وارث مظہری
اس وقت ہر طبقے میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ مختلف پہلوﺅں سے مسلم معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے۔ وہ خصوصیات و امتیازات جس سے مسلم اور غیر مسلم معاشرے میں فرق قائم ہوتا تھا، وہ بعض مذہبی اعمال اور ظاہری تشخص کی حد تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان خصوصیات و امتیازات کے اجتماعی انسانی سطح پر رونما ہونے والے وہ نتائج جو اسے دیگر معاشروں کی نظر میں قابل رشک حیثیت عطا کرتے ہوں، دوسروں کی نظر میں ہی نہیں خود ہماری نظر میں بھی سامنے نہیں آرہے ہیں۔ علما مسلم معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو معاشرے کو صحیح اور متوازن رخ پر گام زن رکھنے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ مسلم سماج کی تشکیل و اصلاح میں دوسرے تمام طبقات کا رول ضمنی جبکہ علما کا رول اساسی اور جامع ہے۔ مسلم سماج کے اصل پاسبان وہی ہیں ان کی اس حیثیت کی تعیین رسول اللہ کی اس مشہور حدیث سے ہوتی ہے جس میں انہیں ” انبیاءکا وارث“ کہا گیا ہے( العلماءورثة الانبیائ(بخاری باب العلم)) اسلامی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلم سماج نے علما کو ہمیشہ رہنماکے مقام پر رکھا۔ اس میں عموماً قابل ذکر کمی اس وقت آئی جب حکمراں علما کو اپنے دامن ظلم و فریب میں پھنسانے میں کامیاب ہو گئے۔ یا دوسرے طریقوں سے علما دنیا کی ہوس میں مبتلا ہو کر شاہراہ علم و عمل سے ہٹ گئے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں طبقہ علماکی اکثر تعداد عزم و استقامت پر قائم رہتے ہوئے اپنے بنیادی اجتماعی فرائض کی انجام دہی پر قائم رہی۔
موجودہ دور میں یہ سوال بکثرت اٹھایا جاتاہے کہ مسلم سماج کی اصلاح اور اس کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے تعلق سے علما کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ انہیں کس حد تک نبھانے میں کامیاب ہیں؟ سماج کے تعلق سے محاسبہ سماج کے ہر طبقے سے ہونا چاہیے۔ اس میں علما کا کوئی اختصاص نہیں، لیکن مختلف وجوہات سے علما پر احتساب کی نگاہ بجا طورپر زیادہ ٹھہرتی ہے۔ ان میں تین وجوہات خاص اور نمایاں ہیں
٭ قرآن و حدیث کی رو سے علما کو دوسرے طبقات پر فضیلت ان کی اجتماعی ذمہ داریوں کی بنا پر عطا کی گئی ہے۔ اگر وہ ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں تو اپنے مقام پر باقی نہیں رہتے اور اس صورت میں وہ خود دوسروں کو تنقید کا موقع دیتے ہیں۔
٭ خود علما اس بات کے مدعی ہیں کہ انھیں مسلم سماج کی رہنمائی اور قیادت کا مقام حاصل ہے اور اس حیثیت میں وہ اعزاز و احترام کے مستحق ہیں۔
٭ ہندوستان جیسے ملکوں میں فی زمانہ طبقہ علما کی اکثریت معاشی سطح پر عوام پر انحصار کرتی ہے۔ یہ انحصار عوام کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ علما کا محاسبہ کریں۔ اس کے علاوہ اسلام کی عمومی اسپرٹ بھی یہ ہے کہ سماج کا ہر طبقہ اور ہر فرد دوسرے کو خیرکی تلقین کرنے والا اور برائیوں پر ٹوکنے والا ہو۔
اس میں شک نہیں کہ مسلم سماج میں خیر و فلاح کے جواثرات اور مذہبی اقدار کی جو شکلیں محفوظ و برقرار ہیں ان میں علما کا اہم رول ہے۔ اگر علما کو پس منظر سے ہٹا دیا جائے تو مسلم سماج دوسرے سماجوں کی طرح مختلف ایسی اجتماعی خرابیوں کا شکار ہو جائے گا جو سرے سے اسلامی تعلیمات کی نفی کے ہم معنی ہیں۔ لیکن اس وقت بر صغیر ہند کے تناظر میں علما کے اجتماعی کردار اور معاشرتی ذمہ داریوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے تو نہایت الم ناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ علما کا طبقہ آہستہ آہستہ بذاتِ خود اپنے آپ کو اجتماعی ذمہ داریوں سے علاحدہ کرتا جا رہا ہے یا دوسری صورت میں اس طبقے کو موجودہ تقاضوں کی روشنی میں رہنمائی کی صفت سے محروم ہونے کی بنا پر عوام نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ نظر انداز کرنے کے اس عمل کو علما عوام کی گمراہانہ اور غیر اسلامی روش کی شکل میں دیکھتے ہیں جبکہ عوام کھلے طورپر علما پر یہ الزام عائد کر تے ہیں کہ ظاہری اسلامی صورت کے علاوہ، جو ان کی شناخت کا وسیلہ ہے، علما اخلاقی سطح پر عوام سے بلند نہیں ہیں، بلکہ عوام بہت سی چیزوںکا ارتکاب گناہ سمجھ کر کرتے ہیں جبکہ ہمارے علما بہت سے کبائر کو حیلوں اور تاویلات سے اپنے حق میں جائز کر لیتے ہیں۔
سماجی اصلاح کی دو سب سے اہم بنیادیں ہیں: تعلیم اور اخلاقیات۔ قرآن میں کار نبوت کے حوالے سے ان دونوں چیزوں کا تذکرہ اس آیت قرآنی میں موجود ہے: ربنا و ابعث فیہم رسولا منہم یتلو علیہم آیاتک و یعلمہم الکتاب و الحکمة و یزکیہم انک انت العزیز الحکیم۔” اے ہمارے رب ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور ان کے باطن کی صفائی کرے۔“ (۲/۱۲۹) ان دونوں چیزوں کے مختلف پہلو ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے اہم پہلو ہے: دین کی بنیادی تعلیمات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانا۔ حقیقت یہ ہے کہ علما نے اس پہلو پر کافی محنت کی۔ بر صغیر ہند پر انگریزی عمل داری قائم ہو جانے کے بعد یہ مسئلہ بہت پیچیدہ اور مشکل ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن علما نے مستقل جد و جہد اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعہ اس محاذ پر کامیابی حاصل کی۔
البتہ تعلیم کا دوسرا پہلو قوم کی فکری تشکیل و تعمیر کا ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں یہ کام خاص طورپر1947میں آزادی کے بعد علما کی دوسری نسل کو انجام دینا تھا لیکن یہ کام سرے سے انجام نہیں دیا جا سکا۔ کسی قوم کی ذ ہنی تعمیر ہی در اصل اس قوم کی تمدنی ارتقا کی بنیاد ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم ذہنی سطح پر زمانے کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتی اور دوسری مقابل اقوام کی ذہنی صلاحیتوں کا ساتھ نہیں دے پاتی تو عین فطرت کے بے لچک قانون کے مطابق وہ حاشیہ پر آجاتی ہے۔ علما کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی نسلوں کے اذہان کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے بعد انھیں فطرت کے بطن سے پیدا ہونے والے علوم و حقائق سے آگاہی کا بندوبست کریں۔ کیونکہ صرف ذہن کا اسلامی سانچے میں ڈھلنا، مذہبی معلومات اور ما بعد الطبعیاتی معارف سے آشنا ہونا اس منصوبے کی عملی تشکیل کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک ایسی نسل وجود میں آجائے جو خدا کے نقشے کے مطابق، انسانی سماج کو ترقیات کی بلندیوں تک لے جانے والی ہو۔
