Thursday, December 17, 2009

Iqdami jihad ka nazriya: Chand qabil-e- ghaur nikat

اقدامی جہاد کانظریہ:چند قابل غور نکات
اسلام کے نظریہ جہاد میں پائے جانے والے اختلال و انتشار کا ایک بڑا مظہر اقدامی جہاد کا تصور ہے۔فقہا ومحدثین کی اصطلاح میں اسے جہاد الطلب کہا جاتا ہے۔عربی میں آج کل اس کے لےے الجہاد الھجومی یا جہاد المہاجمہ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔دفاعی جہاد کے مقابلے میں،جو دشمن کی جارحیت اور سرکشی کے دفاع کے لےے کیا جاتا ہے،جہاداقدامی کا تصور یہ ہے کہ اسلام کے اظہار وغلبے اور کفر کی شوکت کو توڑنے کے لےے اقدامی جہاد نہ صرف جائز بلکہ امت پر فرض کفایہ ہے ۔اس سے مستثنی وہ حکومتیں ہیں جن کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو لیکن فقہا کا غالب نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ معاہدہ وقتی اور ایسی صورت میں کیا جائے گا جبکہ مسلم حکومت کے اندرمنکرین کے ساتھ قتال کی قوت نہ ہو۔اس نظریے کے تحت غیر مسلم حکومتوں کو تین میںسے کوئی ایک اختیار حاصل ہے:(۱) وہ اسلام قبول کرلیں (۲) اسلام کی ماتحتی میںجزیہ دینا منظور کرلیں (۳) یاپھر قتال کے لےے تیار ہوجائیں۔اس کی دلیل میں قرآن کی جو آیات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے چند آیتیں یہ ہیں:”اہل کتاب میںسے جولوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روزآخرت پر،نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیںجو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھیرائی ہیںاور نہ دین حق کو اختیار کر تے ہیں،ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے لگیں اس حال میںکہ وہ زیر دست ہو کر رہیں(التوبہ:۲۹)۔”ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ مٹ نہ جائے اوراللہ کادین غالب نہ آجائے“(البقرہ:۱۹۳)”اے ایمان والو!ان منکرین حق سے جنگ کر و جو تم سے قریب ہیںاور چاہےے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں(التوبہ:۱۲۳) وغیرہ۔
ان میں سے پہلی آیت جسے آیت السیف کہا جاتا ہے اس کے بارے میں ایک جماعت یہ راے رکھتی ہے کہ اس آیت نے تقریبا ان تمام آیتوں کو منسوخ کر دیا ہے جن میں غیر مسلموں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے ،ان سے اعراض کرنے اوران کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اس طرح اس نظرےے کے تحت قرآن کی تقریبا ۱۴۰ آیتیں منسوخ قرار پاتی ہیں۔ فقہا ومحدثین، اسلامی سیاست کوموضوع بنانے والے مفکرین کی اکثریت جہاددالطلب یا جہاد اقدامی کی قائل رہی ہے اور اب بھی معمولی استثنا کے ساتھ علما اور اہل فقہ کی اکثریت نہ صرف اس کی قائل ہے بل کہ وہ اسے تقریبا ایک اجماعی امر تصور کرتی ہے۔ بر صغیر ہند میںاس نظرےے کو زیادہ شدت اور مبالغے کے ساتھ مولانا مودودی نے پیش کیا۔عرب علما میں سلفی علما اس تعلق سے سب سے زیادہ پرجوش ہیں۔انٹرنیٹ پر ہزاروں صفحات میں اس کی حمایت میں تحریریں اور کتابیںموجود ہیں۔اس میںشک نہیںکہ موجودہ دور کی انقلابی اور جہادی جماعتوں کواس تصور سے بھرپور شہ حاصل ہوئی ہے۔
ا لبتہ شروع سے ایک جماعت اس کی بھی قائل رہی ہے کہ اسلام میں جنگ کی حیثیت عموم کی نہیں صرف استثنا کی ہے اور وہ صرف دفاع کے لےے مشروع کی گئی ہے۔سلف صالحین میں اس ضمن میں سب سے اہم نام حضرت اما م سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ان کے علاوہ، ابن شبرمہ،عطا ،عمر ابن دینار اورایک روایت کے مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی اس کے قائل رہے ہیں۔ متاخرین میں مفتی محمد عبدہ ، ان کے شاگرد علامہ درشید رضا،عبدالرحمان عزام ،علامہ مصطفی سباعی ،احمد امین ،محمو د عقاد،شیخ محمد الغزالی اور ہندوستانی علما میں علامہ شبلی نعمانی ان کے علاوہ چراغ علی اس کے قائلین میں تھے۔موجودہ دور میں مشہور شامی فقیہ علامہ وہبہ زحیلی،شیخ یوسف قرضاوی وغیرہ شدت کے ساتھ اس نظرےے کی حمایت کرتے ہیں۔شیخ یوسف قرضا وی کی جہاد کے موضوع پر تازہ کتاب” فقہ الجہاد “میں اس کو ہر اعتبار سے مدلل بناکر پیش کیا گیا ہے۔اس وقت عرب ممالک کے علمی حلقوں میں یہ کتاب خصوصی بحث مباحثے کا موضوع ہے۔
اس نظرےے کے قائلین کے مطابق، منکرین سے قتال کی علت کفر نہیںبلکہ ان کی طرف سے جارحانہ اقدام( محاربہ) ہے ۔وہ اس کی دلیل کے طور پر ان آیات کہ پیش کرتے ہیں جن میں ظلم و جارحیت کے جواب میںقتال کی اجازت دی دی گئی ہے۔جیسے: ”اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو جنھوں نے تمہارے ساتھ جنگ کی اورزیادتی نہ کرو اس لےے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(البقرہ:۱۹۰)“”مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں “(توبہ:۳۶)اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیو ں کہ وہ مظلوم ہیں(الحج:۳۹) وغیرہ۔
بحث کا اہم اور مرکزی نقطہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی بنیاد کیاہے؟اور یہ کہ اسلام میںجہاد (بمعنی قتال)کی حیثیت کیا ہے؟فقہا ومفسرین کی اکثریت غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کی اصل بنیاد جنگ کو قرار دیتی ہے اور اس وقت تک غیر مسلموں کے ساتھ قتال کی ضرورت پر زور دیتی ہے جب تک کہ تمام دوسرے ادیان پر اسلام کاغلبہ مستحکم نہ ہوجائے اور چوں کہ ایسا صرف قرب قیامت میں ہوگا اس لےے یہ قتال قیامت تک جاری رہے گا۔( معارف القرآن:مفتی محمد شفیع ج:۴ص:۲۳۳)اس طرح قتال کی علت اس جماعت کے نزدیک اصلا کفر و شرک ہے۔ امام شافعی اور بعض دوسرے فقہا کا نظریہ اس تعلق سے مزید انقلابی نوعیت کا ہے۔وہ جزیے کی بنیاد پر جاں بخشی کی ضمانت بھی صرف اہل کتاب کو دیتے ہیں۔دوسروں کے لےے ان کی نظر میں صرف دو انتخاب ہے: اسلام یا قتل(اما الاسلام و اما القتل)۔
