Monday, December 28, 2009

مسلمان ، میلی ٹینسی اور جہادی تحریکات
اسلامی سیاست کی شروعات اس نکتے سے ہوتی ہے کہ اسلام صرف فرد کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو وہ محض فردکی اپنی خواہشات کا قیدی بن کر رہ جائے گا۔ جیسا کہ مغرب میں ہوا۔اسلام ایک نظام حیات ہے۔وہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔لیکن اس کے لےے وہ جبر(compulsion (کا نہیں بل کہ قائل کرنے (convincing)کا طریقہ اختیا ر کرتا ہے۔ اسلام کا دستور اہلِ اسلام کے لےے ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو اس کا قائل کرنے یا ان پر اس کے نفاذ کی کوشش کریں۔ خودمسلمانوں پر بھی ریا ست کی طرف سے سختی کا جواز اس وقت ہوگا جبکہ متعلقہ لوگوں کو سمجھنے،سمجھانے اور پرامن ذرائع سے قائل ومطمئن کرنے کی پوری کوشش کی جاچکی ہو لیکن وہ سرکشی اور ماحول کو خراب کرنے پر آمادہ ہوں۔اسلام میں ارتداد کے مسئلے کی حقیقت بھی ہے کہ اس کی سزا کا نفاذ ان لوگوں سے متعلق ہے جن کی باغیا نہ روش سے اسلامی نظام کو خطرہ درپیش ہو۔علامہ یو سف قرضاوی نے اپنی کتاب ‘’فی فقہ الاولیات “میں اس کی وضاحت کی ہے۔

اسلام ایک تکثیریت پسند مذہب ہے۔اسلامی اجتماعیت بقاے باہم کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اسلام کی اجتماعی وسیاسی تاریخ کی بنیاد اسی پر پڑی ہے۔ چناںچہ اسلام کی پہلی حکومت جس کی پیغمبراسلام کے ہاتھوں بنیاد پڑی، اس کی سب سے اہم مثال ہے۔ یہی اصل نظری و عملی معیار ہے۔ دوسری صورت کی جو مثالیں تاریخ میں ملتی ہیںان کا تعلق زیادہ تر بعض وقتی مصالح اور ماحولیاتی تقاضوں سے ہے۔ورنہ اس بات کا کوئی عقلی جوازتلاش کرنا ممکن نہیں کہ وہی عمرفاروق جوذمیوں کی فرمائش پر ان سے جزےے کی بجائے ٹیکس وصول کرتے ہیں ،وہی انہیں قرآن پڑھنے کی بھی ممانعت کردیں جیساکہ شامی عیسائیوں کے ساتھ معاہدے میں دوسری بہت سی قابل حیرت شقوں کے ساتھ اس کا بھی تذکرہ ملتا ہے اسی لےے بعض محققین اس معاہدے کی عبارت کو مستند تصور نہیں کرتے۔دیکھئے (مصطفی سباعی کی کتاب: نظام السلم والحرب فی الاسلام )۔بدقسمتی سے اسلام کی تہذیبی تاریخ کچھ اس انداز میں مرتب کردی گئی ہے کہ وہ خالص سیاسی تاریخ نظر آتی ہے۔ حتی کہ پیغمبر اسلام کی سیرت لکھنے والوں نے بھی آپ کو ایک بڑے غازی کی شکل میں پیش کرنے میں زیادہ فخر محسوس کیا۔ چناںچہ ابتداءً رسول اللہ کی سیرت کو ”مغازی“ ہی کہا جاتا تھا۔ حدیث کی کتابوں میں بھی آپ کی شخصیت کے اسی جزوی پہلو پر زیادہ زور دیا گیا۔ حالاںکہ قرآن میں آپ کو کہیں بھی غازی یا مجاہد کے لقب سے نہیں پکارا گیا۔ اس کی جگہ آپ کو ”مزمل“ اور ”مدثر“ (چادر میں لپٹنے والے) کہا گیا کیوں کہ آپ چادر میں لپٹ کر شب و روز خاموشی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔رسول اللہ کا طریقہ فرد کی تعمیر کا تھا۔ افراد کے دلوں کو جگانے اورمردہ روحوں کو زندہ کرنے کا تھا۔ جس کا طریقہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعوت و تبلیغ تھی اور بس! اس لےے قرآن میں برابر آپ کو یہ تلقین کی جاتی رہی ہے کہ آپ لوگوں پر داروغہ (حاکم) نہیں ہیں۔ آپ کو لوگوں پر زبردستی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان کا اس تعلق سے معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس کی سزا و جزا کا فیصلہ وہ کرے گا۔لیکن موجودہ دور میں بعض اسلامی تحریکات لوگوں کے ساتھ جبر کا رویہ اختیار کیا اس کی سب سے اہم مثال طالبان کی حکومت کا رویہ ہے۔ یہی رویہ پاکستان کے بعض انقلابی روح رکھنے والے افراد اور جماعتوں نے اختیار کیا اور کر رکھا ہے۔لال مسجدکا واقعہ اس دور کاسب سے عبرت ناک واقعہ ہے۔ یہ تحریکات ردِ عمل کی نفسیات کے ساتھ میدان میں آئیں، اس لےے وہ شدید طور پر افراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ گئیں۔ انتقامی ذہنیت کے تحت اپنے ’اسلامی عمل‘ کے لےے انھوں نے ایسی سخت ممنوع چیزوں کو بھی جائز ٹھہرالیا جن سے اسلام کے دین انسانیت ہونے کی امیج پر زد پڑتی ہے۔ دراصل اسلام کی سیاسی فکر میں پائے جانے والے اس کمزور نظرےے نے مسلمانوں کی پستی اور زوال کے دور میں آگ پر تیل کا کام کیا کہ اسلام کے دوسرے مذاہب پر غالب ہونے (قرآن کی اصطلاح میں ”اظہار دین “)کا مطلب سیاسی بالادستی کا حصول ہے۔ حالاں کہ یہ سراسر عقل اور واقعے کے خلاف ہے۔محققین کا یہ نقطہ نظر نہیں ان کی نظر میںقرآن و حدیث میں اس سے مراد اسلام کا نظریاتی غلبہ ہے لیکن اسے سیاسی معنی پہنا کر اسے مسلم امہ کا بنیادی نشانہ بنادیا گیا۔ ہمارے اسلامی شاعروں اور واعظوں نے اسے غالب مسلم فکر کا حصہ بنانے اور مسلمانوں کے ذہنوں میں اسے پیوست کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ دورِ زوال میں اس نشانے کے پورا ہونے کا خواب کسی بھی طرح شرمندہ تعبیرہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس لےے مایوسی یقینی تھی۔ اس پر مزید نئی سامراجی اور امپریل طاقتوں کی مسلمانوں کو مٹا دینے یا غلام بنالینے کی پالیسی ہے۔ جس کے مظاہر افغانستان، عراق، فلسطین سمیت پورے عالمِ اسلام میں نظر آرہے ہیں۔

مسلمانوں کی جہادی تنظیموں کی اکثریت اس وقت اسلام کے نام پر غیر اسلامی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔ ان کی حرکتوں سے اسلام بدنام ہورہا ہے۔ دنیا میں ان کے لےے جگہ تنگ ہورہی ہے۔مسلم قوم کمزور ہورہی ہے۔ خود مسلم ملکوںکے لےے یہ تنظیمیں سردرد بنی ہوئی ہیں۔ سعودی عرب سمیت مختلف عرب اور وسط ایشیائی ممالک میں ہزاروں مسلم اکٹووسٹ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہیں۔ ظاہر ہے یہ سارے الزامات صحیح نہیں ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں بے قصور بھی شامل ہیں۔ غیر جمہوری شخصی حکومتوں نے یہاں عوام کی زبانوں پر تالے لگادےے ہیں، تاہم ان میں ایک بڑی تعداد وہ ہے جو حکومتی نظام میں تبدیلی لانے کے لےے تشدد کی کسی بھی غیر انسانی حدتک جانے کو تیار ہے، حالاںکہ اسلام میں صرف ”کفر بواح“ (کھلا کفر) کے سامنے آنے کی صورت میں تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ صورت حال کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔اس وجہ سے ایسی تمام کوششوں کا نتیجہ اسلا می دعوت کے امکانات کی مزید تباہی اور اس کی راہوں میں پیدا ہونے والی چنددر چند مشکلات کی شکل میںسامنے آرہا ہے۔

تاہم اسی کے ساتھ ایک حوصلہ افزا امر بھی سامنے آیا ہے کہ عربوں میں ایک بہت بڑی تعداد اپنے سابقہ تشدد پسندانہ نظرےے اورعمل سے توبہ کرکے پیس فل اکٹوزم کی وکالت کررہی ہے۔ ”مراجعات جھادیہ“ (جہاد ی اکٹوزم سے رجوع )کے عنوان سے ان کے خیالات شائع ہورہے ہیں۔مصر کی کئی ایک تشدد پسند جماعتوں :الجہاد الاسلامی ،الجامعہ الاسلامیةاسی طرح،المجاہدون اور حزب التحریر وغیرہ سے وابستہ افراد نے حالیہ دنوںمیں تائب ہونے کا اعلان کیا ہے۔

حالیہ دنوں میں بعض مسلم تحریکات اورمغربی حکومتوںکے درمیان آویزش کی صورت حال قائم ہوگئی ہے۔ اس پرقابو پانے کے لےے تین سطحوں پر کوششوں کی ضرورت ہے:۔
(1)
روایتی مسلم سیاسی فکر میں مناسب ترمیم و اصلاح۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:۔٭ متحدہ قومیت کے تصور کو اسلامی بنیادوں پر تسلیم کرتے ہوئے اس حوالے سے پوری دنیا کوایک دارالمعاہدہ ہونے کا برملا طور پر علما کی تمام جماعتوں کی طرف سے اعلان واعتراف کیاجائے اور اس تناظر میں قومی جنگوں کو(جو بلاشبہ اپنے ملک کے دفاع میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہیں) جہاد کا نام دینے کو غیر اسلامی قرار دیا جائے۔کیوں کہ اس تعلق سے غیر اسلامی بلکہ بسا اوقات غیر انسانی سلوک واقدامات سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔

٭ سیکو لر زم کو اس کے مغربی مفہوم سے الگ کرکے ، جس کے تحت وہ مذہب کےخلاف بل کہ اس کے بر عکس نظر آتا ایک ایسے نظرےے کے طور پر متعارف کرانے کوشش کی جائے جس کا دین کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ یہ ایک تکثیری سماج میں مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور سیاسی دائرے سے الگ تمام مذاہب کویکساں اہمیت و آزادی دینے سے عبارت ہے۔ اسی طرح تکثیریت سے متعلق اسلام کے روایتی دینی حلقوں میں پائے جانے فکری دھندلکوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

٭جہاد کے معنیٰ کو قتال سے عام کیا جائے اور اسے اسلامی سرگرمیوں کے پُر امن ذریعہ کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ قتال کے معنی میں جہاد ایک دفاعی عمل ہے۔ اسلام میں کسی اقدامی جنگ کا تصور نہیں ہے یہ اسلام کے واضح اور یونیورسل تصور عدل کے خلاف ہے۔اس سے ظالم قوتوں کے preemtive war کے تصور کوتقویت ملتی ہے۔

٭ دوفریقوںکے درمیان تنازع اورکش مکش کی صورت حال کو ختم کرنے کے لےے کم سے کم مشتر کہ بنیاد پر باہم ڈائلاگ کے نظرےے اور عمل کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہےے۔ اوریہ کہ جنگ و جدال ڈائیلاگ کوششوں کی ہر طرح سے ناکامی کے بعد دو آپشنوں میں سے ایک آپشن ہے: اور پہلا آپشن صبر ہے۔

٭ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے مفہوم کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ فقہ الاقلیات کے تحت اس موضوع پر غوروخوض کیا جانا چاہےے۔ قدیم فقہا کے یہاں اس سلسلے میں غلو پایا جاتا ہے۔ قرآن کی بعض آیات جن میں مخصوص حالات میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی کا تعلق قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض احادیث (مثلاً وہ حدیث جس میں دیگر قوموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے) کی روایتی تفسیر و توضیح سے ہٹ کر جن کے تحت اکثر حالات میں غیر مسلموں سے دوری بنائے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ موجودہ حالات اور تجربات کی روشنی میں تفسیر و توضیح کی ضرورت ہے۔

یہ اور اس طرح کی بہت سی دوسری چیزیں ہیں جن پرازِ سر نو غوروخوض کرکے اسلامی فکر کی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی فکر کی تشکیل جدید کا کام اپنے ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ برصغیر ہند میں اقبال کے بعد کوئی دوسری ایسی شخصیت پیدا نہ ہوسکی۔ خود عربوں میں مفتی محمد عبدہ کی فکری اصلاحی تحریک جس زور و قوت کے ساتھ ابتدا میں آگے بڑھی تھی آگے چل کر اسے عبدہ اور رشید رضا جیسے روشن دماغ اور عالی ظرف اصحاب علم میسر نہ آسکے۔
(2)
موجودہ کشمکش کے خاتمے کے لےے دوسری چیز مغربی سیاسی طاقتوں کا جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے، مسلم ممالک کے تعلق سے اپنی جارحانہ اور جابرانہ روےے اور غاصبانہ پالیسی پر نظر ثانی اور اپنے انسانیت کش اقدامات سے باز آنا ہے۔ اس کی فوری صورت یہ ہے کہ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضہ ختم ہو۔ اس کی اور دوسرے ممالک کی فوجیں وہاں سے واپس جائیں۔ فلسطین میں مسلمانوں کا اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل و خون بند ہو اور قضیہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کیا جائے۔ امریکہ اسرائیل کی سرپرستی بند کرے اور اس کو اس کی غیر انسانی حرکات سے باز رکھنے کا ذمہ لے ۔ اگر بڑی طاقتوں سے یہ ممکن نہیں ہے تو اس کے بغیر مسلمانوں میں ریڈی کلزم کے فروغ کو روکا نہیں جاسکتا ۔ مایوسی اورجھلاہٹ کمزور قوم کے لےے سب سے اہم ہتھیار کا کام کرتی ہے۔
(3)
تیسری چیز موجودہ مسلم ملکوں میں صحیح جمہوری فضا کی بحالی ہے۔ مسلمانوں میں خاندانی، اقتدار پسنداور مغرب نواز حکومتیں اپنے مفادات کے لےے شہریوں کے حقوق کو بری طرح پامال کرتی ہیں۔ ان مسلم حکم رانوں کا محاسبہ ہونا چاہےے۔ ان کو ان کی من مانی، قومی دولت کے بے دریغ استعمال سے روکا جانا چاہےے، جو حساس شہریوں کے دلوں میں کانٹے چبھوتی ہیں۔

غرض ہم صرف ریڈیکل اور جہادی اسلامی تحریکات کی اصلاح اور ان کو صحیح رخ پر لانے کی بات کرکے ہی موجودہ صورتِ حال کوتبدیل نہیںکرسکتے ۔اس کے لےے موجودہ سیاسی نظامات میں،خواہ ا س کا تعلق غیر مسلم ممالک سے ہویا مسلم ممالک سے ، عملی سطح پر عدل و انصاف کے تصورات کو بحال کر نے کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment