Monday, December 21, 2009

Musalman aur Maghrib: Bahimi Istefade ki rahian

مسلمان اور مغرب:باہمی استفادے کی راہیں
مسلمان اور مغرب کے آپسی تعلقات کا موضوع پرانا ہونے کے باوجود اس حیثیت سے نیا ہے کہ اس میں نائن الیون کے بعد ایک نیا موڑ آگیا ہے۔ اس کے بعد اس موضوع کی اہمیت مسلم اور مغربی مفکرین کے درمیان بڑھ گئی ہے۔ مشرق و مغرب دونوں میں اس پر بکثرت لکھا اور بولا جارہا ہے۔ مغرب میں فوکویاما کی(دی اینڈ آف دی ہسٹری) اور سموئیل پی ہن ٹنگٹن کی کلیش آف سیویلائزیشن کے پچھلی صدی کے آخری دہائی میں منظرِ عام پر آنے کے بعد مغرب میں ایک بڑا طبقہ اس خیال کا حامی ہوگیا کہ مسلمانوں کے ساتھ مصالحت اور ٹکراو ناگزیر ہے۔ مغرب کے فکر سازاداروں نے اس فکر کو خاص رخ دیا۔ اب انتہا پسند سیاسی یا نیم مذہبی نیم سیاسی جماعتوں نے اسے باضابطہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرکے تحریک کی شکل دے دی ہے۔بعض انتہا پسند یہودی اور عیسائی جماعتیں اس میں پیش پیش ہیں۔ کسی ایک مغربی ملک کی نہیں بلکہ پورے یورپ و امریکہ کی یہی صورتِ حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں تبدیلی کیوں کر پیدا ہو؟ کیا مسلمانوں کے پاس اس تعلق سے کوئی منصوبہ ہے؟ جو اب نفی میں ہے۔
اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اب تک مغرب کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں کے دانش مند طبقے کا مغرب سے متعلق مطالعہ انتہائی محدود اور سطحی ہے ۔مغرب کو سمجھنے میں اصل رکاوٹ ہماری اپنی ذہنیت ہے ۔ یہ ذہنیت عین اس مغربی ذہنیت کے مماثل ہے جو اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے عیسائیوں کے اندر صلیبی جنگوں کے بعدپیدا ہوگئی تھی۔ مسلمانوں نے مغرب کے تعلق سے کچھ ویسے ہی ایسٹیریو ٹائپس بنالےے ہیں جس طرح مغرب نے اس وقت مسلمانوں کے بارے میں بنائے تھے۔ اندزہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت عیسائی مذہبی رہنما عوام کو یہاں تک باور کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ مسلمان تین بتوں:ٹرواگانٹ،اور مہومیٹ کی پوجا کرتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کے مذہبی قائدین اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ باور کراسکیں کہ مغرب صرف نام ہے: شراب نوشی، جنسی آوارگی، عورتوں کی بے مہار آزادی اورفکری اباحیت کا ۔ اس کے نتیجے میں ہمارے یہاں مغرب سے سیکھنے اور اپنی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ مغرب کے توسط سے حاصل کرنے کی جگہ اس سے نفرت اور بے زاری مذہب پسندی کی سب سے بڑی علامت بن گئی۔ مسلمانوں کی اس ذہنیت کی تشکیل عہد استعمار میں ہوئی تھی۔ لازمی طور پر اس عہد کے خاتمے کے بعد اسے ختم ہوجانا چاہےے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں مستقل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اور اب یہ اتنا پختہ ہے کہ اس کو کھرچ کر صاف کرنا مسلمان مصلحین کے بس میں نہیں ہے۔
یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی فکر تاریخ و ثقافت اور مذہب پر تحقیقات کے بلامبالغہ سینکڑوں ادارے قائم ہیں۔ یونی ورسٹیز کے مختلف شعبے اس کے لےے وقف ہیں۔ جن کے نتائج مسلمانوں سے متعلق لا تعداد کتب، رپورٹ اور سروے کی شکل میں دنیا کی تمام لائبریریوں میں موجود ہیں۔ عالمی صحافت میں ان کا غلغلہ ہے لیکن اس کے مقابلے میں مسلم دنیا میں مغرب کے تعلق سے ایسے باضابطہ اور صحیح منہج کے مطابق کام کرنے والے ادارے گنتی کے دوچار بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میںمغرب کو باضابطہ ایک اہم موضوع کے طور پر یونی ورسٹیز کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت تھی۔ ہمارے یہاں بھی فورڈ فاونڈیشن، کارنیگی فاونڈیشن فل برائٹ جیسے ادارے ہونے چاہےے تھے جو خصوصاً مغرب سے متعلق آزاد تحقیقات کے لئے اسکالرس کومالی بجٹ فراہم کریں۔ آئی ایس آئی ایم (ہالینڈ) جیسے ادارے کی ضرورت تھی جو مغربی فکر و ثقافت کے مختلف عناصر پر کھلی تنقیدی لیکن غیر جانب دارانہ بحث کو پروان چڑھائیں۔ تاکہ مسلمان مغرب کی خامیوں اور کمزوریوں کے ساتھ اس کی خوبیوں سے بھی واقف ہوسکےں اور ان کو اختیار کرسکیں۔
کم ازکم علم کو مشرق اور کے خانوں میں تقسیم کرناایک بے معنی سی بات ہے علم ایک یونی ورسل شئے ہے اور یہ پوری انسانیت کی وراثت ہے ۔ تمام انسانی نسلوں نے مل کر اسے اس موجودہ ترقی یافتہ شکل تک پہنچایا ہے۔ جہاں تک تہذیب کی بات ہے، وہ عقیدہ، عمل، تاریخ اور معاشرت تمام چیزوں کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔ اس لےے اس کا ایک حصہ دوسرے مختلف مذہبی اورگروہی تشخص رکھنے والوں کے لےے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا وہ اعتبارات سے وہ دوسرے کے لےے نقصان دہ بھی ہوتا ہے
اس وقت مسلمانوں کی اکثریت مغرب سے متعلق دوہرے معیار کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ ایک طرف وہ مغرب سے نفرت کی مدعی اور اس سے دامن بچانے کی داعی ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ شدید طور پر یہ خواہش رکھتی ہے کہ کس طرح مغربی سرزمین پر اس کو اور اس کے اہلِ خانہ کو قدم جمانے کا موقع مل جائے۔ راقم کے ذاتی مشاہدے کے مطابق ،جو امریکہ میںمقیم بہت سے مسلمان امریکہ کو شیطان اعظم سمجھتے ہیں لیکن اسی شیطان اعظم کے دسترخوان پر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی امریکی شہریت پر فخر کرتے ہیں یا بے تابی کے ساتھ اس کا شہری بننے کے دن گن رہے ہیں۔ اپنی اولاد کا خوش حال مستقبل امریکہ کی سرزمین پر دیکھتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟ سوال یہ ہے کہ آپ اس’ دارالکفر‘ کو چھورڑ کر’ دارالاسلام‘ میں کیوں نہیں بس جاتے؟قرآن میں کہا گیا ہے کہ”:اللہ کی سرزمین وسیع ہے توتم اس میںنقل مکانی کرو“ حقیقت یہ ہے مسلمانوں میں عمومی طور پر معروضی سوچ کی کمی اور مغرب کے تئیں روایتی نفرت کی ذہنیت کی وجہ سے وہ زندگی کے مختلف مادی میدانوں میں اس سے ضروری استفادہ نہ کرسکے۔یہ کوئی پوشیدہ بات نہیںکہایسی بہت سی اجتماعی اقدار جومسلم دنیا میں ان کہیں نہیں پائی جاتیں وہ مغربی معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ اجتماعی سطح پر اسلام اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے لےے خود اسلامی ملکوں کی سر زمین کس قدر تنگ ہے۔سچائی ،امانت و اخلاق ،معاملے کی صفائی اور خدمت خلق کا ہمارے یہاں کیا حال ہے؟
مغرب میں ہمارا سارا زور صرف اپنی تہذیبی شناخت کے منوانے پر ہے۔ ساری قوت اسی پر خرچ ہورہی ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا مسلم مسائل کی فہرست میں حجاب ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے؟ مغرب میںحجاب کی لڑائی لڑنے والوں کا رویہ ایسا لگتاہے کہ جیسے اسلام کی ساری دینی و اخلاقی تعلیم صرف حجاب میں محصور ہوکر رہ گئی ہو۔ یورپ کی سرزمین پربعض مسلم تنظیمیں اسلامی حکومت کے قیام اور بائبل کو ہٹا کر قرآن تک کو لانے کی بات کہتی ہیں (جیسا کہ تنظیم ”المجاہدون“ کے سربراہ عمر البکری کادعوی ہے)مطلوبہ جگہ پر مسجد کے قیام کی اجازت نہ ملنے پر زمین و آسمان کو سر پر اٹھا لیا جاتا ہے لیکن ایک لمحہ کے لےے یہ سوچنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ کیا یہ سب مواقع اور سہولیات ہمیں’ دارالاسلام‘ میں بھی حاصل ہیں؟
مغرب کے ساتھ مسلمانوں کا اصل مقابلہ اس وقت فکری میدانوں میں ہے۔ عسکری میدان میں ہم دو سو سال سے شکست کھائے بیٹھے ہیں ۔ مغرب کو ہم اپنا دشمن اور حریف سمجھتے ہیں۔ بہت بڑی تعداد مغرب کو دارالحرب تک تصور کرتی ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ اپنے ”دشمنوں“ سے لڑنے کے لےے ہم دشمنوں ہی اسلحہ اور فوجی ٹکنالوجی خریدنے پر مجبور ہیں۔ناطقہ سر بہ گریباں ہیںاسے کیا کہئے۔
دفاع اور مقابلہ آرائی کی اصل ضرورت پہلے ہمیں فکر کے میدانوں میں ہے۔ اس کے لےے ’حریف صحیح اور سنجیدہ شعورکی پرورش کے لےے مسلمانوں کے درمیان مستشرقین کی طرح ’مستغربین‘ (اوکسیڈنٹلسٹس)کی ضرورت ہے۔ اس معنی میں نہیں کہ وہ صرف مغرب کی اندھی نقالی کرنے والے ہوں اور اس کی ظاہری چمک دمک پر فریفتہ۔ جیسا کہ اس کی وقت عام صورت حال ہے بلکہ دانش مندوں کا ایسا طبقہ جو مغرب کی خامیوں اور خوبیوں دونوں کو واضح طور پر غیر جانب داری کے ساتھ سامنے لاسکے۔ مستشرقین کی اکثریت نے اسلام اور مسلمانوںکے تعلق سے ایسا نہیں کیا۔ کےوں کہ جیسا کہ ایڈورڈ سعید نے اورینٹلزم میں ثابت کیا ہے وہ سامراج کا ہراول دستہ تھی۔ البتہ بہت سے لوگ ان میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔
چند سال قبل میںنے ڈیوک یونی ورسٹی(امریکہ) کے ایک مسلم پروفیسر سے مغرب میں مسلمانوں کے مستقبل سے متعلق سوال کیا کہ وہ اسے کس زاوےے سے دیکھتے ہیں ۔ انھوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ بہت مایوس کن تھا۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مستقبل میں مغربی ممالک مسلمانوں سے اپنی سرزمین کو ’پاک‘ کرنے کا فیصلہ تک کرسکتے ہیں۔میرے خیال میں یہ بات تقریبا نا ممکن ہے۔ جس طرح مسلمان مغربی ممالک سے تعلق توڑ کر نہیں جی سکتے بالکل اسی طرح مغربی ممالک کے بہت سے اہم اور بنیادی مفادات کی تکمیل مسلم ممالک سے تعلق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔مسلمان اس وقت مغرب کے ’ورک فورس‘ کا اہم حصہ ہیں۔یوروپی ممالک کے کئی ایک سربراہوں کو اس بات کا اعتراف ہے کہ مغرب کی ترقیات میںمسلمانوں نے اہم حصہ ادا کیا ہے۔مغرب کے جدید سائنسی علوم وافکارکی بنیادعہد اسلامی کی سائنس پررکھی گئی ہے۔اس لےے دونوں ہی کے مفادات میں یہ شامل ہے کہ یہ نفرت کی فضا جلد ازجلد ختم ہو۔ بدقسمتی سے مغرب میں رہنے والے بعض مسلمانوںاور مسلم جماعتوں کی سادہ لوحی اور ان کی بے جا انانیت کے ساتھ مغرب ممالک کی بعض سیاسی و مذہبی حلقوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف برتا جانے والا تعصب نفرت کی اس فضا کو بڑھا رہا ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی سنت یہ رہی ہے کہ نارمل حالات کے قیام کے لےے آگے بڑھ کر خود حریف کی شرطوں پر کشمکش کی صورتِ حال ختم کردی جائے۔ یہی مسلمانوں کو بہر حال کرنا چاہےے۔ بشرطیکہ دین کا ضروری حصہ اس سے ضائع نہ ہو اور بہرحال اس کا امکان کم ہے۔رسول اللہ کے اس قول کے مطابق کہ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے؛ اس تہذیب کے قابلِ قدر عناصر سے اپنی تہذیب کو مالا مال کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

No comments:

Post a Comment