جہاد اقدامی پر دو حیثیتوں سے سنجیدہ بحث و مباحثے اور غور و فکر کی ضرورت ہے: ایک اس حیثیت سے کہ دین کی اصولی تعلیمات اور اس کے نظام رحمت وعدل کے مزاج سے یہ نظریہ کس حد تک مطابقت رکھتا ہے؟دوسرے اس حیثیت سے کہ موجودہ دور میں جب کہ تمام ملکوں کی سرحدیں طے ہوچکی ہیں،دنیا کے تمام ملکوں کے قوانین میں جنگ کو ایک شر محض تصور کیا جاتا ہے،قوموں کی آزادی و خود مختاری ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے ۔کیا اس نظرےے کی گنجائش (اگر وہ پہلے تھی توکیا اب بھی)باقی رہ جاتی ہے(کیوں کہ اصول فقہ کے اعتبار سے زمانے کی تبدیلی سے فتوی تبدیل ہوسکتاہے) اور کیا اس کا انطباق ممکن بھی ہے اور ممکن ہونے کی صورت میں اس سے اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی عزت و سر فرازی کی امید کی جاسکتی ہے یا اس کے برعکس نتیجے کی؟
اسلام میں اصول کے طور پریہ باتیں کہی گئی ہیں کہ :” دین میں کوئی جبر واکراہ نہیںہے“(لا اکراہ فی الدین۔ البقرہ:۲۵۶)” مسلمانوں کا دین مسلمانوں کے لےے ہے اورمنکروں کا دین منکروں کے لےے“(الکافرون :۶)”جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لےے ہدایت حاصل کرتا ہے اور جوگمراہی کی راہ اختیار کرتا ہے اس کا وبا ل اس کے اپنے سر ہے“(یونس:۱۰۸)”رسول کو اس کی اجازت نہیںکہ و ہ اس پر جبر کرے اس کی حیثیت محض نصیحت اور فہمائش کر نے والے کی ہے“(الغاشیہ :۲۱،۲۲)”اور یہ کہ یہ اللہ کے علم میںہے کہ وہ ان پر رحم کرے گا یاانھیں عذاب دے گا“(الاسرا:۵۴) ۔
نظرےے یا عقیدے کی بنیاد پرکسی قوم کے خلاف جنگ چھیڑنااور اس پر اپنی حکم رانی کو مسلط کرناعقل عام کے مطابق اکراہ اور جبر کی ہی ایک شکل ہے۔قرآن میںدوسری قوموں کے ساتھ عدل و انصاف کی تاکید کی گئی ہے اس صورت میںاسلام کے عدل وانصاف کے دعوے کوکون قبول کرے گا؟رواداری تو یہ کہ جس طرح اور جن صورتوں کے ساتھ دوسرے ہمیںبرداشت کررہے ہیں اسی طرح ہم بھی انہیں برداشت کریں ،جو آزادی وہ ہمیں دینے کے لےے تیا ر ہیںہم بھی انھیں دینے پررضا مند ہوں ۔رسول اللہ کے رحمت للعالمین ہونے کا مطلب دوسری قوموں کے ساتھ امن اور اخوت کی بنیاد پرخوش گوار تعلقات کا قیام ہے نہ کہ جنگ وجدال کی بنیاد پر ان کے دلوں میں اسلام کے تئیںبغض ونفرت کی پرورش کرنا۔
قرآن کے مطابق جہاد بمعنی قتال کی دو صورتیںہیں: ایک دفاع کے لےے اوردوسرے فتنے کے خاتمے کے لےے۔قرآن کی آیت میں فتنے سے مراد وہ صورت حال ہے جو بندگان خدا کے قبول حق کی راہ میں مانع بنتی اوردین کی تبلیغ واشاعت میںمزاحم ہوتی ہے ۔دور نبوی اور خلافت راشدہ میں جو بھی جنگیں ہوئیں وہ یا تودفاع کے لےے تھیں یاپھر اسی فتنے کے خاتمے کے لےے۔جس کے لےے قتال کرنا رسول اللہ پر فرض تھا اور عام امتی کے لےے فرص کفایہ۔رسول اللہ کے لےے بھی یہ فرضیت عرب یا قریش مکہ کے لےے تھی جیساکہ امام اوزاعی وغیرہ کی راےے ہے۔امام شافعی اور چنددیگر فقہا کے علاوہ اکثر فقہا بہر حال اس سے متفق ہیںکہ جن آیات واحادیث میں دوسروں سے ان کے اسلام قبول کرلینے کے وقت تک قتال کی بات کہی گئی ہے۔اس سے مراد صرف مشرکین عرب ہیں۔جہاد کے تصور میں انتشار کے دیگر اہم پہلووں میںسے ایک پہلویہی ہے کہ بعض وہ احکام جو صرف قریش مکہ یا مشرکین عرب کے لےے خاص تھے انھیںعمومی حیثیت دے دی گئی۔یہ اہم سوال ہے کہ فتنے کے خاتمے کے لےے جو جنگ مشروع کی گئی تھی کیا اس کا اطلاق اب بھی باقی ہے؟کیوں کہ فتنے سے واضح طور پر اس وقت عرب اور ساری دنیامیںپائی جانے والی وہ غالب صورت حا ل مراد ہے جس میںعوام کو مذہب کی آزادی حاصل نہیں تھی۔حکم رانوں کو اپنی قوم پر اس درجے کی مطلق العنانی حاصل تھی کہ وہ حکم رانوں کی مرضی سے الگ ہٹ کردوسر کوئی ا مذہب یا عقیدہ اختیار نہیں کر سکتے تھے۔لیکن اب دنیا کی سیاسی صورت حال یکسر بدل چکی ہے ۔دنیا کی تمام اقوام کے لےے دینی ومذہبی آزادی ایک مسلمہ واقعہ بن چکی ہے ۔ہر قوم کو اپنے مذہبی نظریات پت کھل کر عمل کرنے اور اس کی دعوت و اشاعت کی اجازت حاصل ہے ۔
اس لےے اب موجودہ صورت حال میںاسلامی نظریے اور اصول کے مطابق صرف ایک جہاد کی گنجائش سمجھ میں آتی ہے اور وہ دفاعی جہاد ہے ،تاوقتیکہ کہ فتنے کی ویسی ہی صورت حال دوبارہ قائم ہوجائے کہ جس میں مذہبی آزادی کی کوئی ضمانت نہ ہو۔جہاد اقدامی اور جہاد دفاعی میں تطبیق کی بہتر صورت یہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا بھی کسی طرح غلط نہیں کہ اسلام میں صرف دفاع کے لےے جہاد کی اجازت دی گئی ہے ۔کیوں کہ فتنے کے لےے جہاد کی صورت ایک استثنائی صورت ہے ۔خدا کے علم یہ بات بلاشبہ تھی کہ یہ صورت حال اسلام کے بعد باقی نہیں ہے گی کہ اسلام بنیادی طور پراسی فتنے کے خاتمے کے لےے آیا تھا۔قرآن و حدیث میں اظہار دین اور اعلا ے کلمة اللہ سے اسلام کا نظریاتی غلبہ مراد ہے نہ کہ سیاسی ۔ورنہ دوسری صورت میں یہ تکلیف مالا یطاق کی صورت ہے جس کا اسلام حکم نہیں دے سکتا۔
بہر حال اسلامی جہاد کا روایتی تصور اصحاب فکر ونظر کی توجہ کا متقاضی ہے۔اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔کیوں کہ دوسری صورت میں ہم دوسروں کویہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اسلام پر یہ الزام لگائیں کہ وہ دنیا میںتلوار کے زور پر پھیلا اور یہ کہ اسلام کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے جیسا کہ گاندھی جی نے کہا تھا۔جہاد اقدامی کے قائلین اس کو حفاظت خود اختیاری کی پیشگی شکل قرار دیتے ہیںیعنی کفر کے زور ودبدبہ کو پیشگی طور پر توڑدینا اس لےے ضروری ہے کہ وہ مستقبل میں اسلام اور اسلامی حکومت کے لےے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے۔علامہ یوسف قرضاوی کے مطابق یہ تو عین وہی نظریہ ہے جو آج کی ا مپریل طاقتیں ،خصوصا امریکہ کمزور ملکوں پر حملوںکے جوازمیں پیش کرتا ہے۔پھرہم کس طرح ان ظالم طاقتوں کے ظلم وجارحیت پر انصاف کی دہائی دے سکتے ہےں۔یہ تو اپنی تلوار کواپنے دشمنوں کے ہاتھوں میںدینا ہے کہ وہ شوق سے اس سے ہم پر وار کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ کسی بھی طرح نہ تواسلام کے رحمت وعدل کے تصور سے ہم آہنگ ہے اور نہ عقل اور فطرت کے تقاضوں سے۔

No comments:

Post a Comment