اسلام میں امن کا تصور
وارث مظہری
اسلام ایک پُر امن مذہب ہے ۔ وہ ا من کا داعی ہے اور دنیا میں امن و آشتی کے قیام کا سب سے زیادہ خواہاں ۔ اسلام کی بنیاد امن پر رکھی گئی ہے۔لفظ ” اسلام“” سِلم“ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں امن۔ اس اعتبار سے مسلمان وہ ہے جو سراپا امن ہو۔ جو دوسروں کے لیے خیر کا باعث ہو۔ دُنیااس سے خیر کی توقع کرے۔ شر اور اذیت کی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جان و مال محفوظ ہو۔( ترمذی، نسائی) مسلمان ایک اجتماعیت پسند انسان ہوتاہے۔ وہ انسانی سماج کا ایک حصہ بنکر رہتا ہے۔ اس سے کٹ کر نہیں رہتا۔ وہ لوگوں کو خود سے قریب کرتا اور کرنا چاہتا ہے، دورکرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے رسول اللہ نے فرمایا کہ : لا خیر فیمن لا یالف ولا یولف۔” اس میں کوئی خیر نہیں جو نہ خود لوگوں سے مانوس ہو اور نہ دوسرے لوگ اس سے مانوس ہوں۔“( بخاری)
حدیث میں دین کوسراسر خیر خواہی قرار دیا گیا ہے۔ ( الدین النصیحة۔ بخاری) اس لیے دین اور دین کے اس مفہوم ( خیر خواہی) کا تقاضا یہ ہے کہ ایک دین پسند انسان اس بات میں یقین رکھتا ہو کہ یہ ساری دنیا اللہ کا کنبہ ہے۔( الخلق عیال اللہ) اس لیے وہ جیسا برتاﺅ اپنے خاندان اور کنبے کے ساتھ کرتا ہو یا کرنے کی طرف فطری خواہش رکھتا ہو، ویسا ہی برتاﺅ وہ خدا کے کنبے کے ساتھ بھی کرے۔رسول اللہ نےے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے لےے بھی وہی چیز پسند کرے جو وہ اپنے لےے پسند کرتا ہو(بخاری)
حقیقت میں خدا کی سب سے بڑی نعمت امن ہے۔ امن کے بغیر نہ تو انسان اپنی مذہبی، سماجی اور اقتصادی ذمہ داریوں سے صحیح طورپر عہدہ برآ ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ خدا کی عطا کردہ کسی بھی نعمت سے ہی محظوظ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں امن کو خدا کی ایک بڑی نعمت کے طورپر مختلف جگہوں پر ذکر کیا گیا ہے ۔ ”لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کرکھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔“(قریش:۴)
اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن وامان کی جگہ بنائی“( البقرہ: ۱۲۵) ا س کی اگلی آیت میں قرآن میں حضرت ابراہیم کی مکے کے بارے میں یہ دعا مذکور ہے کہ :” اے میرے رب اس شہر کو امن کا شہر بنا دے‘(البقرہ:۱۲۶)‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :” اس خانہ خدا میں جو کوئی داخل ہو گیا وہ مامون ہو گیا۔“ ( آل عمران: ۹۷) قیامت میں نیک و منتخب بندوں سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ” جنت میں امن و اطمینان کے ساتھ داخل ہو جاﺅ۔“( الحجر:۴۶) اس طرح دنیا میں مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مرکز کعبہ اور آخرت کے ابدی ٹھکانے جنت کو امن و عافیت کا گہوارہ قرار دیا جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلمانوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ نیا میں امن پسند انسان بن کر رہے۔رسول اللہ کی ایک اہم حدیث یہ ہے کہ : ” تم میں سے جو کوئی اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے گھر میں امن کے ساتھ ہو، اپنے جسم کے اعتبار سے صحت مند ہو، اس کے پاس ایک دن کا کھانا پانی موجود ہو تو سمجھو کہ اسے ساری دنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔(مشکاة)“ ساری دنیا کے حاصل ہوجانے کی اصل بنیاد یہی امن ہے۔ اس کے بر عکس اگر انسان کو امن و عافیت حاصل نہ ہو تو ساری دنیا کی نعمت و لذت اور عیش و عشرت کی چیزیں اس کے لیے ہیچ اور بے معنی ہیں۔ اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر صورت میں، انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر، امن کے حصول کا متلاشی اور اس کے قیام و حفاظت کے لیے متحرک رہے کہ یہی زندگی اور سماج کی اساس ہے۔ اسی بنیاد پر انسانی تمدن ترقی کر سکتاہے ۔ اور انسان خدا اور بندوں کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
امن کے بالمقابل انفرادی سطح پر خوف اور بے اطمینانی ہے اور اجتماعی سطح پر انتشار اور فساد۔ اگر یہ بد امنی اور فساد و انتشار کی کیفیت کسی جماعت یا قوم کو مسلسل طورپر لاحق ہو جائے تو یہ اس کے لیے بڑی بد نصیبی کی بات ہے۔ اسے سب سے پہلے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت میں مثبت طور پر امن اور سلامتی کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے خواہ بظاہر اس میں اس کا وقتی نقصان ہی کیوں نہ نظر آتا ہو۔
پیغمبر خدا نے ہمیشہ پہلے اس بات کی کوشش کی کہ انہیں اپنے سماج میں اپنی قوم کے درمیان وہ امن حاصل ہو جائے کہ جس کی بناپر وہ اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچا سکیں اور ایک پاکیزہ اور صالح معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔ کبھی اس مقصد میں انہیں کامیابی ملی اور کبھی نہیں ملی لیکن دونوں صورتوں میں وہ اللہ کی تقدیر پر راضی بہ رضا رہے۔ انھوں نے سماج کے لیے مسئلہ بننے کی کوشش نہیں کی کہ لوگ خدائی تعلیم اور پیغام سے متنفر ہو جائیں۔ جہاں ایسی صورتحال پیش آئی وہاں انھوں نے اپنا راستہ بدل دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس تعلق سے ایک نہایت واضح اور روشن نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ رسول اللہ تیرہ سالوں تک اپنے وطن مکہ میں رہ کر لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔ یہاں انھیں طرح طرح کی اذیتوں ، رکاوٹوں اور بے جا تشدد کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے آخری حد تک صبر کا وسیلہ اختیار کیا اور نصح و فہمائش سے اپنی قوم کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لوگوں کی ایک چھوٹی سی تعداد اس پیغام کے حاملین کی تیار ہو گئی۔ آگے جب حالات ناقابل برداشت ہو گئے تو آپ نے مکہ چھوڑ دیا اور مدینہ چلے گئے جس کی فضا سازگار کرنے والوں میں وہی چند لوگ تھے جنھیں آپ نے اپنی صابرانہ کوششوں سے مکے میں تیار کیا تھا۔
مدینے میں آپ نے سب سے پہلے بھرپور کوشش اس بات کے لیے کی کہ یہاں امن و عافیت کی فضا قائم ہو جائے۔ چنانچہ اس کے لیے آپ نے کئی نہج پر کوششیں کیں۔ مدینہ مکہ سے ہجرت کرنے والوں کے لیے دیار غربت تھا۔ وہاں انھیں وحشت و اجنبیت کا سامنا تھا۔ خود ا نصار کے لیے مہاجرین اجنبی اور مسافر تھے۔ قومیت اور قبائل کافرق تھا۔ اس سے اس بات کا پورا امکان تھا کہ مہاجرین کے تعلق سے ان میں سے بہت سے لوگوں میں غیر مانوسیت کا احساس ہو۔اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت باہمی کی عمومی فضا پیدا کرنے کے لیے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم کر دی یعنی ایک مہاجر اور ایک انصاری کو آپس میں بھائی قرار دے کر دونوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ اس طرح دونوں جماعتوں کے لیے باہمی وحشت انسیت میں تبدیل ہو گئی اور اس سطح پر امن کا ماحول قائم ہو گیا۔
اس کے بعد اس مقصد سے اس شکل کی توسیع کے لیے آپ نے میثاق مدینہ کو اختیار کیا جس کے تحت مدینہ کے مختلف مشرک اور یہودی قبائل کو آپ نے ایک معاہدے میں شریک کر کے انہیں اپنی قومیت کا حصہ بنا لیا۔ اس میثاق یا صحیفے کی آخری شق میں یہ الفاظ شامل تھے کہ جو بھی مدینہ میں رہے یا باہر جائے وہ محفوظ رہے گا۔ سوائے اس شخص کے جو غلط کام یا غداری کا ارتکاب کرے۔ اس طرح ایک شق کے الفاظ یہ تھے کہ وادی یثرب اس صحیفہ والوں کے لیے مقدس حرم ہے۔ اس طرح امن کو اولیت دیتے ہوئے خارجی حملوں اور داخلی فساد و انتشار سے ہر ممکن حفاظت کا پیشگی سامان کیا گیا۔ صلح حدیبیہ کی اسپرٹ بھی یہی تھی۔ یعنی یک طرفہ طورپر ظلم، نا انصافی اور تشدد کو برداشت کرتے ہوئے اس فطری امن کے ماحول کے قیام کی کوشش جس میں اسلام اور مسلمانوں کا قافلہ آگے بڑھ سکے۔ چنانچہ صرف دو سالوں میں اسلام جزیرہ عرب کی ایک مضبوط قوت بن گیا۔
کمزوری کے مرحلے کے بعد قوت اور عروج کے مرحلے میں بھی رسول اللہ نے امن کے قیام کو ہی ترجیح دی۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ان فاتحین اور بادشاہوں کا رویہ اختیار نہیں کیا جس کا ذکر قرآن میں ان لفظوں میں کیا گیا ہے کہ : جب بادشاہ کسی علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں فساد پھیلاتے اور وہاں کا امن تباہ کر ڈالتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کر ڈالتے ہیں“( النمل: ۳۴) آپ نے اس روش کی بجائے عمومی معافی کی روش اختیار کی۔ جب ایک انصاری صحابی نے کہا کہ: یہ یوم الملحمہ یعنی گھمسان کی لڑائی کا دن ہے تو آپ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ یوم المرحمة یعنی رحمت و مہربانی کا دن ہے اور اس صحابی ( سعد بن عبادہ ) سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے کو دے دیا۔ آپ نے سفیان کے گھر میں داخل ہو جانے والوں ، گھر کا دروازہ بند کرلینے والوں، مسجد حرام میں داخل ہو جانے والوں کے مامون و محفوظ ہونے کا اعلان کیا اور آخر میں اسلام کے ،مسلمانوں کے اور اپنے کٹر دشمنوں کو بلا تردد معاف کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے وعدے کے مطابق، منکرین کی فوج کی فوج اسلام میں داخل ہو گئی۔
امن فطرت کی پکار ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی کی سب سے اہم بنیاد ہے۔ کسی بھی معاشرے میںامن کا فقدان اس کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جن انسانی گروہوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا وہ ہمیشہ تاریخ میں حاشیے پر رہے۔ مسلم تاریخ میں سب سے جارح ، فساد اور بد امنی کی خوگر خوارج کی جماعت تھی۔ لیکن وہ اسی تیزی کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اس کے نقش قدم پر جو بھی دوسرے مسلم یا غیر مسلم جماعتیں اپنی مہمات میں سرگرم عمل ہیں، خواہ ان کا مقصد خوارج کی طرح کتنا ہی نیک اور کتنا ہی پاکیزہ کیوں نہ ہو، تباہ و برباد ہو جانا ان کا مقدر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: تم دشمنوں سے لڑنے بھڑنے کی توقع اور خواہش نہ کرو۔اور اللہ سے عافیت طلب کرو۔ اس کی جگہ مختلف مسلم جماعتو ںنے دنیا کے مختلف خطوں میں ،جن میں اس وقت پاکستان سرفہرست ہے، تشدد اور فساد انگیزی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ فساد نہ پھیلائیں ( لا تفسدوا فی الارض) لیکن وہ خود کو مصلح سمجھ کر ( انمانحن مصلحون)، اس میں مشغول ہیں جو منافقین کا شعار ہے ۔ہماری ان انقلابی اور جہادی جماعتوں نے جو مختلف ممالک میں انقلابی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اسلام اور مسلمانوں کے مسائل میںدن رات مزید اضا فہ کر رہی ہیں۔انہوں نے دنیا کے سامنے اسلام کو امن کا نہیں بل کہ تخریب کا علم بردار بنا کر پیش کیا ہے۔ ان کی کوششیں موجودہ دور میں بالکل برعکس نتیجہ پیدا کرنے والی ثابت ہوئی ہیں۔ان انقلابی جماعتوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کے پر امن ذرائع میسر تھے لیکن انہوں نے اس کی ناقدری کرتے ہوئے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور جس کے نتیجے میں مواقع کار کی بربادی کے ساتھ ان کے مسائل اور مصائب میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس طرح میرے خیال میں ان انقلابی جماعتوں میں سے اکثر پر قرآن کی یہ آیت صادق آتی ہے کہ:” اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس فراغت کے ساتھ ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو ان کے کرتوتوں کا بدلہ تھا۔“( النحل: ۱۱۲)
No comments:
Post a Comment