Friday, November 13, 2009

Islam ka Nazariya Atadal Aur Muslim Mua'ashere Main Intiya Pasandi ki Maujuda Surate Hal

اسلام کا نظریہ اعتدال اور مسلم معاشرے میں انتہا پسندی کی موجودہ صورت حال
وارث مظہری
اسلام اعتدال اور میانہ روی کا مذہب ہے۔ وہ غلو اور افراط و تفریط سے پاک ہے۔ اس کے اصول و احکام فطری تواز ن کی اساس پر قائم ہیں۔ اس لیے وہ زمانی فرق کے بغیر ہر نسل اور جغرافیائی امتیاز کے بغیر ہر گروہ انسانی کے لیے سامان ہدایت اور اسے فطرت کی شاہراہ مستقیم پر گامزن کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

دین کی خصوصیت کے لحاظ سے اس کے ماننے والوں کو قرآن میں ” امت وسط“(معتدل امت )قررار دیا گیا ہے:’اور اس طرح ہم نے تم کوایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔“( البقرہ: ۱۴۳) مفسرین نے امت وسط کی تعبیر امت معتدل سے ہی کی ہے۔

قرآن و حدیث میں شدت کے ساتھ دین میں انتہا پسندی سے بچنے کی تائید کی گئی ہے۔انتہا پسندی کو قرآن و حدیث میں غلو،تنطع اور تشدید وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اپنے دین میں غلو نہ کرو“۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایاکم والغلو فی الدین فانما ہلک من کان قبلکم بالغلو فی الدین (صحیح ابن ماجہ)’ ’اے لوگو! دین میں غلو سے بچو۔ اس لیے کہ پہلی قومیں دین میں غلو کرنے سے ہلاک و برباد ہوئیں۔“ اسی طرح دوسری حدیث میں فرمایا کہ : ہلک المتنطعون :” دین میں تشدد اور افراط و تفریط کا رویہ اختیار کرنے والے ہلاک ہوئے“(مسلم)۔ اس بات پر زور دینے کے لیے اسے تین مرتبہ دہرایا ۔اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ: ” اپنے اوپر سختی نہ کرو ورنہ یہ سختی تم پر لازم کر دی جائے گی ۔ایک گروہ نے اپنے اوپر ایسی سختی کی تو اس پر سختی کی گئی۔ اس گروہ کے بچے ہوئے لوگ چرچوں اور ر اہب خانوں میں ہیں“(مسند ابو یعلی)

سختی اور انتہا پسندی کی بجائے آپ نے اپنے ماننے والوں کو معتدل راہ ( ہدیا قاصداً ) اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ آپ نے فرمایا کہ :”تم معتدل راہ اختیار کرو“( علیکم ہدیا قاصداً) یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا اور پھر کہا کہ ”: جو انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرے گا وہ مغلوب ہو جائے گا“۔(بخاری مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہمیشہ درمیانی راہ اختیار کرنے کا تھا۔ آپ کا قول ہے کہ : ” اعتدال کی راہ اختیار کرو، منزل تک پہنچ جاﺅگے۔“

غلو یا انتہا پسندی کی مختلف جہتیں یا شکلیں ہیں تاہم وہ اپنے مجموعی معنی میں حد سے تجاوز کرنے کا نام ہے۔ خواہ وہ دینی طورپر مطلوبہ امر میں کمی کے ذریعے ہو یا زیادتی کے ذریعہ۔ حجة الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے فرمایا کہ” : منیٰ میں رمی جمار کے لیے کنکریاں ملے آﺅ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے چھوٹی چھوٹی کنکریاں آپ کو چن کر دیں۔ آپ نے انہیں لے کر فرمایا: ہاں ایسی ہی کنکریاں ، تم دین میں غلو کرنے سے بچو“۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے کتنی معمولی بات کو دین میں غلو سے تعبیر کرتے ہوئے اس سے خبردار کیا اور اس پر شدت کے ساتھ وعید کی۔

دینی معاملات میں انتہا پسندی کا بہت کچھ تعلق انسان کی اپنی انفرادی اور سماجی زندگی سے ہے۔ ایک شخص جو مختلف انفرادی اور سماجی معاملات میں غیر معتدل رویے کا پابند ہو وہ خالص دینی معاملات میں بھی افراط و تفریط سے دور نہیں رہ سکتا۔ انسان کی فکری تشکیل میں انسان کے خود اپنے اعمال و مشاغل کی نوعیت بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس لیے قرآن و حدیث میں اس لحاظ سے انسان کی شخصی تعمیر اور تربیت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بڑے، وقتی، دائمی، ذاتی اور سماجی معاملات میں معتدل اور متوازن شخصیت کا حامل ہو۔ اس لیے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق اسلام نے اعتدال کی تعلیم دی ہے اور ہر مرحلے میں اس کو مطلوب قرار دیا ہے۔ چال ڈھال، رفتار گفتار ، سونے جاگنے، کمانے خرچ کرنے اور تمام چیزوں میں اعتدال کا پاس و لحاظ رکھنے کی ہدایت اور تلقین کی گئی ہے۔

جب آپ نے کچھ لوگوں کے بارے میں سنا کہ ان میں سے کوئی ہمیشہ روزہ رکھنے، کوئی شادی نہ کرنے، کوئی شہوت سے بچنے کے لیے گوشت نہ کھانے اور کوئی عبادت کی خاطر بستر پر نہ سونے کا ارادہ رکھتا ہے ،تو آپ اس قدر غضب ناک ہوئے کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ پھر اپنی مثال دیتے ہوئے آپ نے ان لوگوں کو اس بات کی ہدایت کی کہ وہ ایک معتدل سماجی زندگی گزارتے ہوئے خدا کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام کی نظرمیں ایک معتدل شخصیت وہ ہے جو خدا اور بندے دونوں سے وابستہ دونوں کا حق ادا کرنے والا ہو۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ:” تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے،تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی اور بچوں کا بھی تم پر حق ہے ۔ اس لیے تم ہر صاحب حق کا حق ادا کرو(بخاری) انسان کو ایسے کاموں کے کرنے سے روک دیا گیا جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتا۔( البقرہ:۲۸۶) ایسے اعمال کو انسان کے لیے پسندیدہ قرار دیا گیا جن پر وہ مداومت کر سکے(بخاری و مسلم)
دین میں انتہا پسندی کے بنیادی عوامل
دین میں غلو اور انتہا پسندی کی سب سے اہم بنیاد یا سبب دینی نصوص کی حرفی تعبیر اور انانیت پسندی کا رویہ ہے۔ جو افراد یا جماعتیں اپنے گرد و پیش کے سماج یا سماج کے خاص گروہ سے اختلاف رکھتی ہیں اور اسی کے ساتھ انانیت پسندی کی نفسیات کا شکار ہوتی ہیں ، ان کی خواہش و کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان افراد اور جماعتوں کو سماج سے بے دخل یا اس کے حاشیے پر کر دیں۔ اس کے لیے وہ دینی نصوص کا سہارا لیتی ہیں تاکہ ان کے ذریعہ عوام پر اثر ڈالنے اور انھیں عوام کے خلاف آمادہ کرنے میں آسانی ہو اس کے لیے وہ بعض قرآنی آیات و احادیث کے ان ظاہری مفاہیم کو لے لیتی ہیں جو ان کی طبیعت اور مقصد کے مطابق ہوں اور ان کے بالمقابل دوسری ان آیات و احادیث کو نظرانداز کر دیتی ہیں، جن میں پہلی مجمل آیات و احادیث کی تفصیل و توضیح مذکور ہوئی ہے اور ان کے اختیار کردہ نصوص کی نہایت حرفی تعبیر کرتے ہوئے سیدھے سادے عوام کی ایک تعداد کو اپنے نقطہ نظر کا قائل کرنے اور اپنے مطابق ان کی ذہن سازی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

انتہا پسندی کی دوسری اہم بنیاد دین کے فروعی مسائل کو اصولی شکل دے کر لوگوں سے ہر حال میں ان کی پیروی کا مطالبہ کرنا ہے۔ مسلکی کشمکش کی موجودہ صورتحال اسی ظاہرے کی پیداوار ہے۔ اس سے مسلم سماج میں جو انتشار پیدا ہوا ، اس نے دینی انتہا پسندی کی راہ کو دین کے نام پر فساد برپا کرنے والوں کے ذریعہ ہموار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ سماج میں اس سے نا رواداری اور عدم برداشت کے رجحان کو فروغ حاصل ہوا۔

اس سلسلے کی ایک اہم چیز اسلام کی اسپرٹ اور مقاصد شریعت کو نظرانداز کر دینا ہے۔ اسلام آسان دین ہے ( الدین یُسر) اسلام میں حرج، تنگی اور پریشانی کو اٹھا لیا گیا ہے۔ اسلامی اصول کے مطابق ، زمان و مکان کی تبدیلی سے شریعت کا حکم بدل جاتا ہے۔اسلام کا مزاج ہے کہ جب کسی معاملے میں مشقت پیدا ہو تو شریعت کا دامن وسیع ہو کر خود بخود آسانی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔فقہی اصول ” المشقة تجلب التیسیر“ کا مطلب یہی ہے۔ یہی شریعت کا مزاج اور اس کی روح ہے لیکن اس مزاج اور روح کو نظرانداز کر دینے کی وجہ سے آسانی اور رحمت کا دین پریشانی اور زحمت کا دین بن جاتا ہے ۔ دین پر تنقید کرنے والوں کی زبانیں دراز ہو جاتی ہیںاور دین سے بے تعلقی برتنے والے ضعیف الایمان لوگوں کو بے عملی کا بہانہ مل جاتا ہے۔

اس سلسلے کی ایک اہم چیز جس کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے ماضی و حال میں ہمیشہ فتنوں کو سر ابھارنے کا موقع ملا، اسلام میں تدریج کا اصول ہے۔ اسلام کی دعوتی اور احیائی تحریکوں میں انحراف عموماً اسی راستے سے آیا۔ اس سلسلے کی سب سے تازہ اور قریب کی مثال افغانستان میں طالبان کی تحریک ہے جسے خوش قسمتی سے وہاں حکومت کو تشکیل دینے کا موقع مل گیا لیکن فروعات پر تشدد اور اسلام کے اجتماعی سطح پرنفاذ میں تدریج کے اسلامی اصول کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے وہ غیروں کی نظر میں کیا خود اپنوں کی نظر میں ایک ’خطرہ‘ بن گئی۔ اس پہلو کو نظرانداز کر دینے کی وجہ سے پہلے مصر اور الجزائر وغیرہ کی سرزمین اسلام پسندوں کے لیے عقوبت خانہ بنی اور اس وقت اکثر عرب ملکوں کی جیلیں ان سے بھری پڑی ہیں۔
دین میں انتہا پسندی کا قدیم ظاہرہ
دین میں اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم کے باوجود قانون فطرت کے مطابق، ہر زمانے میں کچھ ایسے افراداور جماعتیں پائی جاتی رہی ہیں۔ جنھوں نے غلو اور انتہا پسندی کو اپنا شعار بنایا۔ اس سے ایک طرف اسلامی سماج میں بد امنی اور فساد پیدا ہوا دوسری طرف اسلام کی بدنامی ہوئی۔ اگرچہ مسلم سماج میں اس طرح کے رجحانات اور ان سے پیدا ہونے والے شر و فساد کے اسباب و محرکات زیادہ تر سیاسی تھے تاہم دین کو ان رجحانات اور ان کے تحت پائے جانے والے طریقہءکار کی بنیاد اور ذریعہ کے طورپر استعمال کیا گیا۔ مسلم معاشروں کے تاریخی مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب کا حوالہ یا مذہب کی بنیاد جہاں ایک طرف سماجی تحریکات کے لیے قوت اور کامیابی کا ایک اہم ماخذ اور اساس رہی ہے وہیں منفی زاویے سے مذہب کا حوالہ یا دوسرے لفظوں میں بعض مذہبی اصول ونظریات کا غلط استعمال مسلم سماج کے لیے زبردست خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنا ہے۔ اسلام کی ابتدائی دو تین صدیوں کے درمیان مختلف نئی اسلامی جماعتیں نئے نئے نظریاتی قالب میں سامنے آئیں۔ خوارج، معتزلہ، قدریہ، مرجئہ وغیرہ۔ ان تمام فرقوں کے نظریات افراط و تفریط اور انتہا پسندی پر مبنی تھے۔ کوئی گناہ کبیرہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے کفر کا قائل تھا تو کوئی سرے سے گناہ کبیرہ کو ایمان کے لےے مضر نہیں تصور کرتا تھا ،کسی کے نزدیک انسان مجبور محض تھا ،تو کسی کے نزدیک انسان خود اپنے افعال کا خالق وغیرہ۔

لیکن انتہاءپسندی کو نہ تو نظامِ فطرت برداشت کرتاہے نہ انسانی سماج اور نہ کوئی انسانیت پسند مذہب۔ اس لیے یہ تمام جماعتیں پیوند خاک ہوتی چلی گئیں۔ اب ان میں سے کسی کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔ان تمام میں سب سے پُر تشدد جماعت خوارج کی جماعت تھی۔ یہ اس معنی میں ” اللہ والوں“ کی جماعت تھی کہ اس کے ارکان ظاہری عبادت و ریاضت، کھانے پینے میں حرام و حلال کی تمیز اور اس طرح کے بعض دیگر امور میں دین داروں کااعلیٰ نمونہ اور مثال تھے۔ انھوں نے اپنے نظریات کی اساس قرآن کو قرار دیا تھا اور وہ ہر معاملے میں قرآن کا حوالہ دیتے اور اس کو فیصل گردانتے تھے اور اسی وجہ سے بہت سے سیدھے سادے لوگ ان کی پکڑ میں آگئے، لیکن نظری و فکری انحراف نے ان کے زمینی سانچے کو بدل دیا تھا کہ قرآن سے ہی استدلال کرتے ہوئے وہ اپنے علاوہ اکثر مسلمانو ںکو کافر اور مباح الدم تصور کرتے تھے۔ حضرت علی نے ان کے مذہبی استدلالی رویے پر بہت پر معنی تنقید کی تھی کہ وہ کلمہ حق سے باطل مراد لیتے ہیں( کلمة حق ارید بہا الباطل) خوارج اپنے گمراہ کن اور فساد انگیز نظریات کی بنیاد قرآن پر ہی رکھتے تھے۔ حضرت علی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نہایت اہم جملہ کہا تھاکہ :” قرآن اللہ کا کلام ہے لیکن وہ انسان کے منہ سے بولتا ہے۔“ ابتدائے اسلام کا مسلم سماج جو اسلام کے نظریات اور اس کے عملی ماڈل سے زیادہ قریب و ہم آہنگ تھا، غلو اور انتہا پسندی کے اس رویے کو برداشت نہ کر سکا اور یہ جماعت بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گئی۔
دین میں انتہا پسندی کا جدید ظاہرہ
موجودہ دور میں اسلام کی احیائی تحریکوں میں جو بے اعتدالی اور انتہا پسندی کی روش پیدا ہوئی ہے وہ ماضی کی انتہا پسند اور تشدد پرست جماعتوں سے کافی مشابہ ہے۔ ان دونوں کے نقطہ نظراور فکری و عملی منہج میں کافی اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس کو اس مثال کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ خوارج اپنے نقطہ نظر کی اساس جن قرآنی آیات کو بناتے تھے ان میں سے ایک بنیادی آیت یہ تھی: و من لم یحکم بما انَزل اللہ فاولئک ھم الکافرون(المائدہ :۴۴)بیسویں صدی کی مختلف انقلابی اور احیائیت پسند جماعتیں اس آیت کے ظاہری معنی کو نظرمیں رکھتے ہوئے جمہوری نظام کو قبول کر لینے والوں کی تکفیر کرتی رہی ہیں۔ سید قطب اسی نظر ےے کے حامی تھے ۔ انہوں نے ”فی ظلال القرآن“ اور ”معالم فی الطریق “میں مختلف جگہوں پر اس کا اعادہ کیا ہے۔ حالانکہ بعض مفسرین کے مطابق یہ آیت یہودیوں کے لےے خاںص ہے، یا دوسری شکل میں وہ اس صورت پر محمول ہے جب کہ اس کو اعتقاد کی سطح پر اور جائز سمجھ کر کیا جائے ۔حالاں کہ جمہوری ملک کے ایک شہری کے لےے یہ محض مجبوری کی عملی شکل ہے۔ وہ اس ملک کے قانون کو خدا کے قانون کا بدل تصور نہیں کرتا ۔اگر اسکے ظاہری مفہوم کو مراد لیا جائے تو وہ قرآن کی اس آیت سے براہ راست متصادم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی حد استطاعت سے زیادہ چیز کا مکلف نہیں کرتا۔( البقرہ:۲۸۶) اگر اس آیت کی مخاطب علی الاطلاق پوری امت ہو تو پھر ضروری ہوگا کہ اللہ کے قانون کو اللہ کی سرزمین پر نافذ کرنے کے لیے پوری دنیا کو ’ دارالاسلام‘ بنانے کی کوشش کی جائے اور یہ کسی بھی طرح ممکن اور خدا کی منشا کے مطابق نہیں ہے۔

دین میں غلو اور انتہا پسندی آج ہماری اسلامی جماعتوں اور تحریکوں کا شعار بنکر رہ گئی ہے۔ ایک جماعت کا بڑالٹریچر دوسری جماعت کی مخالفت ، تنقید اور اس سے بڑھ کر تکفیر پر مشتمل ہے۔ مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے درمیان اشتراک عمل کی مثالیں بہت کم ہیں۔ جو ہیں وہ سیاسی دباﺅ میں ہیں اور ان کا مقصد کچھ سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔مثال کے طورپر ہندوستان کی مثال لیں۔بریلوی جماعت ، دیوبندی جماعت کی باضابطہ تکفیر و تفسیق کرتی ہے، اسی طرح مثال کے طورپر دیوبندی یا اس حلقے کی اکثریت اہل تشیع کی تکفیر کرتی ہے۔ لیکن جہاں تک حکومت سے سیاسی مفادات کے حصول کا معاملہ ہو یا مختلف سیاسی و ملی ایشوز پر احتجاج اور مظاہرے درج کرانے کی روش، یہ جماعتیں کچھ گھنٹوں کے لیے آپس میں متحد ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ایک عرصہ دراز سے دیوبندی افراد و ارکان کے غلبے والی جماعت مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ایک مشہور شیعہ عالم ہیں۔ حقیقت میں یہ سرے سے وفاق ( اتحاد و ہم آہنگی) کی نہیں، نفاق کی صورت حال ہے ورنہ اس طرح کی سب سے پہلی بین جماعتی اور بین مسلکی نشست یا اجتماع میں تمام جماعتوں کے اہل و عقد کے اتفاق سے ایک قرار داد، اعلانیہ یا فتویٰ شائع کیاجانا چاہےے تھا کہ ہم سیاسی و ملی ہی نہیں ، خالص دینی سطح پر بھی ایک دوسرے کواپنی طرح کا مسلمان سمجھتے ہیں۔ ہم ماضی میں دیے گئے ایسے تمام تکفیری فتووں کی کالعدمی اور منسوخیت کا اعلان کرتے ہیں، لیکن آج تک ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی۔ یہ خود اپنے مذہبوں کے ساتھ ان کے تعلق اور تعامل کی صورت حال ہے، غیر مذہب کے لوگوں کے ساتھ معاملے کو اس کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے۔

ہمارے دینی حلقوں اور مدارس وغیرہ کا دینی مزاج یہ ہے کہ وہاں اسلامی مظہر: داڑی،کرتا ، ٹوپی ، برقعہ اور اسلامی آداب ، نشست و برخاست غیروں سے تشبیہ اور لہو ولعب ( گانے ،موسیقی، تصویر کشی وغیرہ) سے اجتناب پر آخری حد تک زور دیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ان کے یہاں حرام و حلال کی تمیز ، معاملات کی صفائی، اخلاق و کردار کی بلندی، ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی رعایت کی صفات نہیں پائی جاتیں۔ ایسے بہت سے معاملات میں روایتی بزرگوں کے رویوں کو دیکھ کر حضرت مسیح کایہ قول یاد آتا ہے، جو انھوں نے فریسیوں سے کہا تھا: کہ تم لوگ مچھر کو چھانتے ہو لیکن اونٹ کو پورا کا پورا نگل جاتے ہو۔

نظریاتی اور عملی سطح پر اسلامی تحریکوں اور دینی حلقوں میں پائے جانے والی اسی طرح کی غلو اور انتہا پسندی کی مثالوں نے عوام کی نظروں میں ان کے اعتماد کو فروتر کر دیا ہے۔ دین کی انقلابی اور احیا پسند تحریکوں کا غلو اور انتہا پسندی موجودہ دور میں اس شکل میں سامنے آئی ہے کہ وہ صدیوں سے اسلام کی اجتماعی و سیاسی سطح پر ’ بے دخلی‘ کی صورتحال کو ہفتوں اور مہینوں میں بدل دینا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کی تمام کوششیں برعکس نتیجہ پیدا کرنے والی بن رہی ہیں۔ پاکستان میں لال مسجد کا واقعہ اسلام کے دعوتی منہج واسلوب میں تدریج کے اصول کو پس پشت ڈال کر عالمی سطح پر اسلام اور اہل اسلام خصوصاً طبقہ علما کو رسوا کرنے کا دور جدید کا سب سے افسوس ناک اور بھیانک واقعہ ہے۔ اس وقت پاکستان کے جہادی عناصر جس انتہا پسندی کے شکار ہیں اس کا سرا اس انتہا پسندی سے ملتاہے جس کے خلفائے راشدین حضرت علی اور شکار ہوئے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ہر روش میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ اعتدال کو چھوڑ کر غلو اور انتہا پسندی کی راہ خواہ وہ کسی بھی نیک سے نیک مقصد کے لیے ہی کیوں نہ اختیار کی جائے، فطرت کے خلاف ہے، اس لیے اس سے برعکس نتائج کی ہی توقع کی جا سکتی ہے اور ہر صورت میں اس کا زوال یقینی ہے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ: ”ہر انتہا پسندی تشدد کا باعث بنتی ہے اور ہر تشدد کے لیے زوال یقینی ہے“( ان لکل ضراوة شرة ولکل شرة فترة)۔(مسند احمد)

No comments:

Post a Comment