ کی حیثیت عموم کی نہیں صرف استثنا کی ہے اور وہ صرف دفاع کے لےے مشروع کی گئی ہے۔سلف صالحین میں اس ضمن میں سب سے اہم نام حضرت اما م سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ان کے علاوہ، ابن شبرمہ،عطا ،عمر ابن دینار اورایک روایت کے مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی اس کے قائل رہے ہیں۔ متاخرین میں مفتی محمد عبدہ ، ان کے شاگرد علامہ درشید رضا،عبدالرحمان عزام ،علامہ مصطفی سباعی ،احمد امین ،محمو د عقاد،شیخ محمد الغزالی اور ہندوستانی علما میں علامہ شبلی نعمانی ان کے علاوہ چراغ علی اس کے قائلین میں تھے۔موجودہ دور میں مشہور شامی فقیہ علامہ وہبہ زحیلی،شیخ یوسف قرضاوی وغیرہ شدت کے ساتھ اس نظرےے کی حمایت کرتے ہیں۔شیخ یوسف قرضا وی کی جہاد کے موضوع پر تازہ کتاب” فقہ الجہاد “میں اس کو ہر اعتبار سے مدلل بناکر پیش کیا گیا ہے۔اس وقت عرب ممالک کے علمی حلقوں میں یہ کتاب خصوصی بحث مباحثے کا موضوع ہے۔
اس نظرےے کے قائلین کے مطابق، منکرین سے قتال کی علت کفر نہیںبلکہ ان کی طرف سے جارحانہ اقدام( محاربہ) ہے ۔وہ اس کی دلیل کے طور پر ان آیات کہ پیش کرتے ہیں جن میں ظلم و جارحیت کے جواب میںقتال کی اجازت دی دی گئی ہے۔جیسے: ”اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو جنھوں نے تمہارے ساتھ جنگ کی اورزیادتی نہ کرو اس لےے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(البقرہ:۱۹۰)“”مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں “(توبہ:۳۶)اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیو ں کہ وہ مظلوم ہیں(الحج:۳۹) وغیرہ۔
بحث کا اہم اور مرکزی نقطہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی بنیاد کیاہے؟اور یہ کہ اسلام میںجہاد (بمعنی قتال)کی حیثیت کیا ہے؟فقہا ومفسرین کی اکثریت غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کی اصل بنیاد جنگ کو قرار دیتی ہے اور اس وقت تک غیر مسلموں کے ساتھ قتال کی ضرورت پر زور دیتی ہے جب تک کہ تمام دوسرے ادیان پر اسلام کاغلبہ مستحکم نہ ہوجائے اور چوں کہ ایسا صرف قرب قیامت میں ہوگا اس لےے یہ قتال قیامت تک جاری رہے گا۔( معارف القرآن:مفتی محمد شفیع ج:۴ص:۲۳۳)اس طرح قتال کی علت اس جماعت کے نزدیک اصلا کفر و شرک ہے۔ امام شافعی اور بعض دوسرے فقہا کا نظریہ اس تعلق سے مزید انقلابی نوعیت کا ہے۔وہ جزیے کی بنیاد پر جاں بخشی کی ضمانت بھی صرف اہل کتاب کو دیتے ہیں۔دوسروں کے لےے ان کی نظر میں صرف دو انتخاب ہے: اسلام یا قتل(اما الاسلام و اما القتل)۔
جہاد اقدامی پر دو حیثیتوں سے سنجیدہ بحث و مباحثے اور غور و فکر کی ضرورت ہے: ایک اس حیثیت سے کہ دین کی اصولی تعلیمات اور اس کے نظام رحمت وعدل کے مزاج سے یہ نظریہ کس حد تک مطابقت رکھتا ہے؟دوسرے اس حیثیت سے کہ موجودہ دور میں جب کہ تمام ملکوں کی سرحدیں طے ہوچکی ہیں،دنیا کے تمام ملکوں کے قوانین میں جنگ کو ایک شر محض تصور کیا جاتا ہے،قوموں کی آزادی و خود مختاری ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے ۔کیا اس نظرےے کی گنجائش (اگر وہ پہلے تھی توکیا اب بھی)باقی رہ جاتی ہے(کیوں کہ اصول فقہ کے اعتبار سے زمانے کی تبدیلی سے فتوی تبدیل ہوسکتاہے) اور کیا اس کا انطباق ممکن بھی ہے اور ممکن ہونے کی صورت میں اس سے اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی عزت و سر فرازی کی امید کی جاسکتی ہے یا اس کے برعکس نتیجے کی؟
اسلام میں اصول کے طور پریہ باتیں کہی گئی ہیں کہ :” دین میں کوئی جبر واکراہ نہیںہے“(لا اکراہ فی الدین۔ البقرہ:۲۵۶)” مسلمانوں کا دین مسلمانوں کے لےے ہے اورمنکروں کا دین منکروں کے لےے“(الکافرون :۶)”جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لےے ہدایت حاصل کرتا ہے اور جوگمراہی کی راہ اختیار کرتا ہے اس کا وبا ل اس کے اپنے سر ہے“(یونس:۱۰۸)”رسول کو اس کی اجازت نہیںکہ و ہ اس پر جبر کرے اس کی حیثیت محض نصیحت اور فہمائش کر نے والے کی ہے“(الغاشیہ :۲۱،۲۲)”اور یہ کہ یہ اللہ کے علم میںہے کہ وہ ان پر رحم کرے گا یاانھیں عذاب دے گا“(الاسرا:۵۴) ۔
نظرےے یا عقیدے کی بنیاد پرکسی قوم کے خلاف جنگ چھیڑنااور اس پر اپنی حکم رانی کو مسلط کرناعقل عام کے مطابق اکراہ اور جبر کی ہی ایک شکل ہے۔قرآن میںدوسری قوموں کے ساتھ عدل و انصاف کی تاکید کی گئی ہے اس صورت میںاسلام کے عدل وانصاف کے دعوے کوکون قبول کرے گا؟رواداری تو یہ کہ جس طرح اور جن صورتوں کے ساتھ دوسرے ہمیںبرداشت کررہے ہیں اسی طرح ہم بھی انہیں برداشت کریں ،جو آزادی وہ ہمیں دینے کے لےے تیا ر ہیںہم بھی انھیں دینے پررضا مند ہوں ۔رسول اللہ کے رحمت للعالمین ہونے کا مطلب دوسری قوموں کے ساتھ امن اور اخوت کی بنیاد پرخوش گوار تعلقات کا قیام ہے نہ کہ جنگ وجدال کی بنیاد پر ان کے دلوں میں اسلام کے تئیںبغض ونفرت کی پرورش کرنا۔
قرآن کے مطابق جہاد بمعنی قتال کی دو صورتیںہیں: ایک دفاع کے لےے اوردوسرے فتنے کے خاتمے کے لےے۔قرآن کی آیت میں فتنے سے مراد وہ صورت حال ہے جو بندگان خدا کے قبول حق کی راہ میں مانع بنتی اوردین کی تبلیغ واشاعت میںمزاحم ہوتی ہے ۔دور نبوی اور خلافت راشدہ میں جو بھی جنگیں ہوئیں وہ یا تودفاع کے لےے تھیں یاپھر اسی فتنے کے خاتمے کے لےے۔جس کے لےے قتال کرنا رسول اللہ پر فرض تھا اور عام امتی کے لےے فرص کفایہ۔رسول اللہ کے لےے بھی یہ فرضیت عرب یا قریش مکہ کے لےے تھی جیساکہ امام اوزاعی وغیرہ کی راےے ہے۔امام شافعی اور چنددیگر فقہا کے علاوہ اکثر فقہا بہر حال اس سے متفق ہیںکہ جن آیات واحادیث میں دوسروں سے ان کے اسلام قبول کرلینے کے وقت تک قتال کی بات کہی گئی ہے۔اس سے مراد صرف مشرکین عرب ہیں۔جہاد کے تصور میں انتشار کے دیگر اہم پہلووں میںسے ایک پہلویہی ہے کہ بعض وہ احکام جو صرف قریش مکہ یا مشرکین عرب کے لےے خاص تھے انھیںعمومی حیثیت دے دی گئی۔یہ اہم سوال ہے کہ فتنے کے خاتمے کے لےے جو جنگ مشروع کی گئی تھی کیا اس کا اطلاق اب بھی باقی ہے؟کیوں کہ فتنے سے واضح طور پر اس وقت عرب اور ساری دنیامیںپائی جانے والی وہ غالب صورت حا ل مراد ہے جس میںعوام کو مذہب کی آزادی حاصل نہیں تھی۔حکم رانوں کو اپنی قوم پر اس درجے کی مطلق العنانی حاصل تھی کہ وہ حکم رانوں کی مرضی سے الگ ہٹ کردوسر کوئی ا مذہب یا عقیدہ اختیار نہیں کر سکتے تھے۔لیکن اب دنیا کی سیاسی صورت حال یکسر بدل چکی ہے ۔دنیا کی تمام اقوام کے لےے دینی ومذہبی آزادی ایک مسلمہ واقعہ بن چکی ہے ۔ہر قوم کو اپنے مذہبی نظریات پت کھل کر عمل کرنے اور اس کی دعوت و اشاعت کی اجازت حاصل ہے ۔
اس لےے اب موجودہ صورت حال میںاسلامی نظریے اور اصول کے مطابق صرف ایک جہاد کی گنجائش سمجھ میں آتی ہے اور وہ دفاعی جہاد ہے ،تاوقتیکہ کہ فتنے کی ویسی ہی صورت حال دوبارہ قائم ہوجائے کہ جس میں مذہبی آزادی کی کوئی ضمانت نہ ہو۔جہاد اقدامی اور جہاد دفاعی میں تطبیق کی بہتر صورت یہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا بھی کسی طرح غلط نہیں کہ اسلام میں صرف دفاع کے لےے جہاد کی اجازت دی گئی ہے ۔کیوں کہ فتنے کے لےے جہاد کی صورت ایک استثنائی صورت ہے ۔خدا کے علم یہ بات بلاشبہ تھی کہ یہ صورت حال اسلام کے بعد باقی نہیں ہے گی کہ اسلام بنیادی طور پراسی فتنے کے خاتمے کے لےے آیا تھا۔قرآن و حدیث میں اظہار دین اور اعلا ے کلمة اللہ سے اسلام کا نظریاتی غلبہ مراد ہے نہ کہ سیاسی ۔ورنہ دوسری صورت میں یہ تکلیف مالا یطاق کی صورت ہے جس کا اسلام حکم نہیں دے سکتا۔
بہر حال اسلامی جہاد کا روایتی تصور اصحاب فکر ونظر کی توجہ کا متقاضی ہے۔اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔کیوں کہ دوسری صورت میں ہم دوسروں کویہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اسلام پر یہ الزام لگائیں کہ وہ دنیا میںتلوار کے زور پر پھیلا اور یہ کہ اسلام کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے جیسا کہ گاندھی جی نے کہا تھا۔جہاد اقدامی کے قائلین اس کو حفاظت خود اختیاری کی پیشگی شکل قرار دیتے ہیںیعنی کفر کے زور ودبدبہ کو پیشگی طور پر توڑدینا اس لےے ضروری ہے کہ وہ مستقبل میں اسلام اور اسلامی حکومت کے لےے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے۔علامہ یوسف قرضاوی کے مطابق یہ تو عین وہی نظریہ ہے جو آج کی ا مپریل طاقتیں ،خصوصا امریکہ کمزور ملکوں پر حملوںکے جوازمیں پیش کرتا ہے۔پھرہم کس طرح ان ظالم طاقتوں کے ظلم وجارحیت پر انصاف کی دہائی دے سکتے ہےں۔یہ تو اپنی تلوار کواپنے دشمنوں کے ہاتھوں میںدینا ہے کہ وہ شوق سے اس سے ہم پر وار کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ کسی بھی طرح نہ تواسلام کے رحمت وعدل کے تصور سے ہم آہنگ ہے اور نہ عقل اور فطرت کے تقاضوں سے۔

Fidai hamle ki sharayee haisiat

فدائی حملے کی شرعی حیثیت
موجودہ دور میں فدائی حملے کا مظہر(phenomenon) تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے، جس سے بعض ملکوں کی داخلی سلامتی، پُرامن شہریوں کی جان و املاک کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اس وقت پاکستان ان ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں اس طرح کے حملے روز مرہ کا معمول بن کر رہ گئے ہیں اور ان کی زد سے خانہ خدا، یعنی مساجد تک محفوظ نہیں رہ گئی ہیں۔اسلام کے نام پر اسلام کو ڈھانے اور بدنام کرنے کا اس سے زیادہ بدترین عمل اور کیا ہوگا؟ اس صورتِ حال کے پیش نظر بعض لوگوں کی یہ رائے غلط نہیں لگتی کہ اسلام کے نام نہاد مجاہدین سے خود اسلام کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یہ اسلام اور ملتِ مسلمہ کا دفاع نہیں بلکہ انہیں تباہ و برباد کررہے ہیں۔
یہ سوال پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں کہ ان حملوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وہ جائز ہیں یا ناجائز؟ جائز ہونے کی صورت میں اس کے صحیح اطلاق کی صورت بھی زیرِ بحث رہی ہے۔ تاہم جس سنجیدگی اور فکری دور رسی کے ساتھ اسلامی شریعت اور اخلاق کے تناظر میں اس پر غوروخوض کی ضرورت تھی، وہ نہیں کی گئی۔ چناںچہ اس پر ہونے والی اکثر بحثوں میں اس کے جواز کا پہلو حاوی رہا۔ علما کی بڑی تعداد قدیم فقہی حوالوں اور مقالوں کی روشنی میں اس کے جواز کے نقطہ نظر کو مدلل کرتی رہی۔ ان علما کے سامنے اصلاً فلسطین کی صورتحا ل تھی، جہاں ان کے خیال میں اسرائیلی سفاکی اور جارحیت کا سامنا کرنے والے نوجوان فلسطینی مزاحمت پسندوں کے پاس استعمال کے لےے یہی ایک موثر ہتھیار باقی رہ گیا تھا۔ اس اعتبار سے اسے غریبوں اور لاچاروں کا ”ایٹم بم“ کہا گیا۔ لیکن اب جبکہ اس کا استعمال غیروں اور دشمنوں کے بالمقابل اپنوں کے خلاف زیادہ ہونے لگا ہے۔ اس کی حمایت کرنے والوں کے لےے ایک بڑا لمحہ¿ فکریہ سامنے آگیا ہے۔ فدائی حملوں کے جوازوعدمِ جواز کی بحث فلسطین کے مخصوص تناظر میں شروع ہوئی تھی اور اسی تعلق سے عرب کے معروف علما کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس کے جواز کے حق میں فتویٰ دیا تھا، جن میں خصوصیت کے ساتھ یوسف قرضاوی، شیخ محمد سید طنطاوی (موجودہ شیخ ازہر) وغیرہ کے نام شامل ہیں، بعد میں عراق و افغانستان پر امریکی جارحیت کا واقعہ سامنے آیا۔ تو یہاں بھی اس کے مقابلے کے لےے اس ہتھیار کو استعمال کیا جانے لگا۔ علما کی بڑی اکثریت کی اس کو تائید حاصل رہی۔ کیوں کہ یہاں بھی یک طرفہ طور پر جنگ مسلط کی گئی تھی اور معصوم لوگوں کی جان واملاک اور عزت و آبرو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہاں کے مظلوم عوام کے پاس دشمن طاقتوں اور اس کی فوجوں پر اثر قائم کرنے اور انھیں زد پہنچانے کے لےے ان کے مطابق کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ممالک پر امریکی جارحیت سے قبل یہ خود کش حملے کاظاہرہ مسلم ممالک میں صرف فلسطین تک محدود تھا۔ لیکن امریکہ کی فرعونیت پسند انتظامیہ اور درندہ صفت فوجوں نے ان ممالک کی عسکریت پسند جماعتوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اسے فلسطین یا سری لنکا کی ایل ٹی ٹی ای سے درآمد کریں۔ اس اعتبار سے اس میں شک نہیں کہ اس ظاہر ے کے ابھرنے اور پھیلنے میں بنیادی رول انھی طاقتوں نے ادا کیا ہے، جو آج ان واقعات پر انسانیت اور مذہب و اخلاق کی دہائی دے رہی ہیں جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مایوسی و دل شکستگی اور انتقام کی نفسیات کی کی آخری حد کو پہنچ جانے کے بعد انسان نہ تومذہبی اصولوں کا پابند رہ پاتا ہے، اور نہ اخلاقی قیود کا، اس وقت اس کے سامنے صرف ایک مقصد رہتا ہے: مایوسی سے نجات ، لیکن بہرحال مذہبی اصول اور اخلاقی قدریں اپنی جگہ ہیں۔ مایوسی کی کیفیت اور مظلومیت کے ردِعمل کی شدت ان کی پامالی کے لےے جواز نہیں بن سکتی۔
اس لےے بہرحال یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ان حملوں کا دینی و اخلاقی جواز کیا ہے؟ کیوں کہ یہ حملے کم از کم مسلمانوں کی طرف سے زیادہ تر دینی جذبے کے ساتھ انجام دےے جاتے ہیں اور اسی لےے ان حملوں کو براہِ راست طور پر اسلامی تعلیمات سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے، پاکستان، مصر، سعودی عرب، صومالیہ اور دوسرے ملکوں میں پہلے یا اس وقت جوحملے کےے گئے یا کےے جارہے ہیں، وہ کسی بھی قابلِ ذکر عالم کے نزدیک نہ کل جائز تھے اور نہ آج جائز ہےں اس لےے یہ صورتحال سرے سے زیرِ بحث نہیں ہے۔ زیرِ بحث صورتحال مسلم ملکوں پر قابض وغاصب قوتوں کے خلاف اس طرح کے حملوں کی ہے۔
جو اہل علم و فکر اسلام دشمن اور مسلم کش طاقتوں کے ظلم کے ردِ عمل میں اس کے جواز کے قائل ہیں وہ مظلوم قوم کو ظالم قوم کے ساتھ برسرِ جنگ (جہاد) تصور کرتے ہیں اور اس کارروائی کو دفاعی جہاد کا مو¿ثر حربہ سمجھتے ہیں۔ اس کے لےے وہ خاص طور پر دو دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ یہ دو دلیلیں دو اصولی شکلوں پر مشتمل ہیں۔ ایک شکل وہ ہے جس کے لےے ’الانغماس فی العدو‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے: ”دشمن کی صفوں میں گھس کر حملہ کرنا“ دشمن کو شدید نقصان پہنچانے، جنگ کی پیچیدہ اور خطرناک صورتِ حال میں انقلابی مثبت تبدیلی لانے یا اسلام کی کسی بڑی مصحلت یا فائدے کے لےے موت کے غالب گمان کے باوجود ایک مسلم فوجی کے لےے کثیر دشمن فوج کی صفوں میں گھس کر حملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ موت کے غالب گمان بلکہ یقین کے ساتھ اس طرح کا حملہ خود کو ہلاک کرنے کے ضمن میں تو نہیں آتا جس کی وعید قرآن میں وارد ہوئی ہے؟ فقہا اس صورت کوجائز قرار دیتے ہیں اور اس کی نظیر میں عہدِ نبوی اور عہد صحابہ میں پائی جاتی ہیں۔
جنگ احد میں رسول اللہ کے اس طرح دفاع میں سات صحابہ نے اپنی جان دے دی اور شہید ہوگئے۔ جنگ یمامہ میں بھی بعض صحابہ نے اس طرح اسلام کے دفاع اور سربلندی کے لےے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ صحابہ کے دور میں بھی اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ رضی اللہ عنہ نے خاص اس موضوع پر ایک رسالہ ”قاعدة فی الانغماس فی العدو“ (دشمن کی صفوں میں گھس کر حملہ کرنے کا اصول) کے نام سے لکھا ہے۔ جس میں عہدِ نبوی میں پیش آنے والے اس طرح کے فداکارانہ حملوں کے نظائر جمع کےے ہیں۔
دوسری شکل وہ ہے جس کے لےے ”تترس“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اگر کچھ دشمن فوجی ایک یا چند مسلمانوں کو اس طرح ڈھال بنالیں اس دشمن فوج کے افراد کو نشانہ لگانے کی صورت میں مسلم فوج کے افراد کی جان خطرے میں پڑتی ہے تو ایسی صورت میں فقہا نے مختلف شرطوں کے ساتھ کسی بہت بڑے فائدے اور مصلحت کے لےے مسلم جان یا جانوں کی قیمت پر دشمن فوج کے افراد کو ہدف بنانے کی اجازت دی ہے۔ اور معصوم مسلم جانوں کے ضیاع کو ایک ناگزیر مجبوری کی صورت پر محمول کیا ہے۔
دوسری جماعت اس عمل کو ناجائز اور حرام قرار دینے والوں کی ہے۔ اس میں سرفہرست سعودی عرب کے اہم دینی قیادت کی ذمہ داری نبھانے والے علما شامل ہیں جیسے: شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ ناصر الدین البانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین، سعودی عرب کے موجودہ مفتی اعظم شیخ عبد عبدالعزیز آل شیخ اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ۔ اہم بات یہ ہے کہ خاص فلسطین کے پس منظر میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ان حضرات نے اس نوعیت کے حملوں کو اسلامی اعتبار سے خود کشی اور ایک ناجائز عمل قرار دیا، اس لےے دوسرے ممالک میں اس طرح کے ہونے والے حملوں کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ ان کا نقطہ نظر حرام کا بلکہ اس سے بڑھ کر ہوگا۔
اپنے موقف کے ثبوت میں وہ مختلف دلیلیں پیش کرتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ”اپنے آپ کو ہلاک مت کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے۔“ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ”اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ: ”جو شخص خود کو کسی چیز سے ہلاک کرے گا، قیامت کے دن اس کو اسی چیز سے عذاب دیاجائے گا۔“ ( بخاری) اسی طرح اس مضامین کی دوسری متعدد احادیث ان کی دلیل ہیں جن میں خود کشی کی شدید وعید کے ساتھ ایسا کرنے والوں کو جہنم کے انجام کی خبر دی گئی ہے۔
ان حضرات کے دےے گئے فتاویٰ کی زبان صاف ہے، اس میں تحفظ پسندی یا تذبذب کی کیفیت نہیں پائی جاتی۔ شیخ ابن باز فرماتے ہیں: ”میں کئی مرتبہ یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ یہ عمل صحیح نہیں ہے، اس لےے کہ ایسا کرنے والا خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے.... بہرحال ابنائے فلسطین کا طریقہ غلط ہے صحیح نہیں ہے۔ ا ن پر واجب ہے کہ وہ اس عمل کے بجائے تعلیم و دعوت اور دینی رہنمائی اور نصیحت کا کام کریں۔“ عبدالعزیز آل شیخ کا جملہ ہے: ”مجھے اس عمل کے جواز کا شرعی پہلو معلوم نہیں۔ نہ ہی میں اسے جہاد فی سبیل اللہ کی قبیل سے سمجھتا ہوں۔ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ خود کشی کا عمل ہو۔ دشمن کو ضرب لگانا اور اس کے ساتھ قتال کرنا مطلوب ہے، بلکہ بسا اوقات ضروری ہے لیکن ایسے طریقوں سے جو مخالف شرع نہ ہو۔“ شیخ عثیمین سے اس تعلق سے دو فتاویٰ منقول ہیں۔ ایک فتوے میں وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ: ”جو شخص دھماکہ خیز اشیا کو جسم پر باندھ کر دشمن کی کسی آبادی میں خود کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے، وہ خود کشی کرنے والا ہے۔ ایسے شخص کو قیامت کے دن اسی طریقے سے جہنم میں عذاب دیا جائے گا جو طریقہ اس نے خود کشی کے لےے اختیار کیا تھا۔ ان لوگوں پر حیرت ہے جو یہ طریقہ اختیا رکرتے ہیں، حالاںکہ ان کے سامنے قرآن کی یہ آیت ہے کہ خود کو ہلاک نہ کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے۔“ شیخ الفوزان کا قول ہے کہ: ”انسان کے لےے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح خود کو ہلاک کرے بلکہ وہ خواہ جہاد یا قتال ہی کیوں نہ کررہا ہو اسے اپنی جان کی آخری حد تک حفاظت کرنی چاہےے۔“ شیخ البانی کہتے ہیں کہ ’:’اندیشہ ہے کہ ایسا کرنے والے کو ہمیشہ ہمیش کے لےے جہنم کی سزا دی جائے“۔
یہاں فدائی حملے کو جائز اور ناجائز قرار دینے والوں کے دلائل کا محاکمہ مقصود نہیں ہے۔ البتہ فریقین کے موقف کو شریعت کے اصول، مزاج و روح اور موجودہ حالات کی روشنی میں دیکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہےے کہ ان میں سے کون سا موقف روح شریعت سے ہم آہنگ اور امت مسلمہ کی مصلحت سے قریب ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قتلِ نفس کی تحریم کی جو آیات و احادیث ہیں وہ اپنے آپ میں صریح، محکم اور قطعی ہیں اور ان میں دیا گیا شرعی حکم دلالت النص سے سمجھ میں آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے موقف کے حق میں جو دلیلیں دی جاتی ہیں ان کی دلالت قطعی نہیں ہے۔ یہ متشابہ دلائل ہیں اور اصولاً متشابہ دلائل کی محکم دلائل کی روشنی میں تفسیر و توضیح کی جاتی ہے۔ محکم دلیلیں متشابہ دلیلوں کے لےے حَکَم (Judge) کا درجہ رکھتی ہیں۔ محکم متشابہ دلیلوں کو رد یا منسوخ کرسکتی ہے، لیکن اس کے برعکس ممکن نہیں ہے۔
جہاں تک کثیر دشمن کی صفوںمیں جان کو ہلاکت میں ڈالتے ہوئے گھس کر حملہ کرنے اور معصوم انسانی جانوں کو دشمن کی طرف سے ڈھال بنائے جانے کی صورت میں ان جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دشمن پرحملے کے جواز کا مسئلہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہا کے جواز کا موقف ان دونوں صورتوں کے تعلق سے صحیح ہے لیکن موجودہ فدائی حملوں کو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ دشمن کی فوجوں میں جان کی پروا نہ کرتے ہوئے گھس پڑتے ہیں وہ خود اپنے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوتے، جو خود کشی کی صورت ہے بل کہ وہ بہرحال دشمنوں کے ہی ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ اس صورت پر محمول ہے جبکہ اس کے علاوہ کوئی اور دوسری صورت باقی نہ رہی گئی ہو۔ اس کا فائدہ ظاہر اور یقینی ہو اور یہ امام کی مرضی اور منشا کے تحت میدان جنگ میںدشمنوں کے بالمقابل انجام دیا جائے۔ اس کے اطلاق کے لےے خالص جہاد فی سبیل اللہ کی شرط ہے جو دین کے دفاع اور سربلندی کے لےے لڑی جارہی ہو۔ آج کی دو قوموں یا گروپوں کے درمیان برپا جنگیں قومی جنگیں ہیں، لیکن یہ جہاد نہیں ہیں۔ مسلم فوج یا نوجوان بنیادی طور پر وطن کی آزادی اور اپنے انسانی حقوق کی پامالی کے لےے جنگیں لڑرہے ہیں نہ کہ خالص دین کے دفاع اور اس کی سربلندی کے لےے۔ بلاشبہ یہ جنگیں صحیح ہیں۔ حق کی پامالی کے خلاف اور اپنے ملک کی دشمنوں سے دفاع کے لےے لڑنا عین عقل و فطرت اور دین کا تقاضا ہے لیکن بہرحال اس جائز عمل پر بھی جہاد کا اطلاق صحیح نہیں ، جس کا مخصوص دینی تناظر اور شرائط ہیں۔
جہاں تک ”تترس“ (مسلم فوجی کو خود کو بچانے کے لےے ڈھال اور آڑ بنالینا) سے ان حملوں کے لےے دلیل پکڑنے کا سوال ہے۔ ”تترس“ کے مسئلے کی متعلقہ مخصوص شرائط ان فدائی حملوں پر صادق نہیں آتیں۔ ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ دشمن سے دفاع کی اس کے علاوہ کوئی او رشکل باقی ہی نہ رہ گئی ہو۔
٭ فائدہ کی جو صورتحال پیش نظر ہو وہ ظنی نہ ہو بلکہ یقینی اور حتمی ہو۔
٭ اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہ ہو، اگر تاخیر اور صورتِ حال کو ملتوی کرنے کی شکل میں جان کے ضیاع سے بچنے کا امکان ہو تو پھر اسی پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔
٭ اسی طرح تترس کی شکل اس قاعدے پر موقوف ہے کہ بڑے فائدے کے لےے چھوٹے نقصان کو گوارہ کیا جائے۔
انصاف کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا فدائی حملے کے جواز کے لےے یہ شرطیں پائی جاتی ہیں؟ کیا اس صورت کے علاوہ مسلم سپاہیوں کے پاس کوئی اور چارئہ کار نہیں رہ گیا ہے؟ کیا اس کا فائدہ اتنا حتمی اور یقینی ہے کہ اس میں کلام اور شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی ہو۔ اور اس میں اب مزید کسی تاخیر و انتظار کی گنجائش نہ ہو جبکہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ہماری امت کی سب سے افضل عبادت کشادگی کا انتظار ہے۔ علامہ قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: قتل” ترس”(جس کو ڈھا ل بنایا گیا ہو) کبھی جائز ہوتا ہے اور اس میں ان شاءاللہ اختلاف نہیں ہے۔ اور یہ جواز اس صورت میں ہے جبکہ فائدہ ضروری، کلّی اور قطعی ہو، ضروری ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ کفار تک پہنچنا قتل ترس کے بغیر ممکن نہ ہو اور کلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری امت کے لےے قطعی ہو۔ چناچہ قتل ترس سے تمام مسلمین کو فائدہ پہنچے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں کفار ڈھال بنائے گئے مسلمان کو قتل کردیں اور پوری امت پر غالب آجائیں، اور قطعی ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ قتل ترس کا فائدہ یقینی ہو۔ ہمارے علما نے کہا کہ ان قیود کے ساتھ اس فائدے کے معتبر ہونے میں اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس لےے کہ گمان یہ ہے کہ ڈھال بنائے گئے مسلمان کی دونوں صورتوں میں موت یقینی ہے ،چاہے دشمن کے ہاتھوں تو اس صورت میں شدید مفسدہ پیش آئے گا اور وہ دشمن کا مسلمانوں پر غالب آنا ہے یا مسلمانوں کے ہاتھوں تو اس صورت میں دشمن ہلاک ہوگا اور تمام مسلمانوں کو نجات حاصل ہوگی۔ کوئی عاقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت میں ڈھال بنائے گئے مسلمان کو ہلاک کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں۔ اس لےے کہ اس صورت میں اس ڈھال بنائے گئے مسلمان کا ہلاک ہونا بھی لازم آتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کا تباہ و برباد ہوجانا بھی۔“ (الجامع لاحکام القرآن، ۸/۵۶۳)۔
علامہ قرطبی نے جو شرائط ”تترس“ کی صورتحال میں دشمن پر حملوں کے جواز کے لےے بیان کی ہیں، غور کیا جاسکتا ہے کہ کیا وہ موجودہ فدائی حملوں پر منطبق ہوتی ہیں؟
ایک اہم بات یہ ہے کہ فدائی حملوں کے لےے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد اور نتیجے کو بھی بنیاد بنانا صحیح نہیں ہے جیسا کہ اس کے حق میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے۔ اس لےے کہ یہ اصول مسلّم ہے کہ ”کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد کسی غلط طریقہ کار کو جواز عطا نہیں کرتا۔“ (الغایة لا تبرر الوسیلة)۔
غور کرنے کی بات ہے کہ فلسطین سمیت دوسرے اسلامی ملکوں میں جہاں یہ عمل انجام دیا جارہا ہے، وہاں اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مصیبتوں میں مزید اضافے ہوئے، اسرائیل کی صورتِ حال پر غور کریں تو ایک اسرائیلی کے مقابلے میں کئی سو فلسطینی شہری ہلاک کےے جاتے ہیں۔ عراق و افغانستان کی بھی یہی صورتِ حال ہے، اس طرح کے حملوں میں پہلے تو مشترکہ طور پر مسلم و غیر مسلم دونوں مارے جاتے ہیں لیکن اس کے انتقام میں جو کارروائیاں کی جاتی ہیں، ان میں اس سے سیکڑوں گنا معصوموں کی ہلاکت ہوتی ہے۔ اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا کرنے والا اس عمل کی انجام دہی کے دوران خود کو پرامن انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ حالاں کہ وہ مسلّح اور قتل و قتال کاقاصد ہوتا ہے۔ یہ ایک دھوکے کی صورت سے جو اسلام کے پختہ اصول جنگ سے میل نہیں کھاتی۔
اس تعلق سے غوروفکر کا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ موجودہ اسلامی سیاسی فکر میں جہاد و قتال کا نظریہ انتہائی افراط و تفریط کا شکار ہے، علامہ یوسف قرضاوی جن کا فلسطین میں فدائی حملے کے جواز کا موقف سب سے زیادہ مشہور ہے اور بکثرت نقل کیا جاتا ہے، ان کی نئی کتاب ”فقہ الجہاد“ خاص طور پر اسی افراط و تفریط کو دور کرنے اور روایتی موقف (جہاد اقدامی کے جواز وغیرہ) سے ہٹ کر لکھی گئی ہے۔ اس افراط و تفریط اور اسلامی تحریکات میں دین سے ناواقف اور جذباتیت پسند نوجوانوں کی کثرت کی وجہ سے سرے سے یہ ممکن نہیں تھا کہ فدائی حملے یا اس طرح کسی عمل کو جائز قرار دینے والوں کی ان شرطوں کا پاس و لحاظ رکھا جاسکے گا جو اس طرح کے عمل کے جواز کے لےے وہ عائد کرتے ہیں۔ چنانچہ عرب علما نے فدائی حملوں کو خاص طور پر فلسطینی مقامات کے لےے جائز قرار دیا تھا کہ ان کے بقول اسرائیل کے تمام شہری محارب کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن آج فلسطین سے زیادہ پاکستان میں خود کش حملے ہورہے ہیں اور اب یہی علما اس صورتحال کو فساد فی الارض اور امت مسلمہ کے لےے زبردست خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
تفقہ اور دینی بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ احکام کی تفریع اور استنباط میں صرف حال کو ہی نہیں مآل اور عواقب کو بھی نظر میں رکھا جائے۔ فقہ المآل یا فقہ المستقبلیات پر ہمارے یہاں کام نہیں ہوسکا کہ ہم فتاویٰ اور احکام میں کسی چیز کے جواز یا عدمِ جواز کے تعلق سے مستقبل کے مضمرات اور نتائج کو بھی اصول کے طور پر سامنے رکھ سکیں۔ یہ فقہ کا ایک نہایت نظر انداز کیا ہوا گوشہ ہے۔ اس کی حقیقت کو اس واقعے کی روشنی میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو یہ برملا فتویٰ دیا کہ قاتل کی مغفرت نہیں ہوسکتی اور وہ جہنم میں جائے گا۔ لوگوں کے تعجب اور استفسار پر کہ یہ تو صحیح نہیں ہے اور خود ان کا موقف بھی اس کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے اس شخص کے انداز سے بھانپ لیا تھا کہ وہ کسی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لےے میں نے اس کو اس عمل سے باز رکھنے کے لےے یہ فتویٰ دیا۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خاص فلسطین کے پس منظر میں بھی فدائی حملوں کے جواز کا فتویٰ سراسر غلط تھا کیوں کہ موجودہ دور میں اسلام کے دفاع اور اسلامی شریعت کے نفاذ وغیرہ عنوان سے جو انقلابی مسلم تحریکیں سامنے آئی ہیں ،ان کی نفسیات اسلامی تعلیمات کی اساس پر نہیں بلکہ صرف جذباتی ردِ عمل کی اساس پر تیار ہوئی ہیں جو سیاہ و سفید اور جائز و ناجائز کے امتیاز اور حد بندیوں سے قطعاً نا آشنا ہے۔ سعودی علما کا موقف فدائی حملوں کے تعلق سے کل بھی صحیح اور releventتھا اور آج بھی صحیح اور releventہے٭٭

Saturday, November 28, 2009

A Critique of the Theology and politics of Radical Islamism

اسلام کی دینی و سیاسی فکر کی انقلابی تعبیر: ایک تنقیدی مطالعہ
-حصہ اول-
-Part-1-
اسلام دین فطرت ہے وہ انسان کی اپنی اندرونی طلب کا جواب ہے۔ اس کا مقصد خالق اور مخلوق کے رشتے کو صحیح طورپر قائم کرنا اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اس خالق و مخلوق کے رشتے کا ایک اہم پہلو خود انسان کے اپنے باہمی تعلقات ہیں۔ اگر یہ باہمی انسانی تعلقات اپنی اصل اور فطری صورت پر قائم نہ ہوں تو خالق و مخلوق کا باہمی رشتہ بھی اپنی صورت پر باقی نہیں رہ سکتا۔ کیوںکہ، جیسا کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:” دنیا کی ساری مخلوقات اللہ کا کنبہ ہے(۱)“ اور اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کنبے سے دوری اور عداوت کے ساتھ اس کنبے کے نگراں اور سرپرست (خدا) کے ساتھ قربت اور محبت کا رشتہ قائم کیا جا سکے۔ اسلام ” سِلم“ کے لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی ” امن“ ہیں ۔ اور خود اسلام کے معنی اللہ کے نزدیک پوری طرح جھک جانا (Submission) اور خود کوSurrenderکر دینا ہے۔ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے، یہ وہی دین ہے جو حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تک تمام پیغمبروں اور تمام نسل انسانی کا دین تھا ۔(۲) اس لیے منطقی طورپر اس میں خلاف فطرت کوئی ایسی چیز نہیں ہو سکتی یا نہیں ہونی چاہیے جو انسانیت کی مجموعی فلاح اور خیر خواہی کے خلاف ہو۔ پیغمبر اسلام کا ایک اہم قول ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔(۳) یہ خیر خواہی در اصل پوری انسانیت سے مطلوب ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس خیر خواہی کی عملی شکل یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر مسلمان دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو(۴)۔ اسلام کا مسلمان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ خدا کی اس فیملی (عِیَالُ اللہ ) کے ساتھ پر امن بن کر رہیں جو ان کی بنیادی صفت قرار دی گئی ہے اور حدیث میں اسے ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ : ” مسلمان دراصل وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں(۵)“۔ اگر ایک مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا کہ وہ خدا کی فیملی کا خود کو ایک ممبر تصور کرتے ہوئے فیملی کے دوسرے افراد کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے۔ اپنی پسند اور دوسروں کی پسند میں فرق نہ کرے
، خدا کی مملکت کا پوری طرح ایک پُر امن شہری بن کر رہے، وہ حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔
پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک اخلاقی اور روحانی شخصیت تھے۔ انھیں اخلاق اور روحانیت کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا تھا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ : میں اعلیٰ اخلاق کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں( ۶)۔“ مکہ میں آپ تیرہ سال رہے اور خاموشی کے ساتھ عبادت، خاموش تبلیغ اور مخالفین کی اذیتوں پر صبر کے ساتھ اپنی زندگی گزاری۔ مدینے میں اللہ کے نعام کے طورپر انھیں ریاست تشکیل دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے اپنی اس ریاست کی بنیاد تکثیرت (Pluralism)کے اصولوں پر رکھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین اور یہودیوں کو بھی دستوری سطح پر مسلمانوں کے برابر حقوق دیے۔ اس طرح کثیر قومی کثیر تہذیبی دوسرے لفظوں میںNation-state کے تصور کی بنیاد پر تشکیل پانے والی یہ پہلی باضابطہ ریاست تھی۔ رسول اللہ کو اپنے پُر امن دعوتی مشن میں بسا اوقات جنگیں بھی لڑنا پڑیں۔ لیکن یہ دفاعی نوعیت کی جنگیں تھیں جس کی وضاحت قرآن میں موجود ہے (۷) ۔ ان جنگوں کا مقصدreligious persecution کی اس صورت حال کو ختم کرنا تھا، جو شاہی مطلق العنانی کے اس دور میں موجود تھی اور عقیدے اور فکر کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ قرآن میں دراصل اسی کو” فتنہ“ ( ۸) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ کے دور میں یہ ” فتنہ“ ختم ہوا۔ رسول اللہ کے ایک صحابی حصرت ابن عمر نے کہا کہ ہم یہ جہاد کر چکے۔(۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سیاسی نہیں تھی۔ وہ دینی اور اخلاقی تحریک تھی۔ لیکن ابتدا میں سیرت(prophet`s biography) پر جو کتابیں مرتب کی گئیں ان میں رسول اللہ کے زمانے میں لڑی جانے والی جنگوں کو ہی سیرت کا عنوان بنا لیا گیا۔ اس لیے اسے ”مغازی“(wars)کا نام دیا گیا ۔ اس پہلو کو کافی وسعت اور شدت کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد میں فقہ اور حدیث کے موضوعات پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں اسی پیٹرن کو اختیار کر لیا گیا ۔ چنانچہ آج جو کتابیں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ان میں جنگ و جہاد اور ان پر مشتمل مسائل کے عنوانات نمایاں ہیں۔ ان پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ دماغ کھپا یا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسی روایتی انداز میں چلا آرہا ہے جو عہد وسطیٰ میں شروع ہوا تھا۔ یہ مسلمانوں کے عروج کے زمانے (750-1100) میں اسلامی فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے اور اسلام کو ایک بڑی سیاسی طاقت کے طورپر پروجیکٹ کرنے کی ایک پالیسی اور حکمت عملی تھی جسے مسلم حکمرانوں نے آگے بڑھانے اور مضبوط کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اس طرح اس فکری ماحول میں اسلام کا جو سیاسی تصور پروان چڑھا وہ اسلام کی حقیقی روح سے قریب نہ رہ سکا۔ اس میں اسلام کی انسانی فطرت کے مطابق اور عام نسل انسانی کی خیر خواہی پر مبنی دین ہونے کی حیثیت بُری طرح مجروح ہو گئی۔ تیسری اور چوتھی صدی میں اسلام کی جو قانونی تدوین اسلامی فقہ کی شکل میں عمل میں آئی اس میں ان سیاسی پالیسیوں کو با ضابطہ اسلام کا قانون بنا دیا گیا۔
مندرجہ ذیل سطور میں ہم سب سے پہلے اسلام کے تصور سیاست پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کریںگے۔ اس کے بعد یہ دیکھنے کی کوشش کریںگے کہ بعد کے ادوار میں اس میں کیا انحرافات ہوئے اور کیسی خامیاں پیدا ہوئی؟ اس کے اہم اور بنیادی عوامل کیا تھے؟
اسلام کا تصور سیاست
اسلام میں دین اور دنیا میں فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت اور Complementryقرار دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ :” اپنے دنیا کے حصّے کو نہ بھولو“( ۰۱) حدیث میں دنیا کو دین کی کھتی بتایا گیاہے (۱۱ )۔ اس طرح دین اور دنیا کی حیثیت ایک دوسرے سے لازمی طورپر جڑ جاتی ہے۔سیاست زندگی کا ایک لازمی جز اور زندگی کو اجتماعی سطح پر برتننے کا نام ہے۔ اس لیے زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی نظریہ سیاست سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دین کے ساتھ تعلق کی حیثیت سے اس کا اپنا دائرہ اور اپنی محدودیت ہے۔ وہ دین کے مجموعی مفہوم میں تو شامل ہے، لیکن دین کے اساسی مفہوم میں شامل نہیں۔ اس حیثیت سے وہ اضافی ہے، دوسرے لفظوں میں دین سیاست کے بغیر بھی اتنا ہی مکمل ہے جتنا سیاست سے وابستگی کے ساتھ۔ در اصل اسلام ایک عملیت پسند(pragmatic)مذہب ہے اور سیاست میں عملیت پسندی کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔ اس لیے اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسے عمل یا ذمہ داری کا مکلف(committed) نہیں کر سکتا جس کا انجام دینا اس کے ماننے والوں کے لیے عمومی طورپر ممکن نہ ہو۔ قرآن میں اس کی صراحت موجود ہے ( ۲۱)۔ اسلام نے جو احکامات دیے ہیں اس کی دو صورتیں ہی: ایک وہ جو اپنی جگہ اٹل ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی۔ انہیں علمائے اصول غیر مجتہد فیہ کہتے ہیں۔ یعنی ایسے احکام جن میں اجتہادکی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے احکام وہ ہیں جن میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور انہیں وقت اور حالات کی بنیاد پر سمجھا اور تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسے علمائے اصول مجتہد فیہ کہتے ہیں۔ پہلے کا تعلق اسلام کے اعتقادی ڈھانچے سے ہے اور دوسرے کا تعلق عملی ڈھانچے سے۔ اسلام میں سیاست اسی دوسرے خانے میں آتی ہے۔ اس لیے عقیدے کی سطح پر سیاست اسلام کا جز ہے۔ دوسرے نظریات کی طرح سیاست اور مذہب میں تفریق نہیں ۔ لیکن عملی سطح پر اس کا جز ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک یونی ورسل مذہب کے لیے یہ خصوصیت اور لچک فطری ہے۔ چنانچہ اسلام اپنے دینی اور روحانی نظام کے ساتھ دنیا کہ ہر ہر خطے میں پہنچا ہوا ہے، لیکن ( معمولی exceptionکے ساتھ)سیاسی نظام کے ساتھ وہ کہیں بھی موجود نہیں۔ اس کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس صورت میں اسلام ادھورا اور ناقص ہے۔ کیوں کہ یہ سرے سے نہ کبھی ممکن ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اسلام جہاں بھی پایا جائے اپنے نظام کے ساتھ پایا جائے اور وہ دوسرے نظاموں پر غالب ہو کر رہے۔ہر نبی کا دین ہمیشہ ایک رہا ہے اور ہر نبی نے ہمیشہ مکمل دین کی لوگوں کو دعوت دی اور خود اس پر عمل کیا۔ لیکن یہ بات خود قرآن و حدیث کی روشنی میں طے شدہ ہے کہ بہت سے انبیاءکو سرے سے اپنے سماج میں قدم جمانے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ کجا کہ وہ کوئی جماعت یا معاشرہ تشکیل دیں۔ انھوں نے صرف دین کی بنیادی باتوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ کیوں کہ یہی ان سے مطلوب تھا۔ اس سلسلے میں خود حضرت عیسیٰ مسیحؑ کی مثال واضح ہے جن کا مشن زبانی تبلیغ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بہت سے انبیا قتل یا ہلاک کر دیے گئے۔ لیکن ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اپنے اس مشن میں پوری طرح کامیاب رہے، جس کے لیے انھیں خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا، یعنی خدا کی معرفت کی انسان کو تعلیم دینا، خدا سے ان کا تعلق قائم کرنا اور ان کی روح کو پاک و صاف کر کے انھیں روحانی اور ربّانی (۳۱ ) انسان بنانا تاکہ وہ خدا کی بنائی جنت میں بسنے اور اس کی ابدی مسرتوں سے ہم کنار ہونے کے لائق ہو سکے۔
اسلام ایک تکثیری مذہب ہےتکثیرت اسلام کی سیاسی فکر کی اہم کڑی ہے۔ اس اعتبار سے اسلام صحیح معنو ںمیں ایک تکثیری مذہب ہے۔ اس کا اصولی اور عملی ڈھانچہ اسی پر مبنی ہے۔ اسلام میں تنوع(diversity) کو فطرت کی ایک ضرورت اور حسن کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ زبان اور رنگ کے اختلاف کو قدرت کی نشانی قرار دیا گیا ہے:
” اس( اللہ) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔“(۶۱)اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:” اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کر سکو۔“(۷۱
قرآن میں ایک واضح اصول کے طورپر کہا گیا ہے کہ دین میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے انسان کو اختیار ہے کہ وہ جو مذہب یا جو نظریہ چاہے اختیار کرے:
” دین میں کوئی زور اور زبردستی نہیں ہے۔“( ۸۱)” جس کا دل چاہے وہ اسلام پر ایمان لائے اور جس کا دل چاہے اس سے انکار کر دے“۔(۹۱)
اس لیے کہ یہ خود اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے کہ سارے لوگ ایک فکر اور ایک طریقے کے پابند ہو جائیں:” اگر آپ کا رب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ ایمان قبول کر لیتے ” کیا مومن بنانے کے لیے آپ ان کے ساتھ زبردستی کریںگے۔“(۰۲) ” اللہ نے ہی تمہاری تخلیق کی ہے تو تم میں کچھ لوگ مومن اور کچھ لوگ منکر ہیں“(۱۲)۔اس طرح مومن کے ساتھ منکر ہونے کو ایک ابدی اور فطری حقیقت کے طورپر تسلیم کر لیا گیا۔ ہر قوم کا مزاج، ماحول، فطری صلاحتیں، اس کے لیے ردو قبول کے امکانات الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے ایک ”شرعہ“( َLaw) اور منہاج(Way) مقرر کیا ہے۔ دین اور اعمال دونوں کو فرد کے اپنے انتخاب پر چھوڑنے کی واضح ہدایت اسی لیے قرآن میں دی گئی ہے:” تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا دین“ (۲۲) ۔” تمہارے لیے تمہارا عمل ہے اور ہمارے لیے ہمارا عمل“(۳۲)۔
پیغمبر اسلام نے مدینے میں جو پہلی ریاست تشکیل کی اس میں تہذیبی تعدد(multiculturalism) ، تکثیرت (pluralism) اور بقائے باہم(coexistance)کو بنیادی اصول کے طورپر استعمال کیا گیا تھا۔ میثاق مدینہ اس اسلامی ریاست اور اسلامی تاریخ کا پہلا تحریری معاہدہ یا دستور تھا۔ معاہدے کے مطابق ، معاہدے کے پابند تمام مسلم وغیر مسلم شہریوں کو یکساں حقوق حاصل تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاہدے میں مسلمان، یہودی اور مشرکین کو ( عیسائی وہاں موجود نہیں تھے) مسلمانوں کے ساتھ ایک متحدہ امت کی حیثیت دی گئی تھی۔ ( یہود امة من المسلمین) ایک شق کے الفاظ یہ تھے کہ : مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین ہے اور یہودیوں کے لیے یہودیوں کا دین (للمسلمین دینہم وللیہود دینہم)(۴۲) قرآن کے مطابق ہر مذہبی کمیونٹی کو مکمل داخلی خود مختاری دی جانی چاہیے۔ اسے نہ صرف عقائد اور عبادات کو اپنے طورپر انجام دینے کی آمادی ہو بلکہ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ بھی اپنی ہی قانون اور ججوں کے ذریعہ کرائیں(۵۲)۔ اس لیے رسول اللہ غیرمسلموں کو دیے گئے اختیارات اور آزادی کو محدود نہیں کر سکتے تھے۔ قرآن میں مسلم اور غیر مسلم عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے مسجد سے پہلے چرچ اور یہودی عبادت گاہ (سینے گاگ) کا ذکر کیا گیا ہے :
Did not Allah chek one set of people by means of anoter there would surely had been pulled down monastries, churches, synagogues and mosques. in wich the name of Allah is commemorated in abundant measure (26)
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ رسول اللہ نے اہل نجران اور اہل حیرہ سے جو معاہدے کیے اس میں غیر مسلموں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دی گئی تھی۔
اسلامی تکثیریت کے اس تصور سے اسلام کے غیر مسلموں ساتھ تعلق کی جو نوعیت سامنے آتی ہے وہ عدل و مساوات اور اشتراک عمل کی بنیاد پر قائم ہے- عدل پر قرآن میں یہ کہہ کر زور دیا گیا ہے کہ : کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو (۷۲) عدل کو قائم کرنے والے بنو(۸۲) مساوات انسانی کے تعلق سے رسول اللہ نے فرمایا کہ :” لوگ ( مسلم اور غیر مسلم ) آپس میں بھائی بھائی ہیں “(۹۲)اوریہ کہ :” وہ کنگھی کے دانوں کی طرح ایک دوسرے کے برابر ہیں۔“ اسلام ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں مذہب اور رنگ و نسل کی قید سے اوپر اٹھ کر لوگ معاشرے میں خیر و عدل کے قیام کے لیے مشترکہ طورپرکوشش کریں اور ایک دوسرے کو تعاون دیں۔ مکہ میں حِلف الفضول کا واقعہ اور مدینے میں ” میثاق مدینہ“ اس کے اہم نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ رسول اللہکے بعد آپ کے خلفا کے دور میں جو اسلامی ریاست تشکیل ہوئی وہ بھی کافی متمول(Rich) اور متنوع (Diverse)تھی اس میں غیر مسلموں کو عقیدہ و عمل کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ اس کی مثالیں اور واقعات اسلامی تاریخ کی کتابوں میں بکثرت موجود ہیں۔ اس تعلق سے یہاں صرف ایک واقعے کا حوالہ مناسب ہوگا۔ حضرت علی کے دور میں سیاسی بحران کی وجہ سے کثیر عیسائی آبادی رکھنے والے بعض علاقوں میں بھی انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیےBazentine بادشاہConstantine II نے عیسائی آبادی کو اس بات پر ابھارا کہ وہ اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دے۔ بازنطینی حکومت اس کی ہر طرح مدد کرے گی۔ لیکن عیسائی آبادی نے اس پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ” ہمارے مذہب کے یہ دشمن تمہارے مقابلے میں ہمیں زیادہ پسند ہیں۔“ البتہ بعد کی اسلامی تاریخ میں اس کا معیار باقی نہ رہ سکا۔ خاص طورپر مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے عہد میں تشکیل پانے والی فقہ میں اسلام کی عالم گیر انسان پسندی کی روح برقرا ر نہ رہ سکی۔( س پرمزید بحث آگے آئے گی)۔
**************************************************************
-حصہ دوم Part-2 -
مسلم سیاسی فکر کے نقائص: قابل غور نکات
اسلام کی سیاسی فکر زیادہ تر اس اسلامی فقہ سے ماخوذ یا اس پر مبنی ہے، جس کی تشکیل 750سے 1100کے درمیان ہوئی، جو مسلمانوں کے سیاسی عروج کا عہد زرّیں کہلاتا ہے۔ ائمہ اربعہ اور اکابر فقہاء( جن میں ائمہ اربعہ کے تلامذہ شامل ہیں) کا تعلق اسی دور سے ہے۔ بعد میں ان فقہا کے علاوہ دیگر فقہا اور اسلامی شخصیات کی آرا و افکار نے اسلامی سیاسی فکر کے ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس میں ابو الحسن علی الماوردی، ابن تیمیہ، ابن قیم الجوزی اور جلال الدین السیوطی وغیرہ شامل ہیں۔ 1258میں تارتا یوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی و بربادی نے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے متوقع اثرات مسلمانوں کے سیاسی فکری ڈھانچے پر بھی پڑے اور اس کے نتیجے میں بہت سے سیاسی و سماجی تصورات تبدیل ہوئے۔ عالم اسلام کے ایک خلیفہ ہونے کا تصور پہلے ہی کمزور تھا، اب اس کا کوئیRelevanceباقی نہیں رہا۔ غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ حکومتی اور سیاسی سطح پر تعاون اور اشتراک عمل کو اسلام کے نظریاتی فریم ورک میں قبول کر لیا گیا۔ رسول اللہ کی مکّی زندگی کے ماڈل کو اختیار کرتے ہوئے غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور تصادم سے مکمل طورپر پہلو تہی کی گئی۔ مسلمانوں کو غیر مسلم ریاست میں ایک پُر امن شہری کی حیثیت سے نارمل زندگی بسر کرنے کو اسلامی نظریے سے درست قرار دیا گیا وغیرہ۔ اسی طرح دارالاسلام اور دار الحرب کے غیر معقول اور نا قابل عمل تصور پر ابتدا میں ہی اعتراضات اٹھائے جانے لگے تھے اور ایک تیسرے ” دار“دارالعہد یا دارالامن کی گنجائش نکالی جانے لگی تھی ۔اس طرح دیکھا جائے تو اسلامی سیاسی فکر ، اسلامی فقہ کے دیگر شعبوں: عبادات و معاملات کی طرح بالکل جامد نہیں تھی۔ تاہم مسلم حکمرانوں کی اپنی مفاد پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دی جا سکی جس کا احساس معاصر علما کو شدت کے ساتھ ہے(۰۳) ۔ اٹھارہویں انیسویں صدی میں جبکہ اسلامی اور مغربی دنیا میں طاقت کے توازن میں زبردست نوعی(qualitative)فرق پیدا ہو چکا تھا، یوروپی ممالک کو مسلم ملکوں کے اندرونی معاملات میں اس لیے بھی دخل اندازی کا موقع ملا کہ وہاں غیر مسلم رعایا کے ساتھ مسلم ریاست کا برتاﺅ قدیم فقہی تصورات کے مطابق انصاف اور مساوات پر مبنی نہیں تھا۔ اس مداخلت کے ذریعہ یوروپی استعماری طاقتوں کو ان پر تسلط کی راہ ہموار ہوئی(۱۳)۔
موجودہ دور میں مسلم علما اور ارباب فکر کے درمیان دو گروپ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروپ کلاسیکی رجحان رکھنے والے قدامت پسند علما پر مشتمل ہے جو انھی قدیم اصول و معیارات پر اپنے نظریات کی عمارت کھڑی کرتے ہیں جو تیسری چوتھی صدی میں تشکیل پائے تھے۔ جب کہ دوسرا گروپ ان دانشوروں پر مشتمل ہے جو جدید سیاسی نظریات کی بنیاد پر اسلامی سیاسی نظریات کی تشکیل کا خواہاں ہے اور اسلام کی فطری اور فقہی اثاثے کو سرے سے کوئی اہمیت دینے کا قائل نہیں۔ان دو طبقوں کے درمیان ایک تیسرا طبقہ ان اہل فکر پر مشتمل ہے جو اسلام کے روایتی دائرہ فکر میں رہتے ہوئے اپنے نظریات کی ترتیب کو درست کرنے اور جدید حالات اور تقاضے سے ناہم آہنگ اور مشکلات پیدا کرنے والے فقہی سیاسی تصورات پر ایک حد تک نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں وسعت پیدا کرنے کا قائل ہے، اگرچہ یہ طبقہ روشن فکر علما اور ارباب دانش پر مشتمل ہے لیکن وہ ایک طرف قدامت پسند علماء جن کی روایتی دینی حلقوں اور عوام پر گرفت مضبوط ہے کے دباﺅ میںاور دوسری طرف سے انھی قدیم فقہی تصورات اور اصول استنباط پر بنیادی طورپر انحصار کرنے کی وجہ سے، ایک ایسا ماڈل فراہم کرنے سے قاصر ہے جو دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں فٹ ہونے کے ساتھ روایتی ماڈل کی جگہ لے سکے۔
اسلامی سیاسی فکر کے صحیح رخ سے ہٹ جانے کا مسئلہ اسلام کے ابتدائی عہد کے بعد پوری اسلامی فکر صحیح اسلامی گر سے ہٹ جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ با ضابطہ انحراف تیسری چوتھی صدی میں ائمہ اربعہ کےCanonisation،تقلید کو علمی و فکری سطح پر رواج عام اور باب اجتہاد کے بند ہو جانے کی شکل میں سامنے آیا۔ ائمہ اربعہ یا دیگر ائمہ فقہ میں سے کوئی بھی اس منصب کا دعویدار نہیں تھا جنھیں یہ منصب عطا کیا گیا ۔لوگوں کو ائمہ اربعہ کی تقلید پر کاربند کرنا اس وقت کے اسلامی سماج کے اس بکھراﺅ کو دور کرنے اور اس میں تنظیم و یک رنگی پیدا کرنے کی کوشش تھی جو بالخصوص سیاسی و سماجی حالات، مختلف رجحانات رکھنے والے فقہا و محدثین کی اکثر مسائل میں مختلف رایوں کا حامل ہونے ، فقہا کی ایک تعداد کے فقہ کو بطور پیشہ اختیار کر لینے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا(۳۳)۔ اس طرح یہ اقدام ایک سیاسی حکمت عملی پر مبنی وقتی اقدام تھا نہ کہ دینی و تشریعی ( قانونی) حکمت عملی پر مبنی فکر کا آخری نتیجہ۔ اس لیے آگے چل کر حالات کی تبدیلی کے بعد جو چیز علاج کے طورپر اختیار کی گئی تھی وہ امت کے لیے بجائے خود بہت بڑا مرض بن گیا اور جس سے امت مسلمہ کی پوری فکر شل ہو کر رہ گئی۔ علمائے اصول نے فقہ کی ایجاد کی، لیکن اجتہادی پراسیس کے عملا معطل ہو جانے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کوئی اضافہ یا ترقی نہیں ہو سکی۔ نتیجے کے طورپر قدیم اصول فقہ کی روشنی میں جدید مسائل پر غور و خوض مسائل کی سنگینی میں مزید اضافے کا سبب بنا۔
انیسوی صدی میں عالم اسلام پر استعماری شکنجے کی مضبوطی کے بعد امت کے ” اعلیٰ دماغوں“ اور ارباب حل و عقد کی طرف سے اس کے مقابلے کے لیے نظری اور عملی سطح پر جو جد و جہد کی گئی وہ اس نظری افلاس کو مزید واضح کرنے والا تھا جس کی وراثت اس صدی کے مسلمانوں کوحاصل ہوئی تھی۔ اس کا اندازہ اس مثال سے ہو سکتا ہے کہ اس عہد کے سب سے بڑے اسلامی دماغ جمال الدین افغانی جس کے بارے میں اقبال آخری حد تک ثنا خواں ہیں۔ ( ۴۳)انہوں نے زور و تائید کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ : امت مسلمہ کو ایک عادل ڈکٹیٹر(مستبدµ عادلµ) ہی سوٹ کرتا ہے (۵۳)حالانکہ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ استبداد عدل کے منافی ہے۔ استبداد کی بنیاد پر عدل کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلامی فقہ یا اسلامی فکر میں تقلید کے مظہر کے حوالے سے اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی عین پہلی اوردوسری صدی میں فکری قیادت اور سیاسی قیادت میں اس وقت بُعد و افتراق پیدا ہو گیا جب اسلامی خلافت خاندانی بادشاہت کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ رسول اللہ کے احباب اور ان کی اتباع کرنے والی اسلام کے فکری ورثے کی امین شخصیات خاموشی اور عزلت نشینی پر مجبور ہو گئیں۔ سیاسی لیڈر شپ اور دینی و فکری لیڈر شپ میں دوری اور مقابلہ آرائی کی کیفیت تیسری اور چوتھی صدی میں عروج پر تھی جس کی اہم مثال یہ ہے کہ چاروں ہی اماموں کو شدید سیاسی ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑا۔ امام ابو حنیفہ کی تو موت ہی جیل میں ہوئی۔ زبردستی (by force) طلاق کے ( جس کا مقصد by forceبیعت کے جائز ہونے کو ثابت کرنا تھا) امام مالک کو اس قدر زد و کوب کیا گیا کہ ان کا بازو اکھڑ گیا۔
ان بنیادی امور کے علاوہ اسلام کی سیاسی فکر میں جو جمود اور انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے اس کے بعض اہم اسباب و عوامل یہ ہیں کہ :
(1)
کوئی بھی فکر خواہ اس کا تعلق دین و سیاست یا زندگی کے کسی اور شعبے سے ہو۔ اپنے وقت کے سماجی، جغرافیائی اور سیاسی حالات سے اثر پذیر ہوتی ہے۔ اس تعلق سے بطور مثال کمیونزم کو پیش کیا جا سکتا ہے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں طبقاتی کشکمکش اور مزدوروں پر جبر اور ان کے استحصال کے رد عمل میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی۔ امام مالک ، شافعی، غزالی ، ماوردی، ابن تیمیہ، جوینی شاطبی وغیرہ کے افکار و سوانح سے ان ائمہ کے کاموں پر وقت اور ماحول کے سیاسی و معاشرتی عوامل کا صاف اثر دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے گروہی تنازعات اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے مرکزی سیاسی اقتدار کو استحکام بخشنے اور باہمی اتحاد و یک جہتی کی صورتحال کو مضبوط کرنے کی اہمیت کو فہرست میں سب سے اوپر جگہ دی۔ اسلامی تحریک کو شروع دن سے عرب کے سخت مزاج بدﺅں کے ساتھ کشمکش، دوسری طرف حکومتی سطح پر ایران خاص طور پر رومی امپائر سے مزاحمتوں اور اندیشوں کا سامنا رہا۔ تیسری چوتھی صدی میں اگرچہ اسلامی خلافت کے حدود مضبوط ہو چکے تھے تاہم بالکل محفوظ کبھی نہیں سمجھے گئے۔ مسلمانوں کی فکری قیادت کرنے والے کا ذہن خارجی اندیشوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس بے چینی اور خوف کا اندازہ احمد بن حنبل کے اس قول سے ہوتا ہے کہ” : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تم جنگ نہ کرتے تو اسلام مٹ گیا ہوتا اور پھر رومی کیا کرتے“؟ امام مالک نے بھی ایسے ہی احساسات کااظہار کیا ہے(۶۳)۔ اس دور میں سیاسی انتشار، بغاوت اور محاربة (insergency) کے واقعات کثرت سے پیش آئے جنہوں نے فقہا کے ذہن کو متاثر کیا۔
(2)
سیاسی غلبے کی نفسیات سے قرآن و حدیث اور رسول اللہ اور صحابہ کے دور میں پیش آنے والے واقعات میں سے انہوں نے صرف اسی حصّے کو اپنی فکر کا ماخذ بنایا جو ان کے مخصوص نظریے اور نفسیات کو تقویت دیتا تھا۔ چنانچہ ان کے سامنے نہ تو مکی آئیڈیل رہا جو مدینہ میں رسول کی اقامت سے زیادہ عرصے پر مشتمل ہے اور نہ ہی مدینہ کا ابتدائی سیاسی نبوی ماڈل جو سیاسی وسیع النظری کی اعلیٰ اور مثالی قدروں پر مشتمل تھا۔ اس کے بجائے ان کی توجہ مدینہ کی ریاست کے آخری حصّے پر رہی جب رسول اللہ کو ایک غیر چیلنج آمیز اقتدار حاصل ہو چکا تھا۔ حضرت علیؓ کا ایک بہت با معنی قول ہے جس کی معنویت اسلام کی آئندہ کی تاریخ میں زیادہ کھل کر سامنے آئی:”قرآن ایسی کتاب ہے جو صرف انسان کی زبان سے کلام کرتی ہے۔“ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی مفہوم کے استنباط یا کسی تصور کی تشکیل میں انسان کا اپنا ذہن ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلافات کی کثرت کی ایک لازمی وجہ یہ بھی ہے۔ یہ اشخاص یا اشخاص کے طبقات کا اپنا ذہن ہے جو اپنے طورپر ایسے اصول بناتا ہے جس سے وہ مطلوبہ نتیجہ اخذ کر سکے۔ اس تعلق سے (Gibb)گب کی بات بہت با معنی ہے کہ :” قرآن یا سنت اسلامی قانون کے استنباط کی بنیاد نہیں بلکہ محض اس کے ماخذ ہیں۔ حقیقی بنیاد تو اس ذہنی رجحان میں تلاش کی جانی چاہیے جس نے ان ماخذ سے نتیجے اخذ کرنے کے طریقے متعین کیے۔(٭
ان دو بنیادی اسباب کے پائے جانے کے لازمی نتیجے کے طورپر اس فکر کی تشکیل کے منہج میں ایسی خامیاں در آئیں جنہوں نے پوری فکری بساط الٹ کر رکھ دی اور اسلام کا اخلاقی اور روحانی پہلو بالکل حاشیے پر چلا گیا۔
(3)
قرآنی آیات کے نسخ کے تصور اور اصول کاایسا بے جا استعمال کیا گیا کہ قرآن میں صبر، اعراض ، برداشت، فکر و عقیدے کی آزادی، دوسری قوموں کے تعلق سے اعلیٰ اخلاقی و انسانی معاملے کی تعلیمات اس( نسخ) کے انتہا پسندانہ تصور کے تحت منسوخ قرار دے دی گئیں۔ ان میں وہ آیات بھی شامل ہیں جن میں مذہبی آزادی و رواداری کی تعلیم دی گئی ہے جیسے ” دین میں کوئی زبردستی نہیں“ ۔”جو شخص چاہے اسلام کا راستہ اختیار کرے اور جو چاہے اس سے انکار کا“۔یا کہ ”ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔“سورہ توبہ کی ایک آیت جسے آیت السیف(verse of sword)سے موسوم کیا جاتاہے کی بنیاد پر تقریباً ۰۴۱ آیات منسوخ ہو کر رہ گئیں۔(۷۳)
(4)
قرآن و سنت کی حرفی تعبیر( literal interpretation)سے پیدا ہونے والے فکری ابہام اور اسلامی تاریخ کو غیر معروضی انداز میں لکھے جانے کی وجہ سے عوام و خواص کے اہم طبقات میں مثالیت پسندی (Idealism)کا رجحان پیدا ہوا اور اس نے اہستہ آہستہ با ضابطہ اسلامی فکر کے دھارے میں اپنی جگہ بنا لی۔ دوسری طرف آمرانہ اور خاندانی حکومتوں کی ظالمانہ سیاست سے پیدا شدہ اضطراب اور مایوسی نے اس مشابہت پسندی میں اضافے کے ساتھ اسے عوامی جوش و جذبات سے بھی بھر دیا۔ کیونکہ مظلوم جماعتوں یا طبقات کی نظر میں اس درد کا علاج اس تصور اور طریقہ سیاست کو بحال کیے بغیر ممکن نہیں تھا ،جو بہتر صورت میں اسلام کی ابتدائی تین دہائیوں کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ یہی تصور آج کی احیائی فکر رکھنے والی(revivalist) جماعتوں کے ذہن پر غالب ہے۔
(5)
مسلم و غیر مسلم تعلقات کے حوالے سے اسلام کے یونی ورسل دین ہونے کے پہلو پر صحیح توجہ نہ دی جا سکی۔ اس طرح فقہ کے ٹیکنیکل اصولوں کی شدت کے ساتھ پیروی میں ان کے نتائج اور شریعت کے اصل مقاصد کو مرکز توجہ نہیں بنایا جا سکا۔ حنفی اور مالکی فقہ میں ایسے اصول تھے جن سے اس رخ پر کام میں مدد مل سکتی تھی لیکن، مثال کے طورپر امام شافعی اور دوسرے فقہا کی ان کی مخالفت کی وجہ سے انہیں زیادہ توجہ حاصل نہ ہو سکی اور ان کا صحیح کردار سامنے نہیں آسکا۔
ان کے علاوہ دیگر اہم تاریخی و جوہات اور عوامل ہیں جنھوں نے اسلام کی ناقص قانونی سیاسی فکر کی تشکیل میں نمایاں رول ادا کیا۔
**************************************************************
- حصہ سوم Part-3-
اسلام کی سیاسی فکر کا عصری منظر نامہ
مولانا مودودی اور سید قطب کے سیاسی اسلامی نظریات کا تنقیدی مطالعہ
مارچ1924 میں عثمانی خلافت کے خاتمے کی شکل میں مسلمانوں کے سیاسی مرکز کے ٹوٹنے کے بعد مسلمانوں نے دور جدید میں پہلی مرتبہ شدت کے ساتھ خود کو نہایت کمزور محسوس کیا۔ انھیں محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے چھت ہٹ گئی ہو اور وہ بالکل بے یار و مددگار ہو گئے ہوں۔مسلم ممالک پر قابض سامراجی طاقتوں کو اس واقعے سے مزید شہ اور قوت حاصل ہوئی اور مسلمان مزید سیاسی محکومیت اور مغلوبیت کے عذاب کا شکار ہوتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے اندر اس صورتحال سے پیدا شدہ مایوسی اور انتشار کے رد عمل میں دو طرح کے ذہنی رویّے عالم اسلام میں پیدا ہوئے ایک رویّہ وہ تھا جو اسلام کے روحانی اقدار کی باز یافت پر زور دیتا اور اسی تعلق سے انفرادی عبادت اور صوفیانہ اعمال و اشغال پر زور دیتا تھا۔ہندوستان میں مولانا الیاس کی قائم کردہ تبلیغی جماعت اور ترکی میں سعید نورسی کی” جماعت النور“اسی زمرے میں آتی ہےں جبکہ دوسرا رویّہ اسلام کے اجتماعی و سیاسی پہلوﺅں پر زور دیتا اور اسے بنیادی طورپر مسئلہ کا اصل حل تصور کرتا تھا۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی، مصر میں اخوان المسلمون اور انڈونیشیا کی ماشومی تحریک اس دوسرے زمرے میں آتی ہےں جنھیں احیائیت پسند(revivalist)کہا جاتا ہے۔ ان میں بر صغیر ہند میں” جماعت اسلامی“ اور عالم عرب میں ”اخوان المسلمون“ کو شہرت حاصل ہوئی اور وہ عوام و خواص کے ایک بہت بڑے طبقے کو اپنے افکار و خیالات سے متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔تاہم جماعت کو اخوان المسلمون پر فوقیت حاصل رہی۔ اس نے اس احیائی فکر کی حمایت میں نہایت شاندار اور مضبوط لٹریچر تیار کر دیا۔ اخوان کے پاس تحریکی اور انتظامی صلاحیت بے پناہ تھی لیکن وہ ایسے انقلابی لٹریچر سے محروم تھی جو قرآن و سنت کے ’ مطالعے‘ اور ان سے ’ اخذ کردہ دلائل‘ کی بنیاد پر عصر حاضر کے اسلوب اور نوجوانوں کو اپیل کرنے والے لہجے میں تیار کیا گیا ہو، یہ کمی مولانا مودودی (1903-79)کے لٹریچر نے پوری کر دی۔ احیائی فکر رکھنے کے باوجود اخوان کے بانی حسن البنا (1906-49) اسلام کو سیاسی اور انقلابی شکل میں پیش کرنے کے اس ہنر سے واقف نہیں تھے۔ بلکہ وہ اس کے قائل بھی نہیں تھے۔ یہ در اصل سید قطب (1906-66) ہیں جو مولانا مودودی کی انقلابی دینی فکر سے مولانا مودودی کی مختلف کتابوں خصوصاً ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ سے متاثر ہوئے۔ سید قطب اور بعض دوسری شخصیات کے ذریعے یہ فکر اخوان کے اندر پھیل گئی۔ سید قطب کی کتاب ” معالم فی الطریق“ (Signposts)میں پیش کردہ بنیادی فکر مولانا مودودی کی فکر سے ہی ماخوذ ہے۔ البتہ قید و بند اور اذیت دہی کے اُن تجربات کی بنا پر جو انہیں جمال عبدالناصر کی حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ پیش آئے، اس کا لہجہ زیادہ آتشیں ہو گیا ہے۔
اخوان کے بعض لیڈروں کو بھی اس کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا کہ سید قطب کے انتہا پسندانہ فکر سے متاثر ایک نیا طبقہ اخوان کے اندر پیدا ہو رہا ہے جس سے اخوان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اخوان کے مرشد عام حسن ہُضیبی نے اسی صورتحال کے پیش نظر ” دعاة لا قضاة“ لکھی۔ جس میں انہوں نے سید قطب کی فکر سے برات ظاہر کرنے کی کوشش کی۔اب اخوان سے رسمی طورپر وابستہ ، اس سے ہمدردی رکھنے والے بہت سے علما اور اکٹوسٹ بھی سید قطب کی روایتی اسلامی فکر سے متصادم ان شدت پسندانہ افکارکی یا تو تردید یا تاویل کر تے ہیں جس کے نتائج موجودہ جموری نظام سیاست کے تحت قائم مسلم معاشرے کی تکفیر اور مسلم حکم رانوں سے ناگزیر تصادم کی صورت میں نکلتے ہیں۔ اس ضمن میں یوسف قرضاوی، انور الجندی، محمد عمارہ، علامہ محمود شاکر، ڈاکٹر عزالدین اسماعیل وغیرہ کا نام آتاہے۔
نظری سطح پر اخوان کی صفوں میںاس تبدیلی جیسا کوئی مظہر ہندوستان و پاکستان کی جماعت اسلامی کے تعلق سے بالکل نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہاں کا جمہوری ماحول ہے۔یہاں اظہار رائے کی مکمل آزدی ہے اور اسی وجہ سے جماعت اسلامی کا وہ آتشیں لٹریچر جس نے مسلم دنیا سے لے کر مغربی ممالک تک اسلامزم کو پروان چڑھانے اور مسلم جماعتوں کو ریڈیکل بنانے میں سب سے بنیادی رول ادا کیا ہے، اب بھی اہتمام کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہندوستان کی جماعت اسلامی کے موجودہ کارکنان مولانا مودودی کی زیر بحث شدت پسندانہ فکر پر گفتگو سے دامن بچاتے اور خود کو معتدل ثابت کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں تاہم نہ تو وہ اس سے برات کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی بانی جماعت پر اس تعلق سے تنقید کو جائز تصور کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ ایک نظری کشمکش اور تضاد فکر و عمل(duality)میں مبتلا ہیں۔
مولانا مودودی کی اس نہج پر ذہنی تشکیل، جو بعد میں ایک مخصوص شکل میں سامنے آئی، اس کی ابتدا پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں اس مرحلے میں ہوئی جب انہوں نے ” الجمعیة“ کی ادارت کے دوران ’ الجہاد فی الاسلام‘ لکھنی شروع کی۔ پھر 1928 میں الجمعیة سے دست برداری کے ساتھ انھوں نے 33ءمیں حیدر آباد سے ترجمان القرآن کی اشاعت سے اپنے کام کی شروعات کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں قومی سیاست عروج پر تھی۔ ابو الکلام آزاد جو پہلے احیائی اور پان اسلامک فکر کے حامل تھے، 1920 تک اس سے کنارہ کش ہو کر قومی سیاست میں شامل ہو چکے تھے۔ عالمی سطح پر ایک طرف اشتراکیت کی لے اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ مسلم اہل علم و فکر کی ایک بڑی تعداد اس بہاﺅ کی زد میں آچکی تھی۔ اسلامی نظام کے غلبے کی سوچ رکھنے والے مولانا مودودی کے لیے اس صورتحال سے مضطرب و غیر مطمئن ہونا فطری تھا۔چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے اس بات کی کوشش کی کہ وہ ایک مو¿ثر لٹریچر تیار کر کے نئی نسلوں کے اندر اسلامی مشن کے لیے آمادگی اور امنگ کی کیفیت پیدا کریں۔ اس کے تحت انھوں نے” الجہاد فی الاسلام“، ” اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی“، ” تنقیحات“ وغیرہ لکھیں۔ جن کے اندر جدید مغربی تہذیب کی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے اسلامی نظام کو اس کے ایسے متبادل کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی جس میں ان کی فکر کے مطابق اس دور کے عائلی، سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے تمام تر مسائل کا تشفی بخش حل موجودتھا۔ مولانا مودودی کی اس فکر نے تیزی کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں اپنی جگہ بنائی اور ایک طبقہ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہو گیا، اس کے بعد1941میں جماعت اسلامی کی بنیاد پڑی۔ تقسیم ہند کے بعد مولانا مودودی کےidealistic approach میں مزید شدت آئی۔ اسے پاکستان ریڈیو سے1948میں اسلامی نظام حیات پر کی گئی ان کی پانچ تقریروں میں واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔1979میں اپنے انتقال تک وہ پورے انہماک کے ساتھ اپنے مشن میں لگے رہے ان کی دینی سیاسی فکر کی تنقید میں ان کی زندگی میں ہندوستان کی ہی کم از کم دو اہم شخصیات نے کتابیں لکھ کر ان کی فکر کی کمزوریوں ور اس کی خطرناکیوں کو ان پر واضح کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی فکر پر نظر ثانی کے لیے آمادہ نہ ہوئے(۸۳)۔
جماعت اسلامی کی دینی سیاسی فکر کا اسلام کے مستند سیاسی فکر سے انحراف اور اس کے نتائج
مولانا مودودی لکھتے ہیںکہ : ” اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر کھی گئی ہے:توحید، رسالت اور خلافت“ (۹۳)۔ ان تینوں اصولوں سے وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت اور رسول کی لائی ہوئی شریعت کے نفاذ کا نظریہ اخذ کرتے ہیں۔ توحید کی حقیقت، رسول کی بعثت کا مقصد اور انسان کے اس دنیا میں پیدا کیے جانے کا مقصد ان کی نظر میںیہی ہے۔جس کا انھوں نے مختلف اسلوب و انداز میں مختلف جگہوں پر اظہار کیا ہے۔ رسول کی بعثت اور مشن پر گفتگو اسلام کے غلبے کے تصور کی بحث میں آئے گی۔ یہاں بقیہ دو امور : توحید اور خلافت انسانی پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
توحید: توحید کی تشریح مولانا مودودی اس طرح کرتے ہیں کہ:”توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا تنہا خالق، پروردگار اور مالک ہے۔ حکومت اور فرمان روائی اسی کی ہے۔“یہاں تک بات بالکل صحیح ہے لیکن اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ : توحید کا یہ اصول انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کر دیتا ہے۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حم قانون ہے۔“ اس طرح توحید کو ماننے یا موحد ہونے کا تقاضا ہے کہ غیر اسلامی شریعت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت کا مکمل انکار کیا جائے کیوں کہ یہ ان کی نظر میں توحید کے منافی ہے۔مولانا کی سب سے زیادہ مشہور اور متنازعہ فیہ کتاب ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ در اصل اسی نظریے کو قرآنی بنیاد پر ثابت کرنے کے لیے لکھی گئی۔ اس لیے تو حید اور قرآن کے تناظر میں لکھی گئی اس کتاب نے نوجوان طبقے پر سب سے زیادہ اثرات ڈالے۔ سید قطب نے بنیادی طورپر اسی کتاب سے ” جاہلیت“ اور ” حاکمیت الٰہ “کا نظریہ اخذ کیا جس کے تحت وہ جدید سوسائٹی کو اسلام سے ما قبل کی کفر و شرک پر مبنی، اسلام کی روشنی سے محروم سوسائٹی کے مثل قرار دیتے اور جمہوری و سیکولر سیاسی نظاموں کو ” طاغوت“ اور ان کی اتباع کرنے والوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف برسر جنگ ہونے کو فرض تصور کرتے تھے۔
اس کتاب میں مولانا نے بنیادی طورپر چار اصطلاحوں سے سے بحث کی ہے۔ یعنی : الٰہ، رب، دین اور عبادت۔ مولانا مودودی کی نظر میں یہ چاروں اصطلاحات اس درجے کی ہیں کہ :
” ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم بلکہ اس کی حقیقی روح نگاہوں سے مستور ہو گئی۔ اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد واعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔“(۰۴)
قرآن کی ان چاروں اصطلاحات سے مولانا نے خدا کے مافوق الفطری اقتدار و اختیار کے ساتھ سیاسی و تمدنی اقتدار و اختیار کا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے دلائل و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ : الٰہ یا رب کے مختلف معنیٰ ہیں۔ ان مختلف معنوں میں قرآن میں ان کا استعمال ہوا ہے لیکن ان کا مرکزی مفہوم اقتدار کا مفہوم رکھتا ہے باقی تمام مفہومات اور اس مفہوم میں ایک منطقی ربط ہے اور اس طرح اس کا ایک جامع مفہوم یہ نکلتا ہے کہ خدا ایک ایسی ذات ہے جو ہر صورت میں اقتدار اور حاکمیت کی طالب ہے۔اس حاکمیت اور اقتدار کا تعلق اس سے جس طرح تکوینی امور اور ما فوق الطبیعی(Metaphysical) امور میں ہے اسی طرح سیاسی، سماجی اور تمدنی امور میں بھی ہے۔ ان کے الفاظ میں الٰہیت (الٰہ یعنی خدا ہونے) کی اصل روح اقتدار ہے۔“ یا یہ کہ ” الٰہیت اور اقتدار لازم و ملزوم ہیں اور اپنی روح و معنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی چیزہیں “(۱۴) اسی طرح ’ رب ‘ کا مفہوم پروردگار ( پالنے والا) نہایت محدود مفہوم ہے۔ اس کا اصل مفہوم بھی ’ سید مطاع‘( آقا جس کی اطاعت کی جائے)، سردار ذی اقتدار جس کا حکم چلے جس کی فوقیت و بلا دستی تسلیم کی جائے، جس کو ” تصرف کے اختیار ہو“ ہے۔ اس طرح دین اور عبادت ان کے نزدیک خدا کے اقتدار کے آگے انسان کا جھک جانا اور اس کا محکوم ہو جانا ہے۔ اس اعتبار سے اصل دین اور اصل عبادت یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی ساری مخلوقات ما فوق الفطری طورپر اللہ کے آگے جھکی ہوئی ،اللہ کے حکم کی پابند ہیں اسی طرح سیاسی و تمدنی سطح پر بھی انسان اس کے حکم کو اپنے اوپر نافذ کر کے خود کو اس کا پابند بنائے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو نہ تو وہ دین کا حق ادا کرتا ہے اور نہ ہی عبادت کا۔ نہ ہی دین دار کہلانے کا مستحق ہے اور نہ عبادت گزار۔ اس طرح خدا کے ساتھ اس کا تعلق ، اس کی دین داری، اس کی عبادت کا تقاضا،” حکومتِ الہیہ“ کے اس زمین پر قیام کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ ان چاروں اصطلاحات کے تعلق سے مولانا نے الٰہ کے مطلوبہ مفہوم کے لیے آیات(۸۶:۸۲،۲۲،:۱۲) رب کے مفہوم کے لیے آیات(۵:۷،۴۱:۵۳ وغیرہ) عبادت کے مفہوم کے لیے آیات(۴۱:۰۱،۲۷۱:۲ وغیرہ) اور دین کے مطلوبہ مفہوم کے لیے آیات(۵:۸۹، ۲۵:۶۱،۴۱:۹۳) سے استدلال کیا ہے۔
بنیادی طورپر ان تمام آیات کے مفاہیم میں اقتدار و حاکمیت ( الٰہ اور رب کے مفہوم کے تعلق سے) اور اس اقتدار و حاکمیت کو بلا چون و چرا تسلیم کرنے ( دین اور عبادت کے مفہوم کے تعلق سے ) کا تعلق ما فوق الفطری(Metaphycal) اور تکوینی معنوں میں ہے نہ کہ تشریعی اور تمدنی و سیاسی معنوں میں۔یعنی خدا ” الٰہ“ کے معنی میں پناہ دینے والا، حاجت پوری کرنے والا ، ” رب “ کے معنیٰ میں پرورش کرنے والا ،دیکھ بھال کرنے والا تکوینی طورپر ہمیشہ سے خدا ہی ہے اور وہی رہے گا۔ اسی طرح عبادت اور دین کے حقیقی تقاضے کو اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ سے وابستہ کر کے دیکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی نظام سے باہر گزاری جانے والی زندگی سرے سے اسلامی نہیں ہے۔ دین و عبادت کا حق غیر شرعی معاشرے میں ادا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں پر پہلا فرض ہے کہ وہ ” امامت صالحہ“ یا ” حکومت الٰہیہ“ کو قائم کرنے کی کوشش کرےں۔اس طرح مولانا مودودی نے صدیوں کے ( اوراول درجے میں آج کے) تمام مسلم ممالک کی سوسائٹیوں کو جاہلیت کے خانے میں ڈال دیا۔ مصر کی سب سے ریڈیکل مسلم تحریک الہجرة و التکفیر جس کے ارکان اپنے علاوہ کسی کو مسلمان تصور نہیں کرتے تھے کی نظریاتی اساس در اصل یہی فکر تھی۔ یہ مولانا مودودی اور ان کی پیروی کرنے والوں کے ذریعہ اسلام کی سیاسی فکر میں پہلی صدی کے خارجیوں کے بعد سب سے بڑی تحریف ہے۔
محولہ بالا آیات جن سے مولانا نے استدلال کیا ہے، ان پر ایک نظر ڈالیے: قرآن کی آیت کا ٹکڑا ہے: ” وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں، دنیا و آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اور اس کے لیے حکم ( فیصلہ) ہے۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاﺅگے(۲۴)۔ آیت کے سیاق و سباق سے مافوق الفطری معنوں میں خدا کے اقتدار و حکومت کا معنی واضح ہے اور مفسرین میں سے تمام قابل ذکر مفسرین نے یہی معنی لیے ہیں مثلا: طبری، بحر المحیط، کشاف، خازن ، روح المعانی وغیرہ ۔ دور جدید کے مفسرین و مترجمین قرآن: اشرف علی تھانوی، مفتی شفیع، عبدالماجد دریا بادی، مولانا محمود حسن وغیرہ نے اسی کی پیروی اور تصدیق کی ہے۔
خلافت: خلافت کا نظریہ مولانا مودودی کی دینی سیاسی فکر کی ایک نہایت اہم کڑی ہے۔ خلافت کے تصور کے تعلق سے اسلامی فکر میں بہت پہلے سے ابہام اور انتشار چلا آرہاہے۔ مولانا مودودی نے ابہام سے فائدہ اٹھایا اور اپنے نظریہ سیاسی کو اس سے مستحکم کرنے میں مدد لی۔ خلافت کا نظریہ در اصل اس سوال سے مربوط ہے کہ زمین پر انسان کی حیثیت یا پوزیشن کیا ہے؟ مفکرین اور مفسرین قرآن کا ایک طبقہ اس خیال کا حامل رہاہ ے کہ انسان اللہ کی زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے، یہ نظریہ قرآن کی مختلف آیتوں (۵۶۱:۶،۰۳:۲) سے اخذ کیا گیا ہے جن میں ” خلیفہ“ اور ” خلائف“( خلیفہ کی جمع) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آیت :” ہم نے تم کو زمین پر جانشیں کی حیثیت دی یا جا نشیں بنایا“کی تشریح میں مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ :” انسان کو خدا کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔“ اپنے اس نظریے کی مزید تشریح وہ اپنی کتاب ” اسلامی نظام حیات“ میں اس طرح کرتے ہیں:
” اب خلافت کو لیجئے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب(vicegerent)ہے، یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے(۳۴)۔
ایک دوسری جگہ وہ اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
” اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں مسلمان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے۔ اسلامی نظریہ¿ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہوگی وہ در اصل خدائی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہوگی جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کرکے اس کا منشا پورا کرنا ہوگا۔“(۴۴)
مولانا مودودی کی طرح ہی سید قطب اپنی مشہور تفسیر ” فی ظلال القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ : وہ ( انسان) اس کی زمین میں ا س کا خلیفہ ہے۔ اور اس خلافت پر اس کو مقرر کرنے والا وہی ( اللہ) ہے۔“(۵۴) ۔ اس تفسیر کے انگریزی ترجمے میں قرآن کی اس آیت کا کہ : ” میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں“ ترجمہ یہ کیا گیا ہے:
Iam going to make my vicegerent on earth-(46)
اس میں myکا اضافہ مترجم نے اپنی طرف سے ( شاید) سید قطب کی فکر کو سامنے رکھ کر کر دیا، ورنہ قرآن میں اس کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز نے سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی کی متفقہ رائے سے اس موقف کی حمایت میں فتویٰ دیا اور مخالف رائے کی تردید کی(۷۴)۔
بہر حال مولانا مودودی کا یہ تصور سراسر اسلام کے خلاف ہے اس لیے اس بنیاد پر یہ نظریہ قائم کرنا کہ:
” یہ ( مسلمان) مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین و مبشرین کی جماعت نہیں، بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے اس پارٹی کے لیے حکومت کے اقتدار پر قبضہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔“(۸۴)
خلافت کے اس تصور کے تعلق سے سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام بنی نوع انسان( مسلم وغیر مسلم) خلیفة اللہ ہونے کی حیثیت میں برابر ہیں تو پھر یہ اختتار صرف ایک گروہ( مسلمان) کو کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دوسرے گروہوں کو اللہ کی حکومت کا شہری بنا کر ان پر حکومت کرے اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرے؟ اس لیے مولانا مودودی قرآن کی دوسری آیات سے مسلمانوں کے اس منصب یا مشن کو اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک آیت یہ ہے :’ ’ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو“(۹۴)۔ ” قائم رکھو“ کے لیے قرآن میں ” ا قیموا“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ا قام کے معنی عربی میں کسی چیز کو اچھی طرح کرنا ، اس کا حق ادا کر دینا کے ہیں۔چنانچہ نما ز کو اچھی طرح ادا کرنے کےحکم کے تعلق سے بارہ جگہ قرآن میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ۔ اس تعلق سے کوئی دوسرا معنی مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ عربی اور اردو کے تمام بڑے مفسرین نے دین کو قائم رکھنے سے دین کی اساسی تعلیمات(خدا کا ایک ہونا، مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، یوم حساب پرایمان لانا، رسالت کو تسلیم کرنا وغیرہ) پر اچھی طرح قائم رہنا یا خود کو قائم رکھنا مراد لیا ہے۔” دین“ سے شروع سے اخیر تک تمام انبیا کے درمیان مشترک دین کا یہی بنیادی تصور مراد ہے نہ کہ کل دین ( شریعت کا عملی ڈھانچہ) گویا اقامت دین ایک انفرادی عمل ہے نہ کہ اجتماعی۔ وہ ہر فرد سے اس کی اپنی ذات سے مطلوب ہے نہ کہ دوسروں کی ذات کے تعلق سے۔ اسلام پسند حلقوں میں اس کا ترجمہ جو ” دین کو قائم اور نافذ کرو“ سے کیا جاتا ہے اس کی کوئی علمی بنیاد اور قرآن و سنت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
خلاصہاوپر کی گئی پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک اخلاقی اور روحانی مذہب ہے۔ وہ کسی سیاسی فکر کا نام نہیں ہے۔ سیاست اسی کا جز ضرور ہے لیکن وہ اس کے Coer Values میں شامل نہیں۔ مذہب ہونے کی حیثیت سے وہ سیاست کے بغیر بھی اتنا ہی مکمل ہے جتنا سیاست کے ساتھ۔ قرآن کی آیات اور رسول اللہ کا عمل اس بات کے واضح دلائل فراہم کرتے ہیں کہ اسلام پلورلزم میں یقین رکھتا ہے۔ وہ کسی کے عقیدے کی بنیاد پر اس کے ساتھ امتیازی برتاﺅ کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کی سیاسی فکر کی تشکیل چونکہ اسلام کے تہذیبی عروج اور غلبے کے دور میں ہوئی تھی اس لیے اس میں ایسے نظریات نے راہ پالی یا بعض نظریات کے ایسے مفہومات نکال لیے گئے جن سے دوسری قوموں کے ساتھ ابدی طورپر جنگ اور کشمکش کو جواز فراہم کر دیا گیا حالانکہ یہ قرآن کی فکر اور اسلام کی روح کے خلاف ہے۔
مولانا مودودی ، سید قطب اور اسی طرح کی بیسویں صدی کی دوسری مسلم شخصیات کی فکر اس دور کے سیاسی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھی۔ انھوں نے اسلام کو سیاست کے تابع کر دیا اور سیاسی اقتدار کے حصول اور اسلامی حکومت کے قیام کو اسلام کا اصل مقصود قرار دے ڈالا۔ یہ ایسی جسارت ہے جو اسلام کی پوری فکری تاریخ میں کبھی نہیں کی گئی۔ اس فکر سے پورے دین کا تصور اپنے مرکز سے ہٹ گیا۔ لیکن یہ بات ذہن مںی رہنی چاہیے کہ در اصل یہ اسلام کی روایتی دینی سیاسی فکر کا انتشار اور غیر معقولیت ہے جس نے جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون سمیت دوسری احیائی تحریکوں کو اسلام کوPoliticiseکرنے کا موقع دیا۔
شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ : رسول اللہ کے انتقال کے ساتھ ہی روم اور فارس کی مہمات شروع ہو گئیں اور عرب کی دماغی اور عملی قوت کا سارا زور مہمات ملکی کی طرف مصروف ہو گیا۔“( مقالات شبلی) اسلام کی دینی سیاسی فکر کے نقائص اور کمزوریوں کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس وقت کی شدید ضرورت ہے کہ اسلام کی روایتی سیاسی فکر پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں مناسب تبدیلی لائی جائے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کے عمل کو متحرک کر کے مذہبی فکر کی نئی تشکیل کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔
حواشی اور فٹ نوٹس
(۱) الخلق عیال اللہ ( بیہقی) (۲) الشوری: ۳۱ (۳) فتح الباری: ۲۷۱/۱ (۴) بخاری حدیث نمبر ۳۱ ، نسائی حدیث نمبر ۹۳۰۵ (۵) نسائی حدیث نمبر ۵۹۹۴ (۶)مشکوٰة : باب الرفق والحیا وحسن الخُلق ص ۴، ۳، ۲ (۷) البقرہ : ۵۹۱، التوبہ : ۶۳ (۸) البقرہ : ۳۹۱، البقرہ : ۷۱۲ (۹) بخاری (۰۱) القصص : ۷۷ (۱۱) بخاری (۲۱) البقرہ : ۶۸۲ (۳۱) آل عمران: ۹۷ (۴۱) بنی اسرائیل :۰۷ (۵۱) در مختار (۶۱) الروم : ۲۲ (۷۱) الججرات: ۳۱ (۸۱) البقرہ: ۶۵۲ (۹۱) الکہف: ۹۲ (۰۲) یونس : ۹ (۱۲) التغابن: ۲ (۲۲) الکافرون : ۶(۳۲) البقرہ: ۹۳۱، القصص : ۵۵ (۴۲)ابن ہشام: السیرة النبویة ۲/۷۴۴ (۵۲) حمید اللہ: خطبات بہاول پورص:۸۱۴ (۶۲) الحج: ۰۴ (۷۲) المائدہ: ۸ (۸۲) النسائ: ۵۳۱ (۹۲) نسائی (۰۳) یوسف قرضاوی: من فقہ الدولة فی الاسلام ص: ۷ (۱۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: اسلام اور بین قوامی تعلقات منظر اور پس منظر ( مصنف کی اصل کتاب عربی میں یہ اس کا اردو ترجمہ ہے جو قاضی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا ہے۔ (۲۳) محمد اقبال: تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ( ترجمہ : نذیر نیازی Reconstruction of Religious thought in Islam )چھٹا خطبہ الاجتہاد فی الاسلام ص :۳۵۲ (۳۳) احیاءعلوم الدین : ۱/۲۲ (۴۳) اقبال افغانی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” یہ غالباً شاہ ولی اللہ تھے جنھوں نے سب سے پہلے ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی۔ لیکن اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا تو سید جمال الدین افغانی کو جو اسلام کی حیات ملی اور حیات ذہنی کی تاریخ میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور ان کی عادات و خصائل کا خوب خوب تجربہ رکھتے تھے۔“ لیکن ان کا زیر حوالہ عادل ڈکٹیٹر کا نظریہ اقبال کی ان کے بارے مںی رائے کے بالکل بر عکس ہے۔ (۵۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: ازمة العقل المسلم ص ۸۳ (۶۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: اسلام اور بین اقوامی تعلقات ص: ۲۹(۷۳) مصطفی ابو زید الناسخ والمنسوخ ۲/۸۰۵ (۸۳) ان دو شخصیات میں سے پہلا نام مولانا وحید الدین خاں کا ہے جنھوں نے اس موضوع پر ” تعبیر کی غلطی ( ۳۶۹۱) “ لکھی اور دوسرا نام مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ہے ۔ ان کی کتاب کا نام ہے” عصر حاضرمیں دین کی تفہیم و تشریح(۸۷۹۱)‘ (۹۳) اسلام کا نظام حیات (۰۴) قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ص: ۰۱ (۱۴) ایضاً (۲۴) القصص: ۰۷ (۳۴) اسلام کا نظام حیات ص ۶۱ (۴۴) ایضاً (۵۴) ص:۷۰۷/۲ (۶۴) ص :۰۱ (۷۴) محمد صبیح الدین انصاری : کیا انسان خلیفة اللہ ہے ص ۱۷۱ (۸۴) مسلمان اور سیاسی کشمکش (۹۴) الشوریٰ: ۳۱ (۰۵) المعجم الوسیط (٭) H.A.R. Gibb : Muhammadanism p.91 ( بحوالہ اسلام اور بین الاقوامی تعلقات ص ۵۳۱)