دوسری چیز اخلاقیات ہے جو دین کی اصل روح اور پیغمبروں کی بعثت کا اصل مقصد اور نشانہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ : بعثت لاتمم حسن الاخلاق( میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔موطا) علما نے مسلم نسلوں کی اخلاقی تربیت و تزکیے کے پہلو کو بہت حد تک نظر انداز کر دیا۔ اس کے نقصانات فطری طورپر اس شکل میں سامنے آئے کہ ہماری نسل چاہے وہ مدارس سے اٹھنے والی ہو یا جدید دانش گاہوں سے۔ عام انسانی اخلاقیات کو بھی سماجی سطح پر برتنے میں کمزور ہے کجا کہ وہ اس کا اعلیٰ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ اگر مدارس کے ارباب انتظام و اہتمام خود اپنے طبقے کے علما و فاضلین کے استحصال میں کوئی کسر نہ چھوڑیں؟ جمہوریت کی تمام شکلوں کو پامال کر کے تمام وسائل و ذرائع پر اپنا اور اپنی اولاد کا قبضہ بحال رکھیں۔ بلند و بالا مساجد اور فضول وغیر ضروری یا نمائشی عمارتوں کی تعمیر میں اپنے پڑوس کے ان غربا اور مریضوں کو نظر انداز کر دیں جن کے یہاں مشکل سے چولھے جلتے ہیں اور جو مناسب دواﺅں کی بر وقت فراہمی سے عاجز رہ جانے کی بنا پر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں، تو ایسی صورت میں انہیں معلمین اخلاق کے منصب پر بٹھانے کے لیے کون اور کیوں تیار ہوگا؟ اسی طرح خود علما کے ذریعہ چلائے جانے والے دوسرے دینی و سماجی اداروں کا نظام تصادم، داخلی خانہ جنگی، بے اصولی، بد دیانتی، اقربا پروری، نا اہلیت اور اس طرح کی دوسری قابل ذکر اجتماعی امراض کی آماجگاہ ہو تو آخر کس طرح علما کو یہ سرٹیفیکیٹ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کو پھیلانے اور ان کا احیا کرنے والے ہیں؟
سماجی اصلاح کی بنیاد سماج کے باشندوں کے اخلاقی ارتقا پر ہے۔ اگر ان میں سماجی اخلاق نمو پانے سے قاصر ہیںتوسماجی اصلاح کا عمل دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
علما کی طرف سے ایک افسوس ناک روش قومی تعصب میں اجتماعی اخلاقیات کو نظر انداز کر دینا ہے۔ اس کو ایک مثال کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ 2007میں جامعہ نگر اوکھلا میں پولیس کے ذریعہ مبینہ طورپر قرآن کی بے حرمتی کا معاملہ سامنے آیا۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ نے جامعہ نگر پولیس چوکی کو آگ لگا دی۔ قریبی دوسری پولیس چوکی پر بھی حملہ کیا اور اس طرح نہایت اشتعال انگیز اور سنسنی خیز کیفیت پیدا ہو گئی۔ بعد میں علاقے کے ہر با شعور پر معاملے کی حقیقت واضح تھی کہ یہ محض نوجوانوں کی شرارت ہے کیونکہ قرآن کے پارے پولیس والے کی غلطی سے گرے تھے نہ کہ دانستہ طورپر، لیکن راقم الحروف نے بعض طویل القامت علماکی زبان سے خود سنا کہ اگرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ غلطی خود ہمارے نوجوانوں کی ہے لیکن چونکہ یہ معاملہ کافی طول پکڑ چکا ہے اس لیے اب اس صورت میں ہمیں سیاسی مصلحت کے تحت اسی( غلط) موقف کی تائید کرنی چاہیے۔
آخر یہ عین قومی تعصب نہیں تو کیا ہے جس پر اللہ کے رسول نے وعید سنائی ہے ۔اور اسے گڑھے میں گرے ہوئے اونٹ کو اس کی دم کھینچ کر بچانے سے تشبیہ دی ہے۔ اکثر قومی معاملات میں ہمارا رویہ ہمارے اس قومی تعصب و جانب داری کا آئینہ دار ہوتاہے۔ ایسی مثال عنقا ہے کہ ہمارے علما کی لیڈر شپ نے ایسے اجتماعی معاملات میں انصاف وغیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوم کی غلطی کا اظہار و اعتراف کیا ہو۔ بنیادی طورپر علما نے ملت کی اکثر صورت میں دفاع کو ہی سیاسی اخلاق کا بنیادی فلسفہ بنا رکھا ہے۔
علماکے اندر اصلاح معاشرہ کی فکر اور اس کا چرچا پایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا تصور صرف اس حد تک محدود ہے کہ مسلم معاشرے کو غیر مسلم اثرات سے پاک کیا جائے ۔ اس تناظر میں بھی صرف چند غیر اسلامی سماجی رسوم اور مظاہر پر نظر ٹھہر کر رہ جاتی ہے۔ جبکہ سماجی اصلاح کا مطلب انسان کے انفرادی و اجتماعی اعمال کی اس طرح ترشید (channalisation) کرنا ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی سماج کے تمام تر طبقات اور گروہوں کے لیے خوبی اور خیر خواہی کا ضامن ہو۔ سماجی اصلاح کی بنیاد پر سماج میں امن اور عدل کی فضا قائم ہو جو ہر شعبے میں سماجی ترقیات کی بنیاد ہے۔
علما کی سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے چند مزید نکات قابل غور ہیں۔ یہ حتمی نہیں لیکن ان کی روشنی میں بحث کے بعد کسی با ضابطہ نتیجے تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے
٭ علماپر ملی و قومی سیاست بہت تیزی کے ساتھ حاوی ہوتی جا رہی ہے ۔ بدقسمتی کا پہلو یہ ہے کہ بے صلاحیت اور با صلاحیت، دیندار اور دنیا پرست علماکا قد اس صف میں بالکل برابر ہے۔ نتیجہ کے طورپر عوام فریب اور کنفیوژن کا شکار ہیں کہ وہ کس کو ماڈل اور اسوہ بنائیں کس کی بات پر لبیک کہیں اور کس کی بات کو نظر انداز کردیں۔ قومی و ملی سیاست میں اس غلو آمیز انہماک کی وجہ سے خود اپنی بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے اور اپنی تعمیر کے لےے کوشاں ہونے کی ذہنیت ماند پڑتی جارہی ہے۔
٭ سماج کی اصلاح صرف شریعت کی دہائی دینے اور اس کے نفاذ کی کوششوں کے ذریعہ ہی ممکن نہیں ہے ۔ فتاویٰ کے زور پر معاشرے کے غلط اور تخریبی رجحانات کوبدلا نہیں جا سکتا ۔ اس کے ذریعہ متعلقہ شرعی پوزیشن کو صرف ان لوگوں کے سامنے جو حقیقت میں شریعت کو اپنی فکر و عمل میںاصل مقام دیتے ہوں ،واضح کیا جاسکتا ہے ۔ اصل چیز صرف ذہنی اور فکری تربیت ہے اور اس کے لیے سماج کے ہر ہر شعبے میں رچ بس کر خاموشی اور صبر کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ عملی سطح پر ماضی کو ماڈل بنا کر پیش کرنے سے زیادہ موثر مستقبل کے آئینے کو سامنے رکھنا ہے۔ ماضی کو پانے کی اندھا دھند دوڑ حال کے تقاضوں سے بے خبری پر منتج ہوئی ہے۔ علما کا ماضی سے زیادہ حال سے با خبر اور مستقبل شناس ہونا ضروری ہے۔
٭ مدارس سماجی اصلاح کے عمل میں سب سے اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔بہت سے اہم سوشل ریفارمر مدارس کی گود سے ہی پروان چڑھ کر سامنے آئے۔ مدارس خصوصاً بڑے مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ باضابطہ سماجی اصلاح کے شعبے اپنے یہاں قائم کریں۔ ان کے تحت طلبہ کو سماجی اصلاح کی تربیت دی جائے۔
٭ سماجی اصلاح کے عمل میں مساجد کے ائمہ کا رول سب سے زیادہ اہم ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر تربیت یافتہ ائمہ بسا اوقات مسلم سماج میں مزید انتشار اور کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کی باضابطہ تربیت کا نظم مذکورہ بالا شعبہ تربیت کے ذریعہ ضروری ہے۔دوسری صورت میں ملت کے دوسرے سماجی و دینی اداروں کو الگ سے اس کا نظم کرنا چاہیے۔ ائمہ کی با شعور ،اسلام کی حقیقی اجتماعی اسپرٹ اور سماجی اصلاح کا سنجیدہ جذبہ رکھنے والی جماعت مسلم سماج کی اصلاح کی سب سے بڑی نقیب بن سکتی ہے۔
بہر حال مسلم سماج میں اصلاح کا عمل بہت دھیما رہاہے اور اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ علماکا یہ احسا س اطمینان بھی ہے کہ مسلم ( یا اسلامی) سماج دوسرے سماجوں کے مقابلے میں بہرصورت فائق اور قابل رشک ہے حالاںکہ قابل رشک ہونے کا یہ مفہوم نہایت تنگ، خوش فہمی پر مبنی اور اس بناپر دوسروںکو مطلقاً قائل کرنے والا نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment