Friday, November 27, 2009

Islami Akhlaq ke tanazur main muslim gher muslim ta'alluqat ki tashkil

اسلامی اخلاق کے تناظر میں مسلم غیر مسلم تعلقات کی تشکیل
مسلم غیرمسلم تعلقات کے حوالے سے اسلامی اخلاق کی چار اہم بنیادیں ہیں: ۔
انسانیت عامہ کا اسلامی تصور۔
انسانی حقوق کا اسلامی تصور۔
تکثیریت کا اسلامی تصور۔
اسلام میں امن کا تصور۔
انسانیت عامہ کا اسلامی تصور:۔
اسلام کے انسانیت عامہ کی بنیاد تین اصولوں پر ہے:(۱)وحدت (۲) کرامت (۳) مساوات۔ قرآن میں تکرار کے ساتھ اس بات کو انسان کے ذہن نشیں کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کی اصل(۳) ایک ہے اور وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہے۔ البتہ اسے شعوب وقبائل میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ (۴) اور اس کا مقصد قرآن کے لفظ میں ”تعارف“ ہے۔ تعارف کا مطلب ہے مواسات اور ایک دوسرے کی خبرگیری کرنا۔ حدیث سے اس مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ انسان وہ ہے جو خدا کے کنبے کے ساتھ بہترین سلوک کرے (۵) گویا صورت میں متفرق بندے کو اللہ تعالیٰ دلوں میں متحد دیکھنا چاہتا ہے اور یہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کی مصلحت میں سے ہے اور انسان کے لیے ایک آزمائش ہے۔ انسان کو اس فرق وامتیاز کو تسلیم کرتے ہوئے دلوں کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیے۔
توحید انسان کی فطرت ہے اور اس کا تعلق خود خدائے واحد کی ذات وحقیقت سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا۔(۶) بہترین صورت پر پیدا کرنے کی وضاحت اس حدیث سے یہ ہوتی ہے کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ہے (۷) قرآن کے مطابق خدا نے آدم کی اپنے ہاتھ سے تخلیق کی اور اس میں اپنی روح پھونکی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پوری انسانیت اپنی صورت اور حقیقت میں خدا کی ذات کا پرتو ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اسلامی تصوف کے وجودی فلسفے میںوسیع طور پر استعمال کیا گیا ہے اور صوفیا کے بعض طبقات اور سلسلے اسے تصوف کے مغز اور روح سے تعبیر کرتے ہیں۔ حدیث میں انسان کو خدا کے اخلاق کو اختیار کرنے کی ترغیب وہدایت انسان کی اسی خصوصیت کی بناپر دی گئی ہے۔ خدائی اخلاق کے بغیر وہ خدا کی عطا کردہ خلافت کی ذ مہ داری ادا نہیں کرسکتا۔
(ب)انسانیت عامہ کی دوسری اصولی بنیاد کرامت انسانی کا قرآنی نظریہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو مکرم بنایا اور دنیا والوں پر اسے فضیلت بخشی۔ (۸) انسان اپنے اعمال سے قطع نظر خود اپنی خلقت اور ذات کی بنیاد پر بھی کرامت کا مستحق ہے۔ اسی بات کو ایک شرعی اصول کے طور پر مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین شامی نے اس طرح بیان کیا ہے کہ: الآدمی مکرم شرعا ولو کافرا(۹) رسول اللہ کی احادیث اور آپ کے عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔آپ کے سامنے سے کسی یہودی کا جنازہ بھی گزر تا تو آپ کھڑے ہوجاتے اس عمل پر صحابہ کی حیرتناکی اور سوال کا جواب آپ نے یہ دیا کہ:” کیا یہ انسان نہیں “(الیست نفساً) (۱۰) پیغمبر اسلام کا اس طرح کھڑا ہونا اسی انسانیت کے احترام میں ہوتا تھا۔
واقعاتی سطح پر انسان کی تکریم کے دو اہم پہلو ہیں:۔
ایک یہ کہ خدا نے اسے فرشتوں کا مسجود بنایا اور ابلیس کو اس سے انکار پر ابدی لعنت کا مستحق قرار دیا۔ دوسرے اسے زمین کا خلیفہ بنایا اور اسے اپنی امانت سونپی۔ اس میں پائے جانے والی فساد فی الارض اور خوں ریزی کی صفت کو، جس کا سوال فرشتوں نے خدا کے سامنے اٹھایا تھا، اسے خلافت کے منصب سے جوڑ کر دیکھے جانے کو یہ کہہ کر نظر اندازکر دیا کہ: انی اعلم مالا تعلمون(۱۱) گویا اس کے اندر بدی کی صفات اس کے اس اعزاز ( خلافت ارضی) میں حارج نہیں ہیں۔
(ج) اس کی تیسری بنیاد مساوات بین الناس پر ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الناس سواسیة کا سنان المشط ( انسان کنگھی کے دانوں کی طرح آپس میں برابر اور یکساں ہیں)اور ان العباد کلہم اخوة (اللہ کے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں)(۱۲) عالمی بھائی چارے اور مساوات بین الناس کے اس تصور میں بھی انسان کا عقیدہ شامل نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق، تاریخ میں جن انسانی جماعتوں اور قوموں: عاد،ثمود، اصحاب مدین اور قوم لوط وغیرہ کے پاس پیغمبروں کو مبعوث کیا گیا۔ قرآن میں ان پیغمبروں کو ان لوگوں کا بھائی بتایا گیا ہے۔ (۱۳) حالاں کہ ان قوموں میں سے کم یا بیش لوگ ان پیغمبروں کا انکار کرنے والے تھے۔ اسی طرح قرآن کے مطابق، پیغمبروں نے اپنے مخاطبین کو ”قومی“ کہہ کر مخاطب کیا حالاں کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد ان پر ایمان لانے والی نہیں تھی۔ ان میں کفار ومشرکین بھی شامل تھے۔ گویا خود قرآن کے مطابق ان دونوں کو ایک رشتے میں پرونے والی چیزنسلی قومیت تھی نہ کہ مذہب۔(مزید تفصیل کے لیے: متحدہ قومیت: مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ)۔
پیغمبر اسلام پوری انسانیت کے نبی تھے۔ اس لیے پوری انسانیت کے ساتھ ان کا پہلا رشتہ قومی رشتہ ہے اور اس میں تمام مسلم وغیر مسلم برابر ہیں۔ متفقہ طور پر علمائے اسلام نے اس کی تعبیر اس طرح کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے تعلق سے مسلمان امت اجابت اور غیر مسلم امت دعوت ہیں۔ غیرمسلموں کو خواہ یہ رشتہ قابل قبول نہ ہو لیکن مسلمان ان کے ساتھ دوہرا رشتہ رکھنے کے پابند ہیں۔ پہلا رشتہ رکھنا اگر انسانی ذمہ داری ہے تو دوسرا رشتہ رکھنا مذہبی ذمہ داری ۔
انسانی حقوق کا اسلامی تصور
انسانیت عامہ کے اس اسلامی تصور سے حقوق انسانی کا اسلامی تصور قائم ہوتا ہے۔ یعنی ایک شخص جو انسان ہونے میں مشترکہ انسانیت کا حصہ ہے وہ بنیادی انسانی حقوق کا بھی مستحق ہے۔ قرآن میں ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے۔ گویا ایک انسان کا وجود پوری انسانیت کا وجود ہے۔ ایک فرد کی اس یونی ورسل اہمیت کی معنویت اسی صورت میں باقی رہ سکتی ہے کہ اسے یونی ورسل حقوق بھی حاصل ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی ملک کے شہری پر شہری ہونے کا صحیح اطلاق اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسے شہری حقوق حاصل نہ ہوں۔ ہر انسان خدا کی ”یونی ورسل مملکت“ کا ایک شہری ہے اور اس لیے وہ دوسرے انسانوں کی طرح تمام انسانی حقوق کا حق دار ہے۔ وہ مذہبی حقوق ہوں، یاسماجی، سیاسی، معاشی یا اور دوسرے حقوق۔ پچھلی قوموں کے مقابلے میں رسول اللہ کے بعد اب پوری انسانیت سے ہلاکت وتباہی کا عذاب اٹھاکر اسے ایک خدائی تحفظ فراہم کردیا گیا ہے۔ خدائی تحفظ کا یہ تکوینی نقشہ اپنے آپ میں اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے انسانی اور مادی سطح پر اسی طرح برتا جائے۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ نے زمین پر جو شریعت نازل کی اس کامقصد ان پانچ بنیادی حقوق کی حفاظت ہے: (۱) حفظ نفس۔ (۲) حفظ مال۔ (۳)حفظ دین۔ (۴)حفظ عقل۔(۵) حفظ نسل۔ پانچ کی تعداد استقرائی ہے۔ تحدیدی نہیں۔علّامہ شاطبی کے بعد دوسرے علما نے ان میں اضافے کئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس ضمن میں ان تمام حقوق کو سمجھا جانا چاہیے جو ضروری اور بنیادی ہیں اور جن کا تحفظ ضروری ہے۔
مختصراً یہ تمام حقوق انسان کو اس لیے حاصل ہیں، جیسا کہ اسلامی نصوص سے اس کا تصور قائم ہوتا ہے، کہ: خدا تمام انسانوں کا خالق ہے ۔وہ انسانوں سے محبت کرتا ہے ۔تمام انسانوں کو اس نے مکرم بنایا انھیں خلافت کا اعزاز بخشا۔ تمام مذاہب میں مشترک اس زریں اصول کاکہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو کا تقاضا یہی ہے اور بجائے خود یہی بات عقل و فطرت کے مطابق ہے۔
اسلامی تکثیریت اور بقائے باہم
اسلامی تکثیریت اور بقائے باہم اسلامی عقائد وروایات کے بنیادی اقدار میں سے ہے۔ قرآن کی مختلف آیات میں اسے فطری مظہر کے طور پر پیش کیا گیا ہے: ”اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تم نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مختلف رنگتوں کے پھل نکالے اور پہاڑوں کے مختلف حصے ہیں، سفید اور سرخ کہ ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاہ اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ ان کی رنگتیں مختلف ہیں۔ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔“ (۱۴)۔
رنگ، نسل زبان، قومیت اور قبائلی شناخت کوامتیاز کی بنیاد تسلیم نہیں کیا گیا ہے بلکہ فطرت کا تقاضا سمجھ کر اسے برداشت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ صرف ایک امتیاز کو باقی رکھا گیا ہے اور وہ مذہب کا امتیاز ہے کیوں کہ انسانی اعمال کا میزان مذہب ہے۔ تاہم مذہب کے اس امتیاز کے باوجود ہر شخص کو ارادے اور عمل کی کلی آزادی دے دی گئی ہے اور مذہب کو اس کے سماجی و شہری حقوق میں حارج نہیں ہونے دیا گیا ہے۔
قرآن میں ایک واضح اصول کے طور پر کہا گیا ہے کہ دین میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے (۱۵) اور انسان کو اختیار ہے کہ وہ جو مذہب یا جو نظریہ چاہے اختیار کرے (۱۶) اس لیے کہ یہ خود اللہ کی مصلحت میں سے نہیں ہے کہ سارے لوگ ایک فکر اور ایک طریقے کے پابند ہوجائیں: اگر آپ کا رب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ ایمان قبول کرلیتے۔ کیا لوگوں کو مومن بنانے کے لیے آپ ان کے ساتھ زبردستی کریں گے۔“ دوسری جگہ کہا گیا ہے: ”اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو صرف ایک امت بنادیتا۔ “(۱۷) ”اللہ نے ہی تمہاری تخلیق کی ہے تو تم میں کچھ لوگ مومن ہیں اور کچھ لوگ منکر“۔ اس طرح مومن کے ساتھ منکر ہونے کو ایک ابدی اور فطری حقیقت کے طور پر خود قرآن میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر قوم کا مزاج، ماحول، فطری صلاحیتیں، اس کے لیے رد وقبول کے امکانات الگ الگ ہیں۔ اس لیے قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے ایک ”شرعة“ اور ”منہاج“ مقرر کیا ہے۔ دین اور اعمال دونوں کو فرد کے اپنے انتخاب پر چھوڑنے کی واضح ہدایت قرآن میں اسی لیے دی گئی ہے (جیسا کہ ”لکم دینکم ولی دین“ اور ”لنا اعمالنا ولکم اعمالکم“ سے ظاہر ہے) کہ انسان کی اصل توجہ معاشرے کے اجتماعی خیر وفلاح، عدل و احسان، قرابت داروں اور پڑوسیوں کے حقوق بہم پہنچانے، غلط اور ناشائستہ حرکتوں سے اور ظلم وسرکشی سے اجتناب اور دوسروں کو اس سے باز رکھنے کے تصورات پر مرکوز رہے۔ قرآن میں کہا گیا کہ کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو،(۱۸) انصاف کرو اور یہ کہ: ”عدل کے معاملے میں اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو“۔
پیغمبر اسلام نے مدینے میں جو پہلی اسلامی ریاست تشکیل کی اس میں تہذیبی تعدد، تکثیریت اور بقائے باہم کو بنیادی اصول کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ میثاق مدینہ اس اسلامی ریاست اور اسلامی تاریخ کا پہلا تحریری معاہدہ یا دستور تھا۔ اور اس دستور میں اسلام کے تکثیری اصول اور نظریے کو عملی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق، مدینہ کے تمام مسلم وغیر مسلم شہریوں کو، جو اس معاہدے کے پابند تھے، یکساں حقوق حاصل تھے۔ معاہدے میں مسلمان یہود اور مشرکین تمام کو ایک امت کی حیثیت دی گئی تھی۔ اس کی ایک شق میں یہ واضح الفاظ تھے کہ: للمسلمین دینہم وللیہود دینہم (۱۹) (مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین ہے اور یہودیوں کے لیے یہودیوں کا دین) قرآن کے واضح اعلان کے بعد کہ عیسائی اپنے معاملات کا فیصلہ خود انجیل کے مطابق کریں۔ رسول اللہ غیر مسلمین کی خود مختارانہ حیثیت کو محدود یا ختم نہیں کرسکتے تھے۔
قرآن میں عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے مسجد سے پہلے چرچ اورسینے گاگ کا ذکر کیا گیا ہے” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں سے ایک دوسرے کے ذریعہ دفاع نہ کرتا تو عیسائیوں کی خانقاہیں، گرجے، یہودیوں کے سینے گاگ اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر ہوتا ہے۔“(۱۹)۔
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلمین جن میں اہل کتاب اور دوسرے غیر مسلم بھی شامل ہیں، کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اپنے نظام فطرت کے تحت لے رکھا ہے۔ اس کی وجہ آیت کے مطابق، ظاہر ہے، یہ ہے کہ اس میں کثرت سے خدا کا ذکر ہوتا ہے۔مذہبی تکثیریت پر یہ آیت سب سے واضح دلیل ہے۔
رسول اللہ نے اہل نجران (دمشق) اور اہل حیرہ سے جو معاہدے کئے ان میں بھی یہاں کے غیر مسلم باشندوں کوہر طرح کی مذہبی ، معاشی اورسماجی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ رسول اللہ کے بعد صحابہ اسی طرز پر عامل رہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل فلسطین کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس میں بھی غیر مسلموں کو مکمل خود مختاری دی گئی۔ بعد کی تاریخ میں بھی اس کی واضح نشانیاں موجود ہیں، البتہ اہل ذمہ کے تعلق سے فقہا کے ایک طبقے کی طرف سے جو افراط و تفریط کی شکلیں سامنے آئیں انہیں اسلامی اخلاق کا نمونہ قرارنہیں دیا جا سکتا۔تاہم مسلم حکمرانوں کا مجموعی طرز عمل غیر مسلم رعایا کے ساتھ بہتر تھا۔
برنارڈ لیوس جو یہودی ہیں اور اپنے مسلم مخالف نقطہ نظر کے لیے مشہور ہیں۔لکھتے ہیں:۔
'' Religious persecution of the members of other faiths was almost absent. Jews and Christians under Muslim rule were not subject to exile, apostasy or death which was the choice offered to Muslim and Jews in reconquered Spain. And Christian and Jews were not subject to any major territorial and occupational restrictions such as were the common lot of Jews in premodern Europe.''(20)
”(مسلم عہد ہائے حکومت میں) دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مذہبی بنیاد پر اذیت دینے کے واقعات بہت کم ہوئے۔ مسلم حکمرانی میں رہنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کو جلا وطنی، ترک مذہب اور ہلاکت سے دوچار نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ اسپین کی ( عیسائیوں کے ذریعہ) دوبارہ فتح کے موقع پر مسلمانوں اور یہودیوںکے ساتھ پیش آیا۔ عیسائی اوریہودی بڑی سطح پر علاقائی اور پیشہ ورانہ محدودیتوں کا شکار نہیں ہوئے جیسا کہ جدید یورپ میں عام طورپر یہودیوںکے ساتھ پیش آیا“۔
اسلام میں امن کا تصور:۔
بین مذاہبی تعلقات کے حوالے سے چوتھی اخلاقی بنیاد اسلام میں امن کا تصور ہے اسلامی اخلاقیات کے مطابق جس طرح اشیاءمیں اصل چیز اباحت ہے اسی طرح عام انسانی تعلقات میں امن۔
اسلام میں امن کا تصور اسلام کے بین اقوامی تعلقات کے معاملے سے جڑا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے بعض فقہانے اس اخلاقی بنیاد کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ فقہا نے بالکل برعکس طور پر امن کے دائمی تصور کی جگہ جنگ کے وقتی تصور کو دے دی اور دوسری قوموں کے ساتھ رجائیت کے بجائے قنوطیت پر تعلقات کی بنیاد رکھی۔ مسلم غیر مسلم تعلقات میں شروع سے یہی مسئلہ سب سے زیادہ نزاع کا باعث رہا ہے اور اس نے اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے میں بنیادی رول ادا کیا ہے۔
اسلام خود لفظ امن سے مرکب ہے۔ مسلمان ہونے کا مطلب ہے پُر امن ہونا اور دوسروں کو پُر امن رکھناا (المسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ)(۲۲) اس کے عملی اظہار کے لیے اسلام میں اس کو بنیاد بنایا گیا کہ ہر شخص ایک دوسرے کو السلام علیکم کہہ کر اس کی امن وسلامتی کی دعا کرے۔ اسلام میں جنگ خارج سے لاحق ہونے والی علت ہے نہ کہ داخل میں پائے جانی والی حقیقت۔ وہ ایک استثنا ہے نہ کہ باضابطہ حکم تقریباً اسی معنی میں فقہا نے بھی اسے ”حسن لغیرہ“ قرار دیا ہے ”حسن لوجہہ“ نہیں۔ قرآن میں صلح کو خیر کہا گیا ہے (الصلح خیر) پیغمبر اسلام نے اپنے پیرووں کو تلقین کی کہ تم دشمن کے رو برو ہونے کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے پناہ مانگو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نرمی پر جو کچھ دیتا ہے وہ سختی پر نہیںدیتا۔ نرمی کو سراپا خیر (خیر کلّہ) بتایا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ آسان انتخاب کو اختیار کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں“۔ پڑوسی سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، آپ کے بیان کے مطابق، حضرت جبریل علیہ السلام نے اتنی تاکید کی کہ انھیں لگا کہ کہیں پڑوسی کو آپ کا وارث نہ بنادیا جائے۔ پڑوسی ہونے میں بلااختلاف مسلم غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔
غلط فہمیوں کا ازالہ:۔
ان اہم نکات کے بعد جو ہمیں مسلم غیر مسلم تعلقات کی اخلاقی بنیادیں اوراقدار فراہم کرتے ہیں،ہم یہاں ان چند غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کریں گے جو نظریاتی سطح پر مسلم و غیرمسلم تعلقات کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس غلط فہمی میں مسلم غیر مسلم دونوں شریک ہیں۔ اس لیے ان دونوں کے ذہن کی صفائی ضروری ہے۔
مسلمانوں کا ایک رویہ فکری اور دوسرا جذباتی ہے۔ پہلے کا تعلق اسلامی تعلیمات واحکام سے ہے اور دوسرے کا ان کے اپنے طرز عمل سے ،جو حال کے سیاسی حالات اور ماضی کی بعض غلط روایات کی پیداوار ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سے مثلاً یہ چند زیادہ بحث ومباحثے کا موضوع ہیں: قرآن میںغیر مسلموں سے دوستی کی ممانعت، غیر مسلموں سے جہاد یا قتال، اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی قانونی یا سماجی حیثیت، ارتداد کی سزا، غیر مسلموں کی نجات کا مسئلہ وغیرہ۔
مسلمانوں کے طرز عمل سے تعلق رکھنے والی بعض چیزیں یہ ہیں: خود کو جنت کا