Thursday, December 17, 2009

Fidai hamle ki sharayee haisiat

فدائی حملے کی شرعی حیثیت
موجودہ دور میں فدائی حملے کا مظہر(phenomenon) تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے، جس سے بعض ملکوں کی داخلی سلامتی، پُرامن شہریوں کی جان و املاک کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اس وقت پاکستان ان ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں اس طرح کے حملے روز مرہ کا معمول بن کر رہ گئے ہیں اور ان کی زد سے خانہ خدا، یعنی مساجد تک محفوظ نہیں رہ گئی ہیں۔اسلام کے نام پر اسلام کو ڈھانے اور بدنام کرنے کا اس سے زیادہ بدترین عمل اور کیا ہوگا؟ اس صورتِ حال کے پیش نظر بعض لوگوں کی یہ رائے غلط نہیں لگتی کہ اسلام کے نام نہاد مجاہدین سے خود اسلام کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یہ اسلام اور ملتِ مسلمہ کا دفاع نہیں بلکہ انہیں تباہ و برباد کررہے ہیں۔
یہ سوال پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں کہ ان حملوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وہ جائز ہیں یا ناجائز؟ جائز ہونے کی صورت میں اس کے صحیح اطلاق کی صورت بھی زیرِ بحث رہی ہے۔ تاہم جس سنجیدگی اور فکری دور رسی کے ساتھ اسلامی شریعت اور اخلاق کے تناظر میں اس پر غوروخوض کی ضرورت تھی، وہ نہیں کی گئی۔ چناںچہ اس پر ہونے والی اکثر بحثوں میں اس کے جواز کا پہلو حاوی رہا۔ علما کی بڑی تعداد قدیم فقہی حوالوں اور مقالوں کی روشنی میں اس کے جواز کے نقطہ نظر کو مدلل کرتی رہی۔ ان علما کے سامنے اصلاً فلسطین کی صورتحا ل تھی، جہاں ان کے خیال میں اسرائیلی سفاکی اور جارحیت کا سامنا کرنے والے نوجوان فلسطینی مزاحمت پسندوں کے پاس استعمال کے لےے یہی ایک موثر ہتھیار باقی رہ گیا تھا۔ اس اعتبار سے اسے غریبوں اور لاچاروں کا ”ایٹم بم“ کہا گیا۔ لیکن اب جبکہ اس کا استعمال غیروں اور دشمنوں کے بالمقابل اپنوں کے خلاف زیادہ ہونے لگا ہے۔ اس کی حمایت کرنے والوں کے لےے ایک بڑا لمحہ¿ فکریہ سامنے آگیا ہے۔ فدائی حملوں کے جوازوعدمِ جواز کی بحث فلسطین کے مخصوص تناظر میں شروع ہوئی تھی اور اسی تعلق سے عرب کے معروف علما کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس کے جواز کے حق میں فتویٰ دیا تھا، جن میں خصوصیت کے ساتھ یوسف قرضاوی، شیخ محمد سید طنطاوی (موجودہ شیخ ازہر) وغیرہ کے نام شامل ہیں، بعد میں عراق و افغانستان پر امریکی جارحیت کا واقعہ سامنے آیا۔ تو یہاں بھی اس کے مقابلے کے لےے اس ہتھیار کو استعمال کیا جانے لگا۔ علما کی بڑی اکثریت کی اس کو تائید حاصل رہی۔ کیوں کہ یہاں بھی یک طرفہ طور پر جنگ مسلط کی گئی تھی اور معصوم لوگوں کی جان واملاک اور عزت و آبرو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہاں کے مظلوم عوام کے پاس دشمن طاقتوں اور اس کی فوجوں پر اثر قائم کرنے اور انھیں زد پہنچانے کے لےے ان کے مطابق کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ممالک پر امریکی جارحیت سے قبل یہ خود کش حملے کاظاہرہ مسلم ممالک میں صرف فلسطین تک محدود تھا۔ لیکن امریکہ کی فرعونیت پسند انتظامیہ اور درندہ صفت فوجوں نے ان ممالک کی عسکریت پسند جماعتوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اسے فلسطین یا سری لنکا کی ایل ٹی ٹی ای سے درآمد کریں۔ اس اعتبار سے اس میں شک نہیں کہ اس ظاہر ے کے ابھرنے اور پھیلنے میں بنیادی رول انھی طاقتوں نے ادا کیا ہے، جو آج ان واقعات پر انسانیت اور مذہب و اخلاق کی دہائی دے رہی ہیں جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مایوسی و دل شکستگی اور انتقام کی نفسیات کی کی آخری حد کو پہنچ جانے کے بعد انسان نہ تومذہبی اصولوں کا پابند رہ پاتا ہے، اور نہ اخلاقی قیود کا، اس وقت اس کے سامنے صرف ایک مقصد رہتا ہے: مایوسی سے نجات ، لیکن بہرحال مذہبی اصول اور اخلاقی قدریں اپنی جگہ ہیں۔ مایوسی کی کیفیت اور مظلومیت کے ردِعمل کی شدت ان کی پامالی کے لےے جواز نہیں بن سکتی۔
اس لےے بہرحال یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ان حملوں کا دینی و اخلاقی جواز کیا ہے؟ کیوں کہ یہ حملے کم از کم مسلمانوں کی طرف سے زیادہ تر دینی جذبے کے ساتھ انجام دےے جاتے ہیں اور اسی لےے ان حملوں کو براہِ راست طور پر اسلامی تعلیمات سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے، پاکستان، مصر، سعودی عرب، صومالیہ اور دوسرے ملکوں میں پہلے یا اس وقت جوحملے کےے گئے یا کےے جارہے ہیں، وہ کسی بھی قابلِ ذکر عالم کے نزدیک نہ کل جائز تھے اور نہ آج جائز ہےں اس لےے یہ صورتحال سرے سے زیرِ بحث نہیں ہے۔ زیرِ بحث صورتحال مسلم ملکوں پر قابض وغاصب قوتوں کے خلاف اس طرح کے حملوں کی ہے۔
جو اہل علم و فکر اسلام دشمن اور مسلم کش طاقتوں کے ظلم کے ردِ عمل میں اس کے جواز کے قائل ہیں وہ مظلوم قوم کو ظالم قوم کے ساتھ برسرِ جنگ (جہاد) تصور کرتے ہیں اور اس کارروائی کو دفاعی جہاد کا مو¿ثر حربہ سمجھتے ہیں۔ اس کے لےے وہ خاص طور پر دو دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ یہ دو دلیلیں دو اصولی شکلوں پر مشتمل ہیں۔ ایک شکل وہ ہے جس کے لےے ’الانغماس فی العدو‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے: ”دشمن کی صفوں میں گھس کر حملہ کرنا“ دشمن کو شدید نقصان پہنچانے، جنگ کی پیچیدہ اور خطرناک صورتِ حال میں انقلابی مثبت تبدیلی لانے یا اسلام کی کسی بڑی مصحلت یا فائدے کے لےے موت کے غالب گمان کے باوجود ایک مسلم فوجی کے لےے کثیر دشمن فوج کی صفوں میں گھس کر حملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ موت کے غالب گمان بلکہ یقین کے ساتھ اس طرح کا حملہ خود کو ہلاک کرنے کے ضمن میں تو نہیں آتا جس کی وعید قرآن میں وارد ہوئی ہے؟ فقہا اس صورت کوجائز قرار دیتے ہیں اور اس کی نظیر میں عہدِ نبوی اور عہد صحابہ میں پائی جاتی ہیں۔
جنگ احد میں رسول اللہ کے اس طرح دفاع میں سات صحابہ نے اپنی جان دے دی اور شہید ہوگئے۔ جنگ یمامہ میں بھی بعض صحابہ نے اس طرح اسلام کے دفاع اور سربلندی کے لےے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ صحابہ کے دور میں بھی اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ رضی اللہ عنہ نے خاص اس موضوع پر ایک رسالہ ”قاعدة فی الانغماس فی العدو“ (دشمن کی صفوں میں گھس کر حملہ کرنے کا اصول) کے نام سے لکھا ہے۔ جس میں عہدِ نبوی میں پیش آنے والے اس طرح کے فداکارانہ حملوں کے نظائر جمع کےے ہیں۔
دوسری شکل وہ ہے جس کے لےے ”تترس“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اگر کچھ دشمن فوجی ایک یا چند مسلمانوں کو اس طرح ڈھال بنالیں اس دشمن فوج کے افراد کو نشانہ لگانے کی صورت میں مسلم فوج کے افراد کی جان خطرے میں پڑتی ہے تو ایسی صورت میں فقہا نے مختلف شرطوں کے ساتھ کسی بہت بڑے فائدے اور مصلحت کے لےے مسلم جان یا جانوں کی قیمت پر دشمن فوج کے افراد کو ہدف بنانے کی اجازت دی ہے۔ اور معصوم مسلم جانوں کے ضیاع کو ایک ناگزیر مجبوری کی صورت پر محمول کیا ہے۔
دوسری جماعت اس عمل کو ناجائز اور حرام قرار دینے والوں کی ہے۔ اس میں سرفہرست سعودی عرب کے اہم دینی قیادت کی ذمہ داری نبھانے والے علما شامل ہیں جیسے: شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ ناصر الدین البانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین، سعودی عرب کے موجودہ مفتی اعظم شیخ عبد عبدالعزیز آل شیخ اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ۔ اہم بات یہ ہے کہ خاص فلسطین کے پس منظر میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ان حضرات نے اس نوعیت کے حملوں کو اسلامی اعتبار سے خود کشی اور ایک ناجائز عمل قرار دیا، اس لےے دوسرے ممالک میں اس طرح کے ہونے والے حملوں کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ ان کا نقطہ نظر حرام کا بلکہ اس سے بڑھ کر ہوگا۔
اپنے موقف کے ثبوت میں وہ مختلف دلیلیں پیش کرتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ”اپنے آپ کو ہلاک مت کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے۔“ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ”اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ: ”جو شخص خود کو کسی چیز سے ہلاک کرے گا، قیامت کے دن اس کو اسی چیز سے عذاب دیاجائے گا۔“ ( بخاری) اسی طرح اس مضامین کی دوسری متعدد احادیث ان کی دلیل ہیں جن میں خود کشی کی شدید وعید کے ساتھ ایسا کرنے والوں کو جہنم کے انجام کی خبر دی گئی ہے۔
ان حضرات کے دےے گئے فتاویٰ کی زبان صاف ہے، اس میں تحفظ پسندی یا تذبذب کی کیفیت نہیں پائی جاتی۔ شیخ ابن باز فرماتے ہیں: ”میں کئی مرتبہ یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ یہ عمل صحیح نہیں ہے، اس لےے کہ ایسا کرنے والا خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے.... بہرحال ابنائے فلسطین کا طریقہ غلط ہے صحیح نہیں ہے۔ ا ن پر واجب ہے کہ وہ اس عمل کے بجائے تعلیم و دعوت اور دینی رہنمائی اور نصیحت کا کام کریں۔“ عبدالعزیز آل شیخ کا جملہ ہے: ”مجھے اس عمل کے جواز کا شرعی پہلو معلوم نہیں۔ نہ ہی میں اسے جہاد فی سبیل اللہ کی قبیل سے سمجھتا ہوں۔ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ خود کشی کا عمل ہو۔ دشمن کو ضرب لگانا اور اس کے ساتھ قتال کرنا مطلوب ہے، بلکہ بسا اوقات ضروری ہے لیکن ایسے طریقوں سے جو مخالف شرع نہ ہو۔“ شیخ عثیمین سے اس تعلق سے دو فتاویٰ منقول ہیں۔ ایک فتوے میں وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ: ”جو شخص دھماکہ خیز اشیا کو جسم پر باندھ کر دشمن کی کسی آبادی میں خود کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے، وہ خود کشی کرنے والا ہے۔ ایسے شخص کو قیامت کے دن اسی طریقے سے جہنم میں عذاب دیا جائے گا جو طریقہ اس نے خود کشی کے لےے اختیار کیا تھا۔ ان لوگوں پر حیرت ہے جو یہ طریقہ اختیا رکرتے ہیں، حالاںکہ ان کے سامنے قرآن کی یہ آیت ہے کہ خود کو ہلاک نہ کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے۔“ شیخ الفوزان کا قول ہے کہ: ”انسان کے لےے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح خود کو ہلاک کرے بلکہ وہ خواہ جہاد یا قتال ہی کیوں نہ کررہا ہو اسے اپنی جان کی آخری حد تک حفاظت کرنی چاہےے۔“ شیخ البانی کہتے ہیں کہ ’:’اندیشہ ہے کہ ایسا کرنے والے کو ہمیشہ ہمیش کے لےے جہنم کی سزا دی جائے“۔
یہاں فدائی حملے کو جائز اور ناجائز قرار دینے والوں کے دلائل کا محاکمہ مقصود نہیں ہے۔ البتہ فریقین کے موقف کو شریعت کے اصول، مزاج و روح اور موجودہ حالات کی روشنی میں دیکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہےے کہ ان میں سے کون سا موقف روح شریعت سے ہم آہنگ اور امت مسلمہ کی مصلحت سے قریب ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قتلِ نفس کی تحریم کی جو آیات و احادیث ہیں وہ اپنے آپ میں صریح، محکم اور قطعی ہیں اور ان میں دیا گیا شرعی حکم دلالت النص سے سمجھ میں آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے موقف کے حق میں جو دلیلیں دی جاتی ہیں ان کی دلالت قطعی نہیں ہے۔ یہ متشابہ دلائل ہیں اور اصولاً متشابہ دلائل کی محکم دلائل کی روشنی میں تفسیر و توضیح کی جاتی ہے۔ محکم دلیلیں متشابہ دلیلوں کے لےے حَکَم (Judge) کا درجہ رکھتی ہیں۔ محکم متشابہ دلیلوں کو رد یا منسوخ کرسکتی ہے، لیکن اس کے برعکس ممکن نہیں ہے۔
جہاں تک کثیر دشمن کی صفوںمیں جان کو ہلاکت میں ڈالتے ہوئے گھس کر حملہ کرنے اور معصوم انسانی جانوں کو دشمن کی طرف سے ڈھال بنائے جانے کی صورت میں ان جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دشمن پرحملے کے جواز کا مسئلہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہا کے جواز کا موقف ان دونوں صورتوں کے تعلق سے صحیح ہے لیکن موجودہ فدائی حملوں کو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ دشمن کی فوجوں میں جان کی پروا نہ کرتے ہوئے گھس پڑتے ہیں وہ خود اپنے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوتے، جو خود کشی کی صورت ہے بل کہ وہ بہرحال دشمنوں کے ہی ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ اس صورت پر محمول ہے جبکہ اس کے علاوہ کوئی اور دوسری صورت باقی نہ رہی گئی ہو۔ اس کا فائدہ ظاہر اور یقینی ہو اور یہ امام کی مرضی اور منشا کے تحت میدان جنگ میںدشمنوں کے بالمقابل انجام دیا جائے۔ اس کے اطلاق کے لےے خالص جہاد فی سبیل اللہ کی شرط ہے جو دین کے دفاع اور سربلندی کے لےے لڑی جارہی ہو۔ آج کی دو قوموں یا گروپوں کے درمیان برپا جنگیں قومی جنگیں ہیں، لیکن یہ جہاد نہیں ہیں۔ مسلم فوج یا نوجوان بنیادی طور پر وطن کی آزادی اور اپنے انسانی حقوق کی پامالی کے لےے جنگیں لڑرہے ہیں نہ کہ خالص دین کے دفاع اور اس کی سربلندی کے لےے۔ بلاشبہ یہ جنگیں صحیح ہیں۔ حق کی پامالی کے خلاف اور اپنے ملک کی دشمنوں سے دفاع کے لےے لڑنا عین عقل و فطرت اور دین کا تقاضا ہے لیکن بہرحال اس جائز عمل پر بھی جہاد کا اطلاق صحیح نہیں ، جس کا مخصوص دینی تناظر اور شرائط ہیں۔
جہاں تک ”تترس“ (مسلم فوجی کو خود کو بچانے کے لےے ڈھال اور آڑ بنالینا) سے ان حملوں کے لےے دلیل پکڑنے کا سوال ہے۔ ”تترس“ کے مسئلے کی متعلقہ مخصوص شرائط ان فدائی حملوں پر صادق نہیں آتیں۔ ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ دشمن سے دفاع کی اس کے علاوہ کوئی او رشکل باقی ہی نہ رہ گئی ہو۔
٭ فائدہ کی جو صورتحال پیش نظر ہو وہ ظنی نہ ہو بلکہ یقینی اور حتمی ہو۔
٭ اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہ ہو، اگر تاخیر اور صورتِ حال کو ملتوی کرنے کی شکل میں جان کے ضیاع سے بچنے کا امکان ہو تو پھر اسی پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔
٭ اسی طرح تترس کی شکل اس قاعدے پر موقوف ہے کہ بڑے فائدے کے لےے چھوٹے نقصان کو گوارہ کیا جائے۔
انصاف کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا فدائی حملے کے جواز کے لےے یہ شرطیں پائی جاتی ہیں؟ کیا اس صورت کے علاوہ مسلم سپاہیوں کے پاس کوئی اور چارئہ کار نہیں رہ گیا ہے؟ کیا اس کا فائدہ اتنا حتمی اور یقینی ہے کہ اس میں کلام اور شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی ہو۔ اور اس میں اب مزید کسی تاخیر و انتظار کی گنجائش نہ ہو جبکہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ہماری امت کی سب سے افضل عبادت کشادگی کا انتظار ہے۔ علامہ قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: قتل” ترس”(جس کو ڈھا ل بنایا گیا ہو) کبھی جائز ہوتا ہے اور اس میں ان شاءاللہ اختلاف نہیں ہے۔ اور یہ جواز اس صورت میں ہے جبکہ فائدہ ضروری، کلّی اور قطعی ہو، ضروری ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ کفار تک پہنچنا قتل ترس کے بغیر ممکن نہ ہو اور کلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری امت کے لےے قطعی ہو۔ چناچہ قتل ترس سے تمام مسلمین کو فائدہ پہنچے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں کفار ڈھال بنائے گئے مسلمان کو قتل کردیں اور پوری امت پر غالب آجائیں، اور قطعی ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ قتل ترس کا فائدہ یقینی ہو۔ ہمارے علما نے کہا کہ ان قیود کے ساتھ اس فائدے کے معتبر ہونے میں اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس لےے کہ گمان یہ ہے کہ ڈھال بنائے گئے مسلمان کی دونوں صورتوں میں موت یقینی ہے ،چاہے دشمن کے ہاتھوں تو اس صورت میں شدید مفسدہ پیش آئے گا اور وہ دشمن کا مسلمانوں پر غالب آنا ہے یا مسلمانوں کے ہاتھوں تو اس صورت میں دشمن ہلاک ہوگا اور تمام مسلمانوں کو نجات حاصل ہوگی۔ کوئی عاقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت میں ڈھال بنائے گئے مسلمان کو ہلاک کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں۔ اس لےے کہ اس صورت میں اس ڈھال بنائے گئے مسلمان کا ہلاک ہونا بھی لازم آتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کا تباہ و برباد ہوجانا بھی۔“ (الجامع لاحکام القرآن، ۸/۵۶۳)۔
علامہ قرطبی نے جو شرائط ”تترس“ کی صورتحال میں دشمن پر حملوں کے جواز کے لےے بیان کی ہیں، غور کیا جاسکتا ہے کہ کیا وہ موجودہ فدائی حملوں پر منطبق ہوتی ہیں؟
ایک اہم بات یہ ہے کہ فدائی حملوں کے لےے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد اور نتیجے کو بھی بنیاد بنانا صحیح نہیں ہے جیسا کہ اس کے حق میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے۔ اس لےے کہ یہ اصول مسلّم ہے کہ ”کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد کسی غلط طریقہ کار کو جواز عطا نہیں کرتا۔“ (الغایة لا تبرر الوسیلة)۔
غور کرنے کی بات ہے کہ فلسطین سمیت دوسرے اسلامی ملکوں میں جہاں یہ عمل انجام دیا جارہا ہے، وہاں اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مصیبتوں میں مزید اضافے ہوئے، اسرائیل کی صورتِ حال پر غور کریں تو ایک اسرائیلی کے مقابلے میں کئی سو فلسطینی شہری ہلاک کےے جاتے ہیں۔ عراق و افغانستان کی بھی یہی صورتِ حال ہے، اس طرح کے حملوں میں پہلے تو مشترکہ طور پر مسلم و غیر مسلم دونوں مارے جاتے ہیں لیکن اس کے انتقام میں جو کارروائیاں کی جاتی ہیں، ان میں اس سے سیکڑوں گنا معصوموں کی ہلاکت ہوتی ہے۔ اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا کرنے والا اس عمل کی انجام دہی کے دوران خود کو پرامن انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ حالاں کہ وہ مسلّح اور قتل و قتال کاقاصد ہوتا ہے۔ یہ ایک دھوکے کی صورت سے جو اسلام کے پختہ اصول جنگ سے میل نہیں کھاتی۔
اس تعلق سے غوروفکر کا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ موجودہ اسلامی سیاسی فکر میں جہاد و قتال کا نظریہ انتہائی افراط و تفریط کا شکار ہے، علامہ یوسف قرضاوی جن کا فلسطین میں فدائی حملے کے جواز کا موقف سب سے زیادہ مشہور ہے اور بکثرت نقل کیا جاتا ہے، ان کی نئی کتاب ”فقہ الجہاد“ خاص طور پر اسی افراط و تفریط کو دور کرنے اور روایتی موقف (جہاد اقدامی کے جواز وغیرہ) سے ہٹ کر لکھی گئی ہے۔ اس افراط و تفریط اور اسلامی تحریکات میں دین سے ناواقف اور جذباتیت پسند نوجوانوں کی کثرت کی وجہ سے سرے سے یہ ممکن نہیں تھا کہ فدائی حملے یا اس طرح کسی عمل کو جائز قرار دینے والوں کی ان شرطوں کا پاس و لحاظ رکھا جاسکے گا جو اس طرح کے عمل کے جواز کے لےے وہ عائد کرتے ہیں۔ چنانچہ عرب علما نے فدائی حملوں کو خاص طور پر فلسطینی مقامات کے لےے جائز قرار دیا تھا کہ ان کے بقول اسرائیل کے تمام شہری محارب کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن آج فلسطین سے زیادہ پاکستان میں خود کش حملے ہورہے ہیں اور اب یہی علما اس صورتحال کو فساد فی الارض اور امت مسلمہ کے لےے زبردست خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
تفقہ اور دینی بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ احکام کی تفریع اور استنباط میں صرف حال کو ہی نہیں مآل اور عواقب کو بھی نظر میں رکھا جائے۔ فقہ المآل یا فقہ المستقبلیات پر ہمارے یہاں کام نہیں ہوسکا کہ ہم فتاویٰ اور احکام میں کسی چیز کے جواز یا عدمِ جواز کے تعلق سے مستقبل کے مضمرات اور نتائج کو بھی اصول کے طور پر سامنے رکھ سکیں۔ یہ فقہ کا ایک نہایت نظر انداز کیا ہوا گوشہ ہے۔ اس کی حقیقت کو اس واقعے کی روشنی میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو یہ برملا فتویٰ دیا کہ قاتل کی مغفرت نہیں ہوسکتی اور وہ جہنم میں جائے گا۔ لوگوں کے تعجب اور استفسار پر کہ یہ تو صحیح نہیں ہے اور خود ان کا موقف بھی اس کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے اس شخص کے انداز سے بھانپ لیا تھا کہ وہ کسی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لےے میں نے اس کو اس عمل سے باز رکھنے کے لےے یہ فتویٰ دیا۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خاص فلسطین کے پس منظر میں بھی فدائی حملوں کے جواز کا فتویٰ سراسر غلط تھا کیوں کہ موجودہ دور میں اسلام کے دفاع اور اسلامی شریعت کے نفاذ وغیرہ عنوان سے جو انقلابی مسلم تحریکیں سامنے آئی ہیں ،ان کی نفسیات اسلامی تعلیمات کی اساس پر نہیں بلکہ صرف جذباتی ردِ عمل کی اساس پر تیار ہوئی ہیں جو سیاہ و سفید اور جائز و ناجائز کے امتیاز اور حد بندیوں سے قطعاً نا آشنا ہے۔ سعودی علما کا موقف فدائی حملوں کے تعلق سے کل بھی صحیح اور releventتھا اور آج بھی صحیح اور releventہے٭٭

No comments:

Post a Comment