Saturday, November 28, 2009

A Critique of the Theology and politics of Radical Islamism

اسلام کی دینی و سیاسی فکر کی انقلابی تعبیر: ایک تنقیدی مطالعہ
-حصہ اول-
-Part-1-
اسلام دین فطرت ہے وہ انسان کی اپنی اندرونی طلب کا جواب ہے۔ اس کا مقصد خالق اور مخلوق کے رشتے کو صحیح طورپر قائم کرنا اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اس خالق و مخلوق کے رشتے کا ایک اہم پہلو خود انسان کے اپنے باہمی تعلقات ہیں۔ اگر یہ باہمی انسانی تعلقات اپنی اصل اور فطری صورت پر قائم نہ ہوں تو خالق و مخلوق کا باہمی رشتہ بھی اپنی صورت پر باقی نہیں رہ سکتا۔ کیوںکہ، جیسا کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:” دنیا کی ساری مخلوقات اللہ کا کنبہ ہے(۱)“ اور اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کنبے سے دوری اور عداوت کے ساتھ اس کنبے کے نگراں اور سرپرست (خدا) کے ساتھ قربت اور محبت کا رشتہ قائم کیا جا سکے۔ اسلام ” سِلم“ کے لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی ” امن“ ہیں ۔ اور خود اسلام کے معنی اللہ کے نزدیک پوری طرح جھک جانا (Submission) اور خود کوSurrenderکر دینا ہے۔ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے، یہ وہی دین ہے جو حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تک تمام پیغمبروں اور تمام نسل انسانی کا دین تھا ۔(۲) اس لیے منطقی طورپر اس میں خلاف فطرت کوئی ایسی چیز نہیں ہو سکتی یا نہیں ہونی چاہیے جو انسانیت کی مجموعی فلاح اور خیر خواہی کے خلاف ہو۔ پیغمبر اسلام کا ایک اہم قول ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔(۳) یہ خیر خواہی در اصل پوری انسانیت سے مطلوب ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس خیر خواہی کی عملی شکل یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر مسلمان دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو(۴)۔ اسلام کا مسلمان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ خدا کی اس فیملی (عِیَالُ اللہ ) کے ساتھ پر امن بن کر رہیں جو ان کی بنیادی صفت قرار دی گئی ہے اور حدیث میں اسے ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ : ” مسلمان دراصل وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں(۵)“۔ اگر ایک مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا کہ وہ خدا کی فیملی کا خود کو ایک ممبر تصور کرتے ہوئے فیملی کے دوسرے افراد کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے۔ اپنی پسند اور دوسروں کی پسند میں فرق نہ کرے
، خدا کی مملکت کا پوری طرح ایک پُر امن شہری بن کر رہے، وہ حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔
پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک اخلاقی اور روحانی شخصیت تھے۔ انھیں اخلاق اور روحانیت کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا تھا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ : میں اعلیٰ اخلاق کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں( ۶)۔“ مکہ میں آپ تیرہ سال رہے اور خاموشی کے ساتھ عبادت، خاموش تبلیغ اور مخالفین کی اذیتوں پر صبر کے ساتھ اپنی زندگی گزاری۔ مدینے میں اللہ کے نعام کے طورپر انھیں ریاست تشکیل دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے اپنی اس ریاست کی بنیاد تکثیرت (Pluralism)کے اصولوں پر رکھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین اور یہودیوں کو بھی دستوری سطح پر مسلمانوں کے برابر حقوق دیے۔ اس طرح کثیر قومی کثیر تہذیبی دوسرے لفظوں میںNation-state کے تصور کی بنیاد پر تشکیل پانے والی یہ پہلی باضابطہ ریاست تھی۔ رسول اللہ کو اپنے پُر امن دعوتی مشن میں بسا اوقات جنگیں بھی لڑنا پڑیں۔ لیکن یہ دفاعی نوعیت کی جنگیں تھیں جس کی وضاحت قرآن میں موجود ہے (۷) ۔ ان جنگوں کا مقصدreligious persecution کی اس صورت حال کو ختم کرنا تھا، جو شاہی مطلق العنانی کے اس دور میں موجود تھی اور عقیدے اور فکر کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ قرآن میں دراصل اسی کو” فتنہ“ ( ۸) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ کے دور میں یہ ” فتنہ“ ختم ہوا۔ رسول اللہ کے ایک صحابی حصرت ابن عمر نے کہا کہ ہم یہ جہاد کر چکے۔(۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سیاسی نہیں تھی۔ وہ دینی اور اخلاقی تحریک تھی۔ لیکن ابتدا میں سیرت(prophet`s biography) پر جو کتابیں مرتب کی گئیں ان میں رسول اللہ کے زمانے میں لڑی جانے والی جنگوں کو ہی سیرت کا عنوان بنا لیا گیا۔ اس لیے اسے ”مغازی“(wars)کا نام دیا گیا ۔ اس پہلو کو کافی وسعت اور شدت کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد میں فقہ اور حدیث کے موضوعات پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں اسی پیٹرن کو اختیار کر لیا گیا ۔ چنانچہ آج جو کتابیں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ان میں جنگ و جہاد اور ان پر مشتمل مسائل کے عنوانات نمایاں ہیں۔ ان پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ دماغ کھپا یا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسی روایتی انداز میں چلا آرہا ہے جو عہد وسطیٰ میں شروع ہوا تھا۔ یہ مسلمانوں کے عروج کے زمانے (750-1100) میں اسلامی فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے اور اسلام کو ایک بڑی سیاسی طاقت کے طورپر پروجیکٹ کرنے کی ایک پالیسی اور حکمت عملی تھی جسے مسلم حکمرانوں نے آگے بڑھانے اور مضبوط کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اس طرح اس فکری ماحول میں اسلام کا جو سیاسی تصور پروان چڑھا وہ اسلام کی حقیقی روح سے قریب نہ رہ سکا۔ اس میں اسلام کی انسانی فطرت کے مطابق اور عام نسل انسانی کی خیر خواہی پر مبنی دین ہونے کی حیثیت بُری طرح مجروح ہو گئی۔ تیسری اور چوتھی صدی میں اسلام کی جو قانونی تدوین اسلامی فقہ کی شکل میں عمل میں آئی اس میں ان سیاسی پالیسیوں کو با ضابطہ اسلام کا قانون بنا دیا گیا۔
مندرجہ ذیل سطور میں ہم سب سے پہلے اسلام کے تصور سیاست پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کریںگے۔ اس کے بعد یہ دیکھنے کی کوشش کریںگے کہ بعد کے ادوار میں اس میں کیا انحرافات ہوئے اور کیسی خامیاں پیدا ہوئی؟ اس کے اہم اور بنیادی عوامل کیا تھے؟
اسلام کا تصور سیاست
اسلام میں دین اور دنیا میں فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت اور Complementryقرار دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ :” اپنے دنیا کے حصّے کو نہ بھولو“( ۰۱) حدیث میں دنیا کو دین کی کھتی بتایا گیاہے (۱۱ )۔ اس طرح دین اور دنیا کی حیثیت ایک دوسرے سے لازمی طورپر جڑ جاتی ہے۔سیاست زندگی کا ایک لازمی جز اور زندگی کو اجتماعی سطح پر برتننے کا نام ہے۔ اس لیے زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی نظریہ سیاست سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دین کے ساتھ تعلق کی حیثیت سے اس کا اپنا دائرہ اور اپنی محدودیت ہے۔ وہ دین کے مجموعی مفہوم میں تو شامل ہے، لیکن دین کے اساسی مفہوم میں شامل نہیں۔ اس حیثیت سے وہ اضافی ہے، دوسرے لفظوں میں دین سیاست کے بغیر بھی اتنا ہی مکمل ہے جتنا سیاست سے وابستگی کے ساتھ۔ در اصل اسلام ایک عملیت پسند(pragmatic)مذہب ہے اور سیاست میں عملیت پسندی کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔ اس لیے اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسے عمل یا ذمہ داری کا مکلف(committed) نہیں کر سکتا جس کا انجام دینا اس کے ماننے والوں کے لیے عمومی طورپر ممکن نہ ہو۔ قرآن میں اس کی صراحت موجود ہے ( ۲۱)۔ اسلام نے جو احکامات دیے ہیں اس کی دو صورتیں ہی: ایک وہ جو اپنی جگہ اٹل ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی۔ انہیں علمائے اصول غیر مجتہد فیہ کہتے ہیں۔ یعنی ایسے احکام جن میں اجتہادکی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے احکام وہ ہیں جن میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور انہیں وقت اور حالات کی بنیاد پر سمجھا اور تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسے علمائے اصول مجتہد فیہ کہتے ہیں۔ پہلے کا تعلق اسلام کے اعتقادی ڈھانچے سے ہے اور دوسرے کا تعلق عملی ڈھانچے سے۔ اسلام میں سیاست اسی دوسرے خانے میں آتی ہے۔ اس لیے عقیدے کی سطح پر سیاست اسلام کا جز ہے۔ دوسرے نظریات کی طرح سیاست اور مذہب میں تفریق نہیں ۔ لیکن عملی سطح پر اس کا جز ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک یونی ورسل مذہب کے لیے یہ خصوصیت اور لچک فطری ہے۔ چنانچہ اسلام اپنے دینی اور روحانی نظام کے ساتھ دنیا کہ ہر ہر خطے میں پہنچا ہوا ہے، لیکن ( معمولی exceptionکے ساتھ)سیاسی نظام کے ساتھ وہ کہیں بھی موجود نہیں۔ اس کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس صورت میں اسلام ادھورا اور ناقص ہے۔ کیوں کہ یہ سرے سے نہ کبھی ممکن ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اسلام جہاں بھی پایا جائے اپنے نظام کے ساتھ پایا جائے اور وہ دوسرے نظاموں پر غالب ہو کر رہے۔ہر نبی کا دین ہمیشہ ایک رہا ہے اور ہر نبی نے ہمیشہ مکمل دین کی لوگوں کو دعوت دی اور خود اس پر عمل کیا۔ لیکن یہ بات خود قرآن و حدیث کی روشنی میں طے شدہ ہے کہ بہت سے انبیاءکو سرے سے اپنے سماج میں قدم جمانے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ کجا کہ وہ کوئی جماعت یا معاشرہ تشکیل دیں۔ انھوں نے صرف دین کی بنیادی باتوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ کیوں کہ یہی ان سے مطلوب تھا۔ اس سلسلے میں خود حضرت عیسیٰ مسیحؑ کی مثال واضح ہے جن کا مشن زبانی تبلیغ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بہت سے انبیا قتل یا ہلاک کر دیے گئے۔ لیکن ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اپنے اس مشن میں پوری طرح کامیاب رہے، جس کے لیے انھیں خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا، یعنی خدا کی معرفت کی انسان کو تعلیم دینا، خدا سے ان کا تعلق قائم کرنا اور ان کی روح کو پاک و صاف کر کے انھیں روحانی اور ربّانی (۳۱ ) انسان بنانا تاکہ وہ خدا کی بنائی جنت میں بسنے اور اس کی ابدی مسرتوں سے ہم کنار ہونے کے لائق ہو سکے۔
اسلام ایک تکثیری مذہب ہےتکثیرت اسلام کی سیاسی فکر کی اہم کڑی ہے۔ اس اعتبار سے اسلام صحیح معنو ںمیں ایک تکثیری مذہب ہے۔ اس کا اصولی اور عملی ڈھانچہ اسی پر مبنی ہے۔ اسلام میں تنوع(diversity) کو فطرت کی ایک ضرورت اور حسن کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ زبان اور رنگ کے اختلاف کو قدرت کی نشانی قرار دیا گیا ہے:
” اس( اللہ) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔“(۶۱)اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:” اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کر سکو۔“(۷۱
قرآن میں ایک واضح اصول کے طورپر کہا گیا ہے کہ دین میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے انسان کو اختیار ہے کہ وہ جو مذہب یا جو نظریہ چاہے اختیار کرے:
” دین میں کوئی زور اور زبردستی نہیں ہے۔“( ۸۱)” جس کا دل چاہے وہ اسلام پر ایمان لائے اور جس کا دل چاہے اس سے انکار کر دے“۔(۹۱)
اس لیے کہ یہ خود اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے کہ سارے لوگ ایک فکر اور ایک طریقے کے پابند ہو جائیں:” اگر آپ کا رب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ ایمان قبول کر لیتے ” کیا مومن بنانے کے لیے آپ ان کے ساتھ زبردستی کریںگے۔“(۰۲) ” اللہ نے ہی تمہاری تخلیق کی ہے تو تم میں کچھ لوگ مومن اور کچھ لوگ منکر ہیں“(۱۲)۔اس طرح مومن کے ساتھ منکر ہونے کو ایک ابدی اور فطری حقیقت کے طورپر تسلیم کر لیا گیا۔ ہر قوم کا مزاج، ماحول، فطری صلاحتیں، اس کے لیے ردو قبول کے امکانات الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے ایک ”شرعہ“( َLaw) اور منہاج(Way) مقرر کیا ہے۔ دین اور اعمال دونوں کو فرد کے اپنے انتخاب پر چھوڑنے کی واضح ہدایت اسی لیے قرآن میں دی گئی ہے:” تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا دین“ (۲۲) ۔” تمہارے لیے تمہارا عمل ہے اور ہمارے لیے ہمارا عمل“(۳۲)۔
پیغمبر اسلام نے مدینے میں جو پہلی ریاست تشکیل کی اس میں تہذیبی تعدد(multiculturalism) ، تکثیرت (pluralism) اور بقائے باہم(coexistance)کو بنیادی اصول کے طورپر استعمال کیا گیا تھا۔ میثاق مدینہ اس اسلامی ریاست اور اسلامی تاریخ کا پہلا تحریری معاہدہ یا دستور تھا۔ معاہدے کے مطابق ، معاہدے کے پابند تمام مسلم وغیر مسلم شہریوں کو یکساں حقوق حاصل تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاہدے میں مسلمان، یہودی اور مشرکین کو ( عیسائی وہاں موجود نہیں تھے) مسلمانوں کے ساتھ ایک متحدہ امت کی حیثیت دی گئی تھی۔ ( یہود امة من المسلمین) ایک شق کے الفاظ یہ تھے کہ : مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین ہے اور یہودیوں کے لیے یہودیوں کا دین (للمسلمین دینہم وللیہود دینہم)(۴۲) قرآن کے مطابق ہر مذہبی کمیونٹی کو مکمل داخلی خود مختاری دی جانی چاہیے۔ اسے نہ صرف عقائد اور عبادات کو اپنے طورپر انجام دینے کی آمادی ہو بلکہ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ بھی اپنی ہی قانون اور ججوں کے ذریعہ کرائیں(۵۲)۔ اس لیے رسول اللہ غیرمسلموں کو دیے گئے اختیارات اور آزادی کو محدود نہیں کر سکتے تھے۔ قرآن میں مسلم اور غیر مسلم عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے مسجد سے پہلے چرچ اور یہودی عبادت گاہ (سینے گاگ) کا ذکر کیا گیا ہے :
Did not Allah chek one set of people by means of anoter there would surely had been pulled down monastries, churches, synagogues and mosques. in wich the name of Allah is commemorated in abundant measure (26)
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ رسول اللہ نے اہل نجران اور اہل حیرہ سے جو معاہدے کیے اس میں غیر مسلموں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دی گئی تھی۔
اسلامی تکثیریت کے اس تصور سے اسلام کے غیر مسلموں ساتھ تعلق کی جو نوعیت سامنے آتی ہے وہ عدل و مساوات اور اشتراک عمل کی بنیاد پر قائم ہے- عدل پر قرآن میں یہ کہہ کر زور دیا گیا ہے کہ : کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو (۷۲) عدل کو قائم کرنے والے بنو(۸۲) مساوات انسانی کے تعلق سے رسول اللہ نے فرمایا کہ :” لوگ ( مسلم اور غیر مسلم ) آپس میں بھائی بھائی ہیں “(۹۲)اوریہ کہ :” وہ کنگھی کے دانوں کی طرح ایک دوسرے کے برابر ہیں۔“ اسلام ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں مذہب اور رنگ و نسل کی قید سے اوپر اٹھ کر لوگ معاشرے میں خیر و عدل کے قیام کے لیے مشترکہ طورپرکوشش کریں اور ایک دوسرے کو تعاون دیں۔ مکہ میں حِلف الفضول کا واقعہ اور مدینے میں ” میثاق مدینہ“ اس کے اہم نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ رسول اللہکے بعد آپ کے خلفا کے دور میں جو اسلامی ریاست تشکیل ہوئی وہ بھی کافی متمول(Rich) اور متنوع (Diverse)تھی اس میں غیر مسلموں کو عقیدہ و عمل کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ اس کی مثالیں اور واقعات اسلامی تاریخ کی کتابوں میں بکثرت موجود ہیں۔ اس تعلق سے یہاں صرف ایک واقعے کا حوالہ مناسب ہوگا۔ حضرت علی کے دور میں سیاسی بحران کی وجہ سے کثیر عیسائی آبادی رکھنے والے بعض علاقوں میں بھی انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیےBazentine بادشاہConstantine II نے عیسائی آبادی کو اس بات پر ابھارا کہ وہ اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دے۔ بازنطینی حکومت اس کی ہر طرح مدد کرے گی۔ لیکن عیسائی آبادی نے اس پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ” ہمارے مذہب کے یہ دشمن تمہارے مقابلے میں ہمیں زیادہ پسند ہیں۔“ البتہ بعد کی اسلامی تاریخ میں اس کا معیار باقی نہ رہ سکا۔ خاص طورپر مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے عہد میں تشکیل پانے والی فقہ میں اسلام کی عالم گیر انسان پسندی کی روح برقرا ر نہ رہ سکی۔( س پرمزید بحث آگے آئے گی)۔
**************************************************************
-حصہ دوم Part-2 -
مسلم سیاسی فکر کے نقائص: قابل غور نکات
اسلام کی سیاسی فکر زیادہ تر اس اسلامی فقہ سے ماخوذ یا اس پر مبنی ہے، جس کی تشکیل 750سے 1100کے درمیان ہوئی، جو مسلمانوں کے سیاسی عروج کا عہد زرّیں کہلاتا ہے۔ ائمہ اربعہ اور اکابر فقہاء( جن میں ائمہ اربعہ کے تلامذہ شامل ہیں) کا تعلق اسی دور سے ہے۔ بعد میں ان فقہا کے علاوہ دیگر فقہا اور اسلامی شخصیات کی آرا و افکار نے اسلامی سیاسی فکر کے ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس میں ابو الحسن علی الماوردی، ابن تیمیہ، ابن قیم الجوزی اور جلال الدین السیوطی وغیرہ شامل ہیں۔ 1258میں تارتا یوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی و بربادی نے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے متوقع اثرات مسلمانوں کے سیاسی فکری ڈھانچے پر بھی پڑے اور اس کے نتیجے میں بہت سے سیاسی و سماجی تصورات تبدیل ہوئے۔ عالم اسلام کے ایک خلیفہ ہونے کا تصور پہلے ہی کمزور تھا، اب اس کا کوئیRelevanceباقی نہیں رہا۔ غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ حکومتی اور سیاسی سطح پر تعاون اور اشتراک عمل کو اسلام کے نظریاتی فریم ورک میں قبول کر لیا گیا۔ رسول اللہ کی مکّی زندگی کے ماڈل کو اختیار کرتے ہوئے غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور تصادم سے مکمل طورپر پہلو تہی کی گئی۔ مسلمانوں کو غیر مسلم ریاست میں ایک پُر امن شہری کی حیثیت سے نارمل زندگی بسر کرنے کو اسلامی نظریے سے درست قرار دیا گیا وغیرہ۔ اسی طرح دارالاسلام اور دار الحرب کے غیر معقول اور نا قابل عمل تصور پر ابتدا میں ہی اعتراضات اٹھائے جانے لگے تھے اور ایک تیسرے ” دار“دارالعہد یا دارالامن کی گنجائش نکالی جانے لگی تھی ۔اس طرح دیکھا جائے تو اسلامی سیاسی فکر ، اسلامی فقہ کے دیگر شعبوں: عبادات و معاملات کی طرح بالکل جامد نہیں تھی۔ تاہم مسلم حکمرانوں کی اپنی مفاد پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دی جا سکی جس کا احساس معاصر علما کو شدت کے ساتھ ہے(۰۳) ۔ اٹھارہویں انیسویں صدی میں جبکہ اسلامی اور مغربی دنیا میں طاقت کے توازن میں زبردست نوعی(qualitative)فرق پیدا ہو چکا تھا، یوروپی ممالک کو مسلم ملکوں کے اندرونی معاملات میں اس لیے بھی دخل اندازی کا موقع ملا کہ وہاں غیر مسلم رعایا کے ساتھ مسلم ریاست کا برتاﺅ قدیم فقہی تصورات کے مطابق انصاف اور مساوات پر مبنی نہیں تھا۔ اس مداخلت کے ذریعہ یوروپی استعماری طاقتوں کو ان پر تسلط کی راہ ہموار ہوئی(۱۳)۔
موجودہ دور میں مسلم علما اور ارباب فکر کے درمیان دو گروپ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروپ کلاسیکی رجحان رکھنے والے قدامت پسند علما پر مشتمل ہے جو انھی قدیم اصول و معیارات پر اپنے نظریات کی عمارت کھڑی کرتے ہیں جو تیسری چوتھی صدی میں تشکیل پائے تھے۔ جب کہ دوسرا گروپ ان دانشوروں پر مشتمل ہے جو جدید سیاسی نظریات کی بنیاد پر اسلامی سیاسی نظریات کی تشکیل کا خواہاں ہے اور اسلام کی فطری اور فقہی اثاثے کو سرے سے کوئی اہمیت دینے کا قائل نہیں۔ان دو طبقوں کے درمیان ایک تیسرا طبقہ ان اہل فکر پر مشتمل ہے جو اسلام کے روایتی دائرہ فکر میں رہتے ہوئے اپنے نظریات کی ترتیب کو درست کرنے اور جدید حالات اور تقاضے سے ناہم آہنگ اور مشکلات پیدا کرنے والے فقہی سیاسی تصورات پر ایک حد تک نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں وسعت پیدا کرنے کا قائل ہے، اگرچہ یہ طبقہ روشن فکر علما اور ارباب دانش پر مشتمل ہے لیکن وہ ایک طرف قدامت پسند علماء جن کی روایتی دینی حلقوں اور عوام پر گرفت مضبوط ہے کے دباﺅ میںاور دوسری طرف سے انھی قدیم فقہی تصورات اور اصول استنباط پر بنیادی طورپر انحصار کرنے کی وجہ سے، ایک ایسا ماڈل فراہم کرنے سے قاصر ہے جو دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں فٹ ہونے کے ساتھ روایتی ماڈل کی جگہ لے سکے۔
اسلامی سیاسی فکر کے صحیح رخ سے ہٹ جانے کا مسئلہ اسلام کے ابتدائی عہد کے بعد پوری اسلامی فکر صحیح اسلامی گر سے ہٹ جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ با ضابطہ انحراف تیسری چوتھی صدی میں ائمہ اربعہ کےCanonisation،تقلید کو علمی و فکری سطح پر رواج عام اور باب اجتہاد کے بند ہو جانے کی شکل میں سامنے آیا۔ ائمہ اربعہ یا دیگر ائمہ فقہ میں سے کوئی بھی اس منصب کا دعویدار نہیں تھا جنھیں یہ منصب عطا کیا گیا ۔لوگوں کو ائمہ اربعہ کی تقلید پر کاربند کرنا اس وقت کے اسلامی سماج کے اس بکھراﺅ کو دور کرنے اور اس میں تنظیم و یک رنگی پیدا کرنے کی کوشش تھی جو بالخصوص سیاسی و سماجی حالات، مختلف رجحانات رکھنے والے فقہا و محدثین کی اکثر مسائل میں مختلف رایوں کا حامل ہونے ، فقہا کی ایک تعداد کے فقہ کو بطور پیشہ اختیار کر لینے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا(۳۳)۔ اس طرح یہ اقدام ایک سیاسی حکمت عملی پر مبنی وقتی اقدام تھا نہ کہ دینی و تشریعی ( قانونی) حکمت عملی پر مبنی فکر کا آخری نتیجہ۔ اس لیے آگے چل کر حالات کی تبدیلی کے بعد جو چیز علاج کے طورپر اختیار کی گئی تھی وہ امت کے لیے بجائے خود بہت بڑا مرض بن گیا اور جس سے امت مسلمہ کی پوری فکر شل ہو کر رہ گئی۔ علمائے اصول نے فقہ کی ایجاد کی، لیکن اجتہادی پراسیس کے عملا معطل ہو جانے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کوئی اضافہ یا ترقی نہیں ہو سکی۔ نتیجے کے طورپر قدیم اصول فقہ کی روشنی میں جدید مسائل پر غور و خوض مسائل کی سنگینی میں مزید اضافے کا سبب بنا۔
انیسوی صدی میں عالم اسلام پر استعماری شکنجے کی مضبوطی کے بعد امت کے ” اعلیٰ دماغوں“ اور ارباب حل و عقد کی طرف سے اس کے مقابلے کے لیے نظری اور عملی سطح پر جو جد و جہد کی گئی وہ اس نظری افلاس کو مزید واضح کرنے والا تھا جس کی وراثت اس صدی کے مسلمانوں کوحاصل ہوئی تھی۔ اس کا اندازہ اس مثال سے ہو سکتا ہے کہ اس عہد کے سب سے بڑے اسلامی دماغ جمال الدین افغانی جس کے بارے میں اقبال آخری حد تک ثنا خواں ہیں۔ ( ۴۳)انہوں نے زور و تائید کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ : امت مسلمہ کو ایک عادل ڈکٹیٹر(مستبدµ عادلµ) ہی سوٹ کرتا ہے (۵۳)حالانکہ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ استبداد عدل کے منافی ہے۔ استبداد کی بنیاد پر عدل کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلامی فقہ یا اسلامی فکر میں تقلید کے مظہر کے حوالے سے اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی عین پہلی اوردوسری صدی میں فکری قیادت اور سیاسی قیادت میں اس وقت بُعد و افتراق پیدا ہو گیا جب اسلامی خلافت خاندانی بادشاہت کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ رسول اللہ کے احباب اور ان کی اتباع کرنے والی اسلام کے فکری ورثے کی امین شخصیات خاموشی اور عزلت نشینی پر مجبور ہو گئیں۔ سیاسی لیڈر شپ اور دینی و فکری لیڈر شپ میں دوری اور مقابلہ آرائی کی کیفیت تیسری اور چوتھی صدی میں عروج پر تھی جس کی اہم مثال یہ ہے کہ چاروں ہی اماموں کو شدید سیاسی ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑا۔ امام ابو حنیفہ کی تو موت ہی جیل میں ہوئی۔ زبردستی (by force) طلاق کے ( جس کا مقصد by forceبیعت کے جائز ہونے کو ثابت کرنا تھا) امام مالک کو اس قدر زد و کوب کیا گیا کہ ان کا بازو اکھڑ گیا۔
ان بنیادی امور کے علاوہ اسلام کی سیاسی فکر میں جو جمود اور انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے اس کے بعض اہم اسباب و عوامل یہ ہیں کہ :
(1)
کوئی بھی فکر خواہ اس کا تعلق دین و سیاست یا زندگی کے کسی اور شعبے سے ہو۔ اپنے وقت کے سماجی، جغرافیائی اور سیاسی حالات سے اثر پذیر ہوتی ہے۔ اس تعلق سے بطور مثال کمیونزم کو پیش کیا جا سکتا ہے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں طبقاتی کشکمکش اور مزدوروں پر جبر اور ان کے استحصال کے رد عمل میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی۔ امام مالک ، شافعی، غزالی ، ماوردی، ابن تیمیہ، جوینی شاطبی وغیرہ کے افکار و سوانح سے ان ائمہ کے کاموں پر وقت اور ماحول کے سیاسی و معاشرتی عوامل کا صاف اثر دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے گروہی تنازعات اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے مرکزی سیاسی اقتدار کو استحکام بخشنے اور باہمی اتحاد و یک جہتی کی صورتحال کو مضبوط کرنے کی اہمیت کو فہرست میں سب سے اوپر جگہ دی۔ اسلامی تحریک کو شروع دن سے عرب کے سخت مزاج بدﺅں کے ساتھ کشمکش، دوسری طرف حکومتی سطح پر ایران خاص طور پر رومی امپائر سے مزاحمتوں اور اندیشوں کا سامنا رہا۔ تیسری چوتھی صدی میں اگرچہ اسلامی خلافت کے حدود مضبوط ہو چکے تھے تاہم بالکل محفوظ کبھی نہیں سمجھے گئے۔ مسلمانوں کی فکری قیادت کرنے والے کا ذہن خارجی اندیشوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس بے چینی اور خوف کا اندازہ احمد بن حنبل کے اس قول سے ہوتا ہے کہ” : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تم جنگ نہ کرتے تو اسلام مٹ گیا ہوتا اور پھر رومی کیا کرتے“؟ امام مالک نے بھی ایسے ہی احساسات کااظہار کیا ہے(۶۳)۔ اس دور میں سیاسی انتشار، بغاوت اور محاربة (insergency) کے واقعات کثرت سے پیش آئے جنہوں نے فقہا کے ذہن کو متاثر کیا۔
(2)
سیاسی غلبے کی نفسیات سے قرآن و حدیث اور رسول اللہ اور صحابہ کے دور میں پیش آنے والے واقعات میں سے انہوں نے صرف اسی حصّے کو اپنی فکر کا ماخذ بنایا جو ان کے مخصوص نظریے اور نفسیات کو تقویت دیتا تھا۔ چنانچہ ان کے سامنے نہ تو مکی آئیڈیل رہا جو مدینہ میں رسول کی اقامت سے زیادہ عرصے پر مشتمل ہے اور نہ ہی مدینہ کا ابتدائی سیاسی نبوی ماڈل جو سیاسی وسیع النظری کی اعلیٰ اور مثالی قدروں پر مشتمل تھا۔ اس کے بجائے ان کی توجہ مدینہ کی ریاست کے آخری حصّے پر رہی جب رسول اللہ کو ایک غیر چیلنج آمیز اقتدار حاصل ہو چکا تھا۔ حضرت علیؓ کا ایک بہت با معنی قول ہے جس کی معنویت اسلام کی آئندہ کی تاریخ میں زیادہ کھل کر سامنے آئی:”قرآن ایسی کتاب ہے جو صرف انسان کی زبان سے کلام کرتی ہے۔“ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی مفہوم کے استنباط یا کسی تصور کی تشکیل میں انسان کا اپنا ذہن ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلافات کی کثرت کی ایک لازمی وجہ یہ بھی ہے۔ یہ اشخاص یا اشخاص کے طبقات کا اپنا ذہن ہے جو اپنے طورپر ایسے اصول بناتا ہے جس سے وہ مطلوبہ نتیجہ اخذ کر سکے۔ اس تعلق سے (Gibb)گب کی بات بہت با معنی ہے کہ :” قرآن یا سنت اسلامی قانون کے استنباط کی بنیاد نہیں بلکہ محض اس کے ماخذ ہیں۔ حقیقی بنیاد تو اس ذہنی رجحان میں تلاش کی جانی چاہیے جس نے ان ماخذ سے نتیجے اخذ کرنے کے طریقے متعین کیے۔(٭
ان دو بنیادی اسباب کے پائے جانے کے لازمی نتیجے کے طورپر اس فکر کی تشکیل کے منہج میں ایسی خامیاں در آئیں جنہوں نے پوری فکری بساط الٹ کر رکھ دی اور اسلام کا اخلاقی اور روحانی پہلو بالکل حاشیے پر چلا گیا۔
(3)
قرآنی آیات کے نسخ کے تصور اور اصول کاایسا بے جا استعمال کیا گیا کہ قرآن میں صبر، اعراض ، برداشت، فکر و عقیدے کی آزادی، دوسری قوموں کے تعلق سے اعلیٰ اخلاقی و انسانی معاملے کی تعلیمات اس( نسخ) کے انتہا پسندانہ تصور کے تحت منسوخ قرار دے دی گئیں۔ ان میں وہ آیات بھی شامل ہیں جن میں مذہبی آزادی و رواداری کی تعلیم دی گئی ہے جیسے ” دین میں کوئی زبردستی نہیں“ ۔”جو شخص چاہے اسلام کا راستہ اختیار کرے اور جو چاہے اس سے انکار کا“۔یا کہ ”ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔“سورہ توبہ کی ایک آیت جسے آیت السیف(verse of sword)سے موسوم کیا جاتاہے کی بنیاد پر تقریباً ۰۴۱ آیات منسوخ ہو کر رہ گئیں۔(۷۳)
(4)
قرآن و سنت کی حرفی تعبیر( literal interpretation)سے پیدا ہونے والے فکری ابہام اور اسلامی تاریخ کو غیر معروضی انداز میں لکھے جانے کی وجہ سے عوام و خواص کے اہم طبقات میں مثالیت پسندی (Idealism)کا رجحان پیدا ہوا اور اس نے اہستہ آہستہ با ضابطہ اسلامی فکر کے دھارے میں اپنی جگہ بنا لی۔ دوسری طرف آمرانہ اور خاندانی حکومتوں کی ظالمانہ سیاست سے پیدا شدہ اضطراب اور مایوسی نے اس مشابہت پسندی میں اضافے کے ساتھ اسے عوامی جوش و جذبات سے بھی بھر دیا۔ کیونکہ مظلوم جماعتوں یا طبقات کی نظر میں اس درد کا علاج اس تصور اور طریقہ سیاست کو بحال کیے بغیر ممکن نہیں تھا ،جو بہتر صورت میں اسلام کی ابتدائی تین دہائیوں کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ یہی تصور آج کی احیائی فکر رکھنے والی(revivalist) جماعتوں کے ذہن پر غالب ہے۔
(5)
مسلم و غیر مسلم تعلقات کے حوالے سے اسلام کے یونی ورسل دین ہونے کے پہلو پر صحیح توجہ نہ دی جا سکی۔ اس طرح فقہ کے ٹیکنیکل اصولوں کی شدت کے ساتھ پیروی میں ان کے نتائج اور شریعت کے اصل مقاصد کو مرکز توجہ نہیں بنایا جا سکا۔ حنفی اور مالکی فقہ میں ایسے اصول تھے جن سے اس رخ پر کام میں مدد مل سکتی تھی لیکن، مثال کے طورپر امام شافعی اور دوسرے فقہا کی ان کی مخالفت کی وجہ سے انہیں زیادہ توجہ حاصل نہ ہو سکی اور ان کا صحیح کردار سامنے نہیں آسکا۔
ان کے علاوہ دیگر اہم تاریخی و جوہات اور عوامل ہیں جنھوں نے اسلام کی ناقص قانونی سیاسی فکر کی تشکیل میں نمایاں رول ادا کیا۔
**************************************************************
- حصہ سوم Part-3-
اسلام کی سیاسی فکر کا عصری منظر نامہ
مولانا مودودی اور سید قطب کے سیاسی اسلامی نظریات کا تنقیدی مطالعہ
مارچ1924 میں عثمانی خلافت کے خاتمے کی شکل میں مسلمانوں کے سیاسی مرکز کے ٹوٹنے کے بعد مسلمانوں نے دور جدید میں پہلی مرتبہ شدت کے ساتھ خود کو نہایت کمزور محسوس کیا۔ انھیں محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے چھت ہٹ گئی ہو اور وہ بالکل بے یار و مددگار ہو گئے ہوں۔مسلم ممالک پر قابض سامراجی طاقتوں کو اس واقعے سے مزید شہ اور قوت حاصل ہوئی اور مسلمان مزید سیاسی محکومیت اور مغلوبیت کے عذاب کا شکار ہوتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے اندر اس صورتحال سے پیدا شدہ مایوسی اور انتشار کے رد عمل میں دو طرح کے ذہنی رویّے عالم اسلام میں پیدا ہوئے ایک رویّہ وہ تھا جو اسلام کے روحانی اقدار کی باز یافت پر زور دیتا اور اسی تعلق سے انفرادی عبادت اور صوفیانہ اعمال و اشغال پر زور دیتا تھا۔ہندوستان میں مولانا الیاس کی قائم کردہ تبلیغی جماعت اور ترکی میں سعید نورسی کی” جماعت النور“اسی زمرے میں آتی ہےں جبکہ دوسرا رویّہ اسلام کے اجتماعی و سیاسی پہلوﺅں پر زور دیتا اور اسے بنیادی طورپر مسئلہ کا اصل حل تصور کرتا تھا۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی، مصر میں اخوان المسلمون اور انڈونیشیا کی ماشومی تحریک اس دوسرے زمرے میں آتی ہےں جنھیں احیائیت پسند(revivalist)کہا جاتا ہے۔ ان میں بر صغیر ہند میں” جماعت اسلامی“ اور عالم عرب میں ”اخوان المسلمون“ کو شہرت حاصل ہوئی اور وہ عوام و خواص کے ایک بہت بڑے طبقے کو اپنے افکار و خیالات سے متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔تاہم جماعت کو اخوان المسلمون پر فوقیت حاصل رہی۔ اس نے اس احیائی فکر کی حمایت میں نہایت شاندار اور مضبوط لٹریچر تیار کر دیا۔ اخوان کے پاس تحریکی اور انتظامی صلاحیت بے پناہ تھی لیکن وہ ایسے انقلابی لٹریچر سے محروم تھی جو قرآن و سنت کے ’ مطالعے‘ اور ان سے ’ اخذ کردہ دلائل‘ کی بنیاد پر عصر حاضر کے اسلوب اور نوجوانوں کو اپیل کرنے والے لہجے میں تیار کیا گیا ہو، یہ کمی مولانا مودودی (1903-79)کے لٹریچر نے پوری کر دی۔ احیائی فکر رکھنے کے باوجود اخوان کے بانی حسن البنا (1906-49) اسلام کو سیاسی اور انقلابی شکل میں پیش کرنے کے اس ہنر سے واقف نہیں تھے۔ بلکہ وہ اس کے قائل بھی نہیں تھے۔ یہ در اصل سید قطب (1906-66) ہیں جو مولانا مودودی کی انقلابی دینی فکر سے مولانا مودودی کی مختلف کتابوں خصوصاً ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ سے متاثر ہوئے۔ سید قطب اور بعض دوسری شخصیات کے ذریعے یہ فکر اخوان کے اندر پھیل گئی۔ سید قطب کی کتاب ” معالم فی الطریق“ (Signposts)میں پیش کردہ بنیادی فکر مولانا مودودی کی فکر سے ہی ماخوذ ہے۔ البتہ قید و بند اور اذیت دہی کے اُن تجربات کی بنا پر جو انہیں جمال عبدالناصر کی حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ پیش آئے، اس کا لہجہ زیادہ آتشیں ہو گیا ہے۔
اخوان کے بعض لیڈروں کو بھی اس کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا کہ سید قطب کے انتہا پسندانہ فکر سے متاثر ایک نیا طبقہ اخوان کے اندر پیدا ہو رہا ہے جس سے اخوان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اخوان کے مرشد عام حسن ہُضیبی نے اسی صورتحال کے پیش نظر ” دعاة لا قضاة“ لکھی۔ جس میں انہوں نے سید قطب کی فکر سے برات ظاہر کرنے کی کوشش کی۔اب اخوان سے رسمی طورپر وابستہ ، اس سے ہمدردی رکھنے والے بہت سے علما اور اکٹوسٹ بھی سید قطب کی روایتی اسلامی فکر سے متصادم ان شدت پسندانہ افکارکی یا تو تردید یا تاویل کر تے ہیں جس کے نتائج موجودہ جموری نظام سیاست کے تحت قائم مسلم معاشرے کی تکفیر اور مسلم حکم رانوں سے ناگزیر تصادم کی صورت میں نکلتے ہیں۔ اس ضمن میں یوسف قرضاوی، انور الجندی، محمد عمارہ، علامہ محمود شاکر، ڈاکٹر عزالدین اسماعیل وغیرہ کا نام آتاہے۔
نظری سطح پر اخوان کی صفوں میںاس تبدیلی جیسا کوئی مظہر ہندوستان و پاکستان کی جماعت اسلامی کے تعلق سے بالکل نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہاں کا جمہوری ماحول ہے۔یہاں اظہار رائے کی مکمل آزدی ہے اور اسی وجہ سے جماعت اسلامی کا وہ آتشیں لٹریچر جس نے مسلم دنیا سے لے کر مغربی ممالک تک اسلامزم کو پروان چڑھانے اور مسلم جماعتوں کو ریڈیکل بنانے میں سب سے بنیادی رول ادا کیا ہے، اب بھی اہتمام کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہندوستان کی جماعت اسلامی کے موجودہ کارکنان مولانا مودودی کی زیر بحث شدت پسندانہ فکر پر گفتگو سے دامن بچاتے اور خود کو معتدل ثابت کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں تاہم نہ تو وہ اس سے برات کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی بانی جماعت پر اس تعلق سے تنقید کو جائز تصور کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ ایک نظری کشمکش اور تضاد فکر و عمل(duality)میں مبتلا ہیں۔
مولانا مودودی کی اس نہج پر ذہنی تشکیل، جو بعد میں ایک مخصوص شکل میں سامنے آئی، اس کی ابتدا پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں اس مرحلے میں ہوئی جب انہوں نے ” الجمعیة“ کی ادارت کے دوران ’ الجہاد فی الاسلام‘ لکھنی شروع کی۔ پھر 1928 میں الجمعیة سے دست برداری کے ساتھ انھوں نے 33ءمیں حیدر آباد سے ترجمان القرآن کی اشاعت سے اپنے کام کی شروعات کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں قومی سیاست عروج پر تھی۔ ابو الکلام آزاد جو پہلے احیائی اور پان اسلامک فکر کے حامل تھے، 1920 تک اس سے کنارہ کش ہو کر قومی سیاست میں شامل ہو چکے تھے۔ عالمی سطح پر ایک طرف اشتراکیت کی لے اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ مسلم اہل علم و فکر کی ایک بڑی تعداد اس بہاﺅ کی زد میں آچکی تھی۔ اسلامی نظام کے غلبے کی سوچ رکھنے والے مولانا مودودی کے لیے اس صورتحال سے مضطرب و غیر مطمئن ہونا فطری تھا۔چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے اس بات کی کوشش کی کہ وہ ایک مو¿ثر لٹریچر تیار کر کے نئی نسلوں کے اندر اسلامی مشن کے لیے آمادگی اور امنگ کی کیفیت پیدا کریں۔ اس کے تحت انھوں نے” الجہاد فی الاسلام“، ” اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی“، ” تنقیحات“ وغیرہ لکھیں۔ جن کے اندر جدید مغربی تہذیب کی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے اسلامی نظام کو اس کے ایسے متبادل کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی جس میں ان کی فکر کے مطابق اس دور کے عائلی، سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے تمام تر مسائل کا تشفی بخش حل موجودتھا۔ مولانا مودودی کی اس فکر نے تیزی کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں اپنی جگہ بنائی اور ایک طبقہ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہو گیا، اس کے بعد1941میں جماعت اسلامی کی بنیاد پڑی۔ تقسیم ہند کے بعد مولانا مودودی کےidealistic approach میں مزید شدت آئی۔ اسے پاکستان ریڈیو سے1948میں اسلامی نظام حیات پر کی گئی ان کی پانچ تقریروں میں واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔1979میں اپنے انتقال تک وہ پورے انہماک کے ساتھ اپنے مشن میں لگے رہے ان کی دینی سیاسی فکر کی تنقید میں ان کی زندگی میں ہندوستان کی ہی کم از کم دو اہم شخصیات نے کتابیں لکھ کر ان کی فکر کی کمزوریوں ور اس کی خطرناکیوں کو ان پر واضح کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی فکر پر نظر ثانی کے لیے آمادہ نہ ہوئے(۸۳)۔
جماعت اسلامی کی دینی سیاسی فکر کا اسلام کے مستند سیاسی فکر سے انحراف اور اس کے نتائج
مولانا مودودی لکھتے ہیںکہ : ” اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر کھی گئی ہے:توحید، رسالت اور خلافت“ (۹۳)۔ ان تینوں اصولوں سے وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت اور رسول کی لائی ہوئی شریعت کے نفاذ کا نظریہ اخذ کرتے ہیں۔ توحید کی حقیقت، رسول کی بعثت کا مقصد اور انسان کے اس دنیا میں پیدا کیے جانے کا مقصد ان کی نظر میںیہی ہے۔جس کا انھوں نے مختلف اسلوب و انداز میں مختلف جگہوں پر اظہار کیا ہے۔ رسول کی بعثت اور مشن پر گفتگو اسلام کے غلبے کے تصور کی بحث میں آئے گی۔ یہاں بقیہ دو امور : توحید اور خلافت انسانی پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
توحید: توحید کی تشریح مولانا مودودی اس طرح کرتے ہیں کہ:”توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا تنہا خالق، پروردگار اور مالک ہے۔ حکومت اور فرمان روائی اسی کی ہے۔“یہاں تک بات بالکل صحیح ہے لیکن اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ : توحید کا یہ اصول انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کر دیتا ہے۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حم قانون ہے۔“ اس طرح توحید کو ماننے یا موحد ہونے کا تقاضا ہے کہ غیر اسلامی شریعت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت کا مکمل انکار کیا جائے کیوں کہ یہ ان کی نظر میں توحید کے منافی ہے۔مولانا کی سب سے زیادہ مشہور اور متنازعہ فیہ کتاب ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ در اصل اسی نظریے کو قرآنی بنیاد پر ثابت کرنے کے لیے لکھی گئی۔ اس لیے تو حید اور قرآن کے تناظر میں لکھی گئی اس کتاب نے نوجوان طبقے پر سب سے زیادہ اثرات ڈالے۔ سید قطب نے بنیادی طورپر اسی کتاب سے ” جاہلیت“ اور ” حاکمیت الٰہ “کا نظریہ اخذ کیا جس کے تحت وہ جدید سوسائٹی کو اسلام سے ما قبل کی کفر و شرک پر مبنی، اسلام کی روشنی سے محروم سوسائٹی کے مثل قرار دیتے اور جمہوری و سیکولر سیاسی نظاموں کو ” طاغوت“ اور ان کی اتباع کرنے والوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف برسر جنگ ہونے کو فرض تصور کرتے تھے۔
اس کتاب میں مولانا نے بنیادی طورپر چار اصطلاحوں سے سے بحث کی ہے۔ یعنی : الٰہ، رب، دین اور عبادت۔ مولانا مودودی کی نظر میں یہ چاروں اصطلاحات اس درجے کی ہیں کہ :
” ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم بلکہ اس کی حقیقی روح نگاہوں سے مستور ہو گئی۔ اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد واعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔“(۰۴)
قرآن کی ان چاروں اصطلاحات سے مولانا نے خدا کے مافوق الفطری اقتدار و اختیار کے ساتھ سیاسی و تمدنی اقتدار و اختیار کا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے دلائل و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ : الٰہ یا رب کے مختلف معنیٰ ہیں۔ ان مختلف معنوں میں قرآن میں ان کا استعمال ہوا ہے لیکن ان کا مرکزی مفہوم اقتدار کا مفہوم رکھتا ہے باقی تمام مفہومات اور اس مفہوم میں ایک منطقی ربط ہے اور اس طرح اس کا ایک جامع مفہوم یہ نکلتا ہے کہ خدا ایک ایسی ذات ہے جو ہر صورت میں اقتدار اور حاکمیت کی طالب ہے۔اس حاکمیت اور اقتدار کا تعلق اس سے جس طرح تکوینی امور اور ما فوق الطبیعی(Metaphysical) امور میں ہے اسی طرح سیاسی، سماجی اور تمدنی امور میں بھی ہے۔ ان کے الفاظ میں الٰہیت (الٰہ یعنی خدا ہونے) کی اصل روح اقتدار ہے۔“ یا یہ کہ ” الٰہیت اور اقتدار لازم و ملزوم ہیں اور اپنی روح و معنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی چیزہیں “(۱۴) اسی طرح ’ رب ‘ کا مفہوم پروردگار ( پالنے والا) نہایت محدود مفہوم ہے۔ اس کا اصل مفہوم بھی ’ سید مطاع‘( آقا جس کی اطاعت کی جائے)، سردار ذی اقتدار جس کا حکم چلے جس کی فوقیت و بلا دستی تسلیم کی جائے، جس کو ” تصرف کے اختیار ہو“ ہے۔ اس طرح دین اور عبادت ان کے نزدیک خدا کے اقتدار کے آگے انسان کا جھک جانا اور اس کا محکوم ہو جانا ہے۔ اس اعتبار سے اصل دین اور اصل عبادت یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی ساری مخلوقات ما فوق الفطری طورپر اللہ کے آگے جھکی ہوئی ،اللہ کے حکم کی پابند ہیں اسی طرح سیاسی و تمدنی سطح پر بھی انسان اس کے حکم کو اپنے اوپر نافذ کر کے خود کو اس کا پابند بنائے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو نہ تو وہ دین کا حق ادا کرتا ہے اور نہ ہی عبادت کا۔ نہ ہی دین دار کہلانے کا مستحق ہے اور نہ عبادت گزار۔ اس طرح خدا کے ساتھ اس کا تعلق ، اس کی دین داری، اس کی عبادت کا تقاضا،” حکومتِ الہیہ“ کے اس زمین پر قیام کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ ان چاروں اصطلاحات کے تعلق سے مولانا نے الٰہ کے مطلوبہ مفہوم کے لیے آیات(۸۶:۸۲،۲۲،:۱۲) رب کے مفہوم کے لیے آیات(۵:۷،۴۱:۵۳ وغیرہ) عبادت کے مفہوم کے لیے آیات(۴۱:۰۱،۲۷۱:۲ وغیرہ) اور دین کے مطلوبہ مفہوم کے لیے آیات(۵:۸۹، ۲۵:۶۱،۴۱:۹۳) سے استدلال کیا ہے۔
بنیادی طورپر ان تمام آیات کے مفاہیم میں اقتدار و حاکمیت ( الٰہ اور رب کے مفہوم کے تعلق سے) اور اس اقتدار و حاکمیت کو بلا چون و چرا تسلیم کرنے ( دین اور عبادت کے مفہوم کے تعلق سے ) کا تعلق ما فوق الفطری(Metaphycal) اور تکوینی معنوں میں ہے نہ کہ تشریعی اور تمدنی و سیاسی معنوں میں۔یعنی خدا ” الٰہ“ کے معنی میں پناہ دینے والا، حاجت پوری کرنے والا ، ” رب “ کے معنیٰ میں پرورش کرنے والا ،دیکھ بھال کرنے والا تکوینی طورپر ہمیشہ سے خدا ہی ہے اور وہی رہے گا۔ اسی طرح عبادت اور دین کے حقیقی تقاضے کو اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ سے وابستہ کر کے دیکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی نظام سے باہر گزاری جانے والی زندگی سرے سے اسلامی نہیں ہے۔ دین و عبادت کا حق غیر شرعی معاشرے میں ادا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں پر پہلا فرض ہے کہ وہ ” امامت صالحہ“ یا ” حکومت الٰہیہ“ کو قائم کرنے کی کوشش کرےں۔اس طرح مولانا مودودی نے صدیوں کے ( اوراول درجے میں آج کے) تمام مسلم ممالک کی سوسائٹیوں کو جاہلیت کے خانے میں ڈال دیا۔ مصر کی سب سے ریڈیکل مسلم تحریک الہجرة و التکفیر جس کے ارکان اپنے علاوہ کسی کو مسلمان تصور نہیں کرتے تھے کی نظریاتی اساس در اصل یہی فکر تھی۔ یہ مولانا مودودی اور ان کی پیروی کرنے والوں کے ذریعہ اسلام کی سیاسی فکر میں پہلی صدی کے خارجیوں کے بعد سب سے بڑی تحریف ہے۔
محولہ بالا آیات جن سے مولانا نے استدلال کیا ہے، ان پر ایک نظر ڈالیے: قرآن کی آیت کا ٹکڑا ہے: ” وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں، دنیا و آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اور اس کے لیے حکم ( فیصلہ) ہے۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاﺅگے(۲۴)۔ آیت کے سیاق و سباق سے مافوق الفطری معنوں میں خدا کے اقتدار و حکومت کا معنی واضح ہے اور مفسرین میں سے تمام قابل ذکر مفسرین نے یہی معنی لیے ہیں مثلا: طبری، بحر المحیط، کشاف، خازن ، روح المعانی وغیرہ ۔ دور جدید کے مفسرین و مترجمین قرآن: اشرف علی تھانوی، مفتی شفیع، عبدالماجد دریا بادی، مولانا محمود حسن وغیرہ نے اسی کی پیروی اور تصدیق کی ہے۔
خلافت: خلافت کا نظریہ مولانا مودودی کی دینی سیاسی فکر کی ایک نہایت اہم کڑی ہے۔ خلافت کے تصور کے تعلق سے اسلامی فکر میں بہت پہلے سے ابہام اور انتشار چلا آرہاہے۔ مولانا مودودی نے ابہام سے فائدہ اٹھایا اور اپنے نظریہ سیاسی کو اس سے مستحکم کرنے میں مدد لی۔ خلافت کا نظریہ در اصل اس سوال سے مربوط ہے کہ زمین پر انسان کی حیثیت یا پوزیشن کیا ہے؟ مفکرین اور مفسرین قرآن کا ایک طبقہ اس خیال کا حامل رہاہ ے کہ انسان اللہ کی زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے، یہ نظریہ قرآن کی مختلف آیتوں (۵۶۱:۶،۰۳:۲) سے اخذ کیا گیا ہے جن میں ” خلیفہ“ اور ” خلائف“( خلیفہ کی جمع) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آیت :” ہم نے تم کو زمین پر جانشیں کی حیثیت دی یا جا نشیں بنایا“کی تشریح میں مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ :” انسان کو خدا کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔“ اپنے اس نظریے کی مزید تشریح وہ اپنی کتاب ” اسلامی نظام حیات“ میں اس طرح کرتے ہیں:
” اب خلافت کو لیجئے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب(vicegerent)ہے، یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے(۳۴)۔
ایک دوسری جگہ وہ اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
” اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں مسلمان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے۔ اسلامی نظریہ¿ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہوگی وہ در اصل خدائی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہوگی جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کرکے اس کا منشا پورا کرنا ہوگا۔“(۴۴)
مولانا مودودی کی طرح ہی سید قطب اپنی مشہور تفسیر ” فی ظلال القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ : وہ ( انسان) اس کی زمین میں ا س کا خلیفہ ہے۔ اور اس خلافت پر اس کو مقرر کرنے والا وہی ( اللہ) ہے۔“(۵۴) ۔ اس تفسیر کے انگریزی ترجمے میں قرآن کی اس آیت کا کہ : ” میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں“ ترجمہ یہ کیا گیا ہے:
Iam going to make my vicegerent on earth-(46)
اس میں myکا اضافہ مترجم نے اپنی طرف سے ( شاید) سید قطب کی فکر کو سامنے رکھ کر کر دیا، ورنہ قرآن میں اس کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز نے سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی کی متفقہ رائے سے اس موقف کی حمایت میں فتویٰ دیا اور مخالف رائے کی تردید کی(۷۴)۔
بہر حال مولانا مودودی کا یہ تصور سراسر اسلام کے خلاف ہے اس لیے اس بنیاد پر یہ نظریہ قائم کرنا کہ:
” یہ ( مسلمان) مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین و مبشرین کی جماعت نہیں، بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے اس پارٹی کے لیے حکومت کے اقتدار پر قبضہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔“(۸۴)
خلافت کے اس تصور کے تعلق سے سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام بنی نوع انسان( مسلم وغیر مسلم) خلیفة اللہ ہونے کی حیثیت میں برابر ہیں تو پھر یہ اختتار صرف ایک گروہ( مسلمان) کو کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دوسرے گروہوں کو اللہ کی حکومت کا شہری بنا کر ان پر حکومت کرے اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرے؟ اس لیے مولانا مودودی قرآن کی دوسری آیات سے مسلمانوں کے اس منصب یا مشن کو اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک آیت یہ ہے :’ ’ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو“(۹۴)۔ ” قائم رکھو“ کے لیے قرآن میں ” ا قیموا“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ا قام کے معنی عربی میں کسی چیز کو اچھی طرح کرنا ، اس کا حق ادا کر دینا کے ہیں۔چنانچہ نما ز کو اچھی طرح ادا کرنے کےحکم کے تعلق سے بارہ جگہ قرآن میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ۔ اس تعلق سے کوئی دوسرا معنی مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ عربی اور اردو کے تمام بڑے مفسرین نے دین کو قائم رکھنے سے دین کی اساسی تعلیمات(خدا کا ایک ہونا، مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، یوم حساب پرایمان لانا، رسالت کو تسلیم کرنا وغیرہ) پر اچھی طرح قائم رہنا یا خود کو قائم رکھنا مراد لیا ہے۔” دین“ سے شروع سے اخیر تک تمام انبیا کے درمیان مشترک دین کا یہی بنیادی تصور مراد ہے نہ کہ کل دین ( شریعت کا عملی ڈھانچہ) گویا اقامت دین ایک انفرادی عمل ہے نہ کہ اجتماعی۔ وہ ہر فرد سے اس کی اپنی ذات سے مطلوب ہے نہ کہ دوسروں کی ذات کے تعلق سے۔ اسلام پسند حلقوں میں اس کا ترجمہ جو ” دین کو قائم اور نافذ کرو“ سے کیا جاتا ہے اس کی کوئی علمی بنیاد اور قرآن و سنت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
خلاصہاوپر کی گئی پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک اخلاقی اور روحانی مذہب ہے۔ وہ کسی سیاسی فکر کا نام نہیں ہے۔ سیاست اسی کا جز ضرور ہے لیکن وہ اس کے Coer Values میں شامل نہیں۔ مذہب ہونے کی حیثیت سے وہ سیاست کے بغیر بھی اتنا ہی مکمل ہے جتنا سیاست کے ساتھ۔ قرآن کی آیات اور رسول اللہ کا عمل اس بات کے واضح دلائل فراہم کرتے ہیں کہ اسلام پلورلزم میں یقین رکھتا ہے۔ وہ کسی کے عقیدے کی بنیاد پر اس کے ساتھ امتیازی برتاﺅ کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کی سیاسی فکر کی تشکیل چونکہ اسلام کے تہذیبی عروج اور غلبے کے دور میں ہوئی تھی اس لیے اس میں ایسے نظریات نے راہ پالی یا بعض نظریات کے ایسے مفہومات نکال لیے گئے جن سے دوسری قوموں کے ساتھ ابدی طورپر جنگ اور کشمکش کو جواز فراہم کر دیا گیا حالانکہ یہ قرآن کی فکر اور اسلام کی روح کے خلاف ہے۔
مولانا مودودی ، سید قطب اور اسی طرح کی بیسویں صدی کی دوسری مسلم شخصیات کی فکر اس دور کے سیاسی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھی۔ انھوں نے اسلام کو سیاست کے تابع کر دیا اور سیاسی اقتدار کے حصول اور اسلامی حکومت کے قیام کو اسلام کا اصل مقصود قرار دے ڈالا۔ یہ ایسی جسارت ہے جو اسلام کی پوری فکری تاریخ میں کبھی نہیں کی گئی۔ اس فکر سے پورے دین کا تصور اپنے مرکز سے ہٹ گیا۔ لیکن یہ بات ذہن مںی رہنی چاہیے کہ در اصل یہ اسلام کی روایتی دینی سیاسی فکر کا انتشار اور غیر معقولیت ہے جس نے جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون سمیت دوسری احیائی تحریکوں کو اسلام کوPoliticiseکرنے کا موقع دیا۔
شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ : رسول اللہ کے انتقال کے ساتھ ہی روم اور فارس کی مہمات شروع ہو گئیں اور عرب کی دماغی اور عملی قوت کا سارا زور مہمات ملکی کی طرف مصروف ہو گیا۔“( مقالات شبلی) اسلام کی دینی سیاسی فکر کے نقائص اور کمزوریوں کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس وقت کی شدید ضرورت ہے کہ اسلام کی روایتی سیاسی فکر پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں مناسب تبدیلی لائی جائے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کے عمل کو متحرک کر کے مذہبی فکر کی نئی تشکیل کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔
حواشی اور فٹ نوٹس
(۱) الخلق عیال اللہ ( بیہقی) (۲) الشوری: ۳۱ (۳) فتح الباری: ۲۷۱/۱ (۴) بخاری حدیث نمبر ۳۱ ، نسائی حدیث نمبر ۹۳۰۵ (۵) نسائی حدیث نمبر ۵۹۹۴ (۶)مشکوٰة : باب الرفق والحیا وحسن الخُلق ص ۴، ۳، ۲ (۷) البقرہ : ۵۹۱، التوبہ : ۶۳ (۸) البقرہ : ۳۹۱، البقرہ : ۷۱۲ (۹) بخاری (۰۱) القصص : ۷۷ (۱۱) بخاری (۲۱) البقرہ : ۶۸۲ (۳۱) آل عمران: ۹۷ (۴۱) بنی اسرائیل :۰۷ (۵۱) در مختار (۶۱) الروم : ۲۲ (۷۱) الججرات: ۳۱ (۸۱) البقرہ: ۶۵۲ (۹۱) الکہف: ۹۲ (۰۲) یونس : ۹ (۱۲) التغابن: ۲ (۲۲) الکافرون : ۶(۳۲) البقرہ: ۹۳۱، القصص : ۵۵ (۴۲)ابن ہشام: السیرة النبویة ۲/۷۴۴ (۵۲) حمید اللہ: خطبات بہاول پورص:۸۱۴ (۶۲) الحج: ۰۴ (۷۲) المائدہ: ۸ (۸۲) النسائ: ۵۳۱ (۹۲) نسائی (۰۳) یوسف قرضاوی: من فقہ الدولة فی الاسلام ص: ۷ (۱۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: اسلام اور بین قوامی تعلقات منظر اور پس منظر ( مصنف کی اصل کتاب عربی میں یہ اس کا اردو ترجمہ ہے جو قاضی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا ہے۔ (۲۳) محمد اقبال: تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ( ترجمہ : نذیر نیازی Reconstruction of Religious thought in Islam )چھٹا خطبہ الاجتہاد فی الاسلام ص :۳۵۲ (۳۳) احیاءعلوم الدین : ۱/۲۲ (۴۳) اقبال افغانی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” یہ غالباً شاہ ولی اللہ تھے جنھوں نے سب سے پہلے ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی۔ لیکن اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا تو سید جمال الدین افغانی کو جو اسلام کی حیات ملی اور حیات ذہنی کی تاریخ میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور ان کی عادات و خصائل کا خوب خوب تجربہ رکھتے تھے۔“ لیکن ان کا زیر حوالہ عادل ڈکٹیٹر کا نظریہ اقبال کی ان کے بارے مںی رائے کے بالکل بر عکس ہے۔ (۵۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: ازمة العقل المسلم ص ۸۳ (۶۳) عبدالحمید احمد ابو سلیمان: اسلام اور بین اقوامی تعلقات ص: ۲۹(۷۳) مصطفی ابو زید الناسخ والمنسوخ ۲/۸۰۵ (۸۳) ان دو شخصیات میں سے پہلا نام مولانا وحید الدین خاں کا ہے جنھوں نے اس موضوع پر ” تعبیر کی غلطی ( ۳۶۹۱) “ لکھی اور دوسرا نام مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ہے ۔ ان کی کتاب کا نام ہے” عصر حاضرمیں دین کی تفہیم و تشریح(۸۷۹۱)‘ (۹۳) اسلام کا نظام حیات (۰۴) قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ص: ۰۱ (۱۴) ایضاً (۲۴) القصص: ۰۷ (۳۴) اسلام کا نظام حیات ص ۶۱ (۴۴) ایضاً (۵۴) ص:۷۰۷/۲ (۶۴) ص :۰۱ (۷۴) محمد صبیح الدین انصاری : کیا انسان خلیفة اللہ ہے ص ۱۷۱ (۸۴) مسلمان اور سیاسی کشمکش (۹۴) الشوریٰ: ۳۱ (۰۵) المعجم الوسیط (٭) H.A.R. Gibb : Muhammadanism p.91 ( بحوالہ اسلام اور بین الاقوامی تعلقات ص ۵۳۱)

1 comment:

  1. Assalamualaikum,
    What do you mean by Secular ulama? Does it means compromise in ones religion, or does it means relinquishing it completely. Please Enlighten me.

    ReplyDelete