وارث مظہری
اس وقت مشرق و مغرب کے بعض حلقوں میں اسلام پر اس حیثیت سے بحث کی جا رہی ہے کہ اس کا سیاسی نظریہ انسانی سماج میں تشدد کے فروغ میں معاون ہے۔ بعض انقلابی مسلم تحریکات جو اپنے علاقائی حالات یا بین اقوامی سیاسی صورتحال کی پیداوار ہیں، کے تشدد کے رجحانات کو اسلام کی تعلیمات سے وابستہ کر کے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ایک نہایت افسوس ناک امر ہے اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ مسلمانو ںکے اصحاب حل و عقدخصوصاً مذہبی قائدین اور سماجی کارکنان اس غیر سنجیدہ اور بے بنیاد الزام سے مشتعل اور دل برداشتہ ہوکر اس پہلو پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہےں کہ اگرچہ اسلام تشدد کی اجازت نہیں دیتا تاہم تشدد کے مظاہر مسلم سماج میں بڑے پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ بالخصوص جبکہ مسلمانوں کے اندر سے اٹھنے والی بہت سی یا اکثر مسلم تحریکات اپنے فکر و عمل کا ماخذ اسلام کو ہی بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
کوئی بھی نظریہ تشدد کو ایک مستقل وسیلے اور طریقہ کار کے طورپر اختیار کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس لیے کہ یہ ایک غیر فطری طریقہ ہے۔ اس کو اختیار کرنے کا مطلب ہے انسانی سماج میں انتشار و خلفشار کا لا منتاہی سلسلہ اور اس کی تباہی و بربادی۔ اس معنی میں وہ خود اپنی نفی ہے۔ اسلام سب سے زیادہ اخلاقی تعلیمات پر زور دینے والا مذہب ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ میں اخلاقیات کی تکمیل کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہوں( مو طائ) اس لیے قرآن میں سب سے زیادہ اجتماعی اخلاقیات پر زور دیا گیا ہے۔ خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کی اس طرح دینی تربیت کی گئی ہے کہ وہ خدا کے اخلاق کو پا سکے (تخلقوا باخلاق اللہ ۔حدیث)۔ اس تعلق سے جن امور پر اس میں زور دیا گیا ہے ان میں اہم صبر، عفو و در گزر، اعراض، عدل و احسان وغیرہ ہیں۔ صبر کا ذکر قرآن میں تقریباً سو مرتبہ آیا ہے۔ بار بار مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ نا پسندیدہ چیزوں، حادثات اور مصائب پر صبر و برداشت کا رویہ اختیار کریں۔ ۔ قرآن میں کہا گیا کہ اگر تم صبر اختیار کرو اور اللہ سے ڈرو تو تمہیں دشمنوں کی سازش کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی(آل عمران:۱۲۰) صبر کا بدلہ جنت قرار دیا گیا ہے(الانسان:۷۶) عدم تشدد کی بنیاد صبر و برداشت کا رویہ ہے۔ جہاں سے صبر کا دامن چھوٹتا ہے وہاں سے تشد کی ابتدا ہوتی ہے۔ اسی لیے حدیث میں تنگی اور ظلم و نا انصافی کے حالات میں کشادگی کے انتظار کو افضل عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں اعراض کا رویہ اختیار کریں۔ مسلمانوں کو عدل و انصاف کی روش اختیار کرنے کی قرآن و حدیث میں درجنوں مقامات پر شدت کے ساتھ تلقین موجود ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔“ ”کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم عدل نہ کرو بلکہ تم عدل کرو“۔ قرآن دشمن کو امکانی طورپر ایک قریب ترین دوست کی شکل میں دیکھتا ہے ۔(فصلت: ۳۴)پیغمبر اسلام کو یہ کہہ کر نرمی کی روش اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی : ”اگر آپ سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے دور ہو جاتے۔“
انگریزی کی کہاوت ہے کہ جنگ ہمیشہ ذہنوں میں پرورش پاتی ہے۔ انسانوں کے باہمی تعلقات اور سماجی زندگی کے حوالے سے قرآن جن اخلاقیات پر زور دیتا ہے ان کا مقصد انسانی ذہن سے انہی منفی عناصر کو ختم کرنا ہے جو انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہوتے اور ایک کو دوسرے کے تئیں تشدد و جارحیت پر مائل کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمیشہ سختی کے مقابلے میں نرم رویہ احتیار کرنے کا تھا۔ ایسے بہت سے واقعات حدیث و تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ بہت سے یہودی آپ کو اسلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہتے تھے۔ ایک ایک موقع پر آپ کی بیوی حضرت عائشہ نے اس کے جواب میں کہاکہ : تم پر اللہ کی لعنت ہو اور اس کا غضب۔“ اس سخت رد عمل پر پیغمبر اسلام نے حضرت عائشہ کو فوراً ٹوکا:” اے عائشہ اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ دیتا ہے جو وہ سختی یا کسی اور چیز پر نہیں دیتا“۔ آپ کی سیرت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کنفرنٹیشن سے بہر صورت احتراز کرتے تھے۔ خواہ معاملہ کتنا ہی اہم اور دین کی اہم بنیاد سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آپ کعبہ کو ، جس کی بنیاد صحیح ابراہیمی بنیاد سے ہٹی ہوئی ہے، اپنی اصل پر قائم کرنا چاہتے تھے لیکن آپ نے مقابلہ آرائی سے بچنے کے لیے ایسا نہیں کیا۔ آپ تیرہ سالوں تک مکہ میں رہے لیکن آپ نے دشمنوں کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھایا۔ مدینہ میں آپ نے ایک عمومی معاہدہ کر کے اپنے مخالف یہودی اور مشرک قبائل کو اپنے ساتھ کر لیا ۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات بالعموم کافی خوشگوار رہے۔ اسپین جو مسلمانوں کی تہذیبی بالا دستی کا نشان تھا یہاں یہودی اقلیت کو مسلمانوں کی سرپرستی میں ہر طرح سے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا موقع ملا۔۱۴۹۲ءمیں اسپین سے مسلم حکومت کے عہد خاتمے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، اس صورتحال میں بے یار و مددگار مظلوم یہودیوں کی مدد کرنے والی اور آگے بڑھ کر ان کو پناہ دینے والی حکومت عثمانی ترکی حکومت تھی۔ ترکی سمیت عرب کے بہت سے ملکوں میں یہودیوں کی قدیم آبادیاں موجود ہیں۔ برنارڈ لوئیس جیسے امریکہ نواز یہودی مصنف نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے ۔ ان ملکوں میں ان کی تعداد میں کمی اس وقت آئی جب انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلمانوں کی طرح سے تعلیم اور معاشیات کے لیے مغربی ممالک کا رخ کیا۔
لیکن اسلام کی اس امن و اخلاقیات کی تعلیم اور مسلمانوں کے رواداری کی تاریخ اپنی جگہ، مسلمانوں کے بعض حلقوں میں موجودہ دور میں تشدد پسندی کے رجحان کا ظاہرہ نہایت افسوس ناک ہے۔اگرچہ یہ صحیح ہے کہ اس رجحان کے فروغ میں بعض اہم علاقائی اور عالمی سیاسی عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے، تاہم یہ بات اس رویّے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس ظاہرے سے آنکھیں بند کر لی جائیں اور یہ سمجھ لیا جائے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسی میںمسلمانوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔
پہلی قابل غور و تشویش بات تو یہ ہے کہ یہ تحریکا ت جو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہےں ،اپنی تمام تر سرگرمیاں اسلام کے نام پر چلا رہی ہیں۔ اسی سبب سے انہیں اسلام پسند بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اسلام سے ہی اپنے عمل کا جواز ڈھونڈتی اور پیش کرتی ہیں۔ اس صورت حال میں غیر مسلموں کی ایسی ایک تعداد کا ،جس نے اسلام کا براہ راست مطالعہ نہیں کیا ہے، ذہن خراب ہونا یقینی ہے۔ اسی لےے مغربی و مشرقی ملکوں میںاسلام کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں کی تعداد روزانہ بڑھ رہی ہے۔
تشدد کے اس ظاہرے کے پنپنے میں دوسرے بہت سے عوامل کے علاوہ مسلمانوں کی سنگین غفلت اور کوتاہ اندیشی کا بہت کچھ دخل رہا ہے۔ یہاں میں اس کے د و پہلوﺅں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا چاہوںگا۔ایک کا تعلق مسلمانوں کی داخلی صورت حال سے ہے اور دوسرے کا تعلق مسلمانوں کی خارجی صورت حال سے۔
مسلمانوں میں داخلی سطح پر اختلافات ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں بلکہ بعض ضمنی امور سے قطع نظر اکثر اختلافات اور تنازعات کا تعلق ماضی کی علمی روایات سے ہے ،جو ماضی میں تو علمی بحث و مباحثے کے دائرے میں تھیں لیکن موجودہ دور میں انھوں نے بغض و نفرت پھر سماجی سطح پر با ضابطہ باہمی کشمکش اور پھر اس سے آگے بڑھ کر قتل و خوں ریزی کی شکل اختیار کر لی۔ مسلم معاشرے میں اس سے عدم برداشت اور نارواداری کا جو ماحول ’ اپنوں‘ کے تئیں بنا’ غیروں ‘کے معاملے میں اس نے زیادہ بھیانک اور ہلاکت خیز شکل اختیار کر لی۔ مسلمانوں کے مذہبی وغیر مذہبی قائدین نے مسلک اور جماعت کے نام پر بٹتے ہوئے سماج کو متحد رکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف پھیلتی ہوئی منافرت کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جس کی بنا پر مسلم سماج کا تانا بانا کمزور ہو کر اور بکھر کر رہ گیا ۔
خارجی سطح پر عالمی سیاسی صورتحال کی بنا پر مسلمانوں کی صفوں میں مایوسی و مظلومیت کے احساس کے تحت جو جذباتی رد عمل کی روش پیدا ہوئی اسے بالعموم نوجوانوں میں اسلامی بیداری کا عنوان دیا گیا۔ نہایت سادہ لوحی کے ساتھ یہ سمجھنے اور باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ اسلام کی شانِ جلالی کا دوبارہ ظہور اور اسلاف کی انقلابی روایت کا احیا ہے۔ جن لوگوں نے اس وقت اس پر نکیر کی اسے اسلام سے ناواقف اور مغرب کا حلقہ بگوش تصور کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ نشہ خوری اور تشدد پسندی کا مزاج کسی حد کو قبول نہیں کرتا۔ رسول اللہ کی ایک حدیث ہے کہ : جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ لانے والی ہو تو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے(مشکاة:۳۱۷) یہ ایک نہایت معنی خیز حدیث ہے۔ اگر تشدد کی موجودہ صورتحال کو اس حدیث کے معنوی مفہوم پر منطبق کرنے کی کوشش کریں تو کہناپڑے گا کہ موجودہ دور میں جہاد کے نام پر جس وقت پُرامن کوششوں کی بجائے پُر تشدد کوششوں کو سند جواز عطاکرنے کی کوشش کی گئی۔ وہی وقت انحراف کا تھا۔ ایک دوسری مثال کی روشنی میں غور کیجئے۔ بعض علما نے فلسطین کی مخصوص صورتحال میں خود کش دھماکے کی اجازت دی۔ حالانکہ اسلام میں خود کشی سراسر حرام ہے۔ اس تھوڑی سی مقدار کو جائز قرار دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب خود کش دھماکوں کو ہی باہمی کشمکش اور مقابلہ آرائی میں اولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے اہم ہتھیار ہی یہی بنتا جا رہا ہے ۔ انقلاب پسند جماعتوں کے بعض افراد پر فخر طور پر کہتے ہیں کہ مغرب کے پاس ایٹم بم ہے اور ہمارے پا س انسانی بم ہے۔ فلسطین میں یہ ہتھیار صیہونی غاصبین کے خلاف استعمال ہوتا ہے، پاکستان میں خود اپنے عوام، اپنے تعلیمی و دینی اداروں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ تشدد بوتل کا جن ہے جو ایک دفعہ اگر بوتل سے نکل جائے تو پھر دوبارہ بوتل میں جانا نہیں چاہتا۔
اس لیے موجودہ صورتحال میں تمام مذہبی و سیاسی اور سماجی قائدین کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کی کوشش کریں وہ کھل کر جہاد کے نام پر ہونے والے فساد فی الارض کی مذمت کریں۔ اس وقت عمومی روش یہ ہے کہ صرف اس بات پر تاکید کو کافی سمجھ لیا گیا ہے کہ اسلام امن پسند مذہب ہے۔ وہ دہشت گردی کا مخالف ہے وغیرہ۔ اس قسم کے مجرد بیانات اس صورتحال میں تبدیلی کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس کے لیے واضح اور متعین طورپر مذمت کی ضرورت ہے کہ فلاں تنظیم اور فلاں افراد اسلام کے مجاہد نہیں اسلام کے باغی ہیں۔ اسی صورت میں جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں کے عوامی تائید و مدد کی بنیاد کو کھوکھلا اور سماجی سطح پر انہیں الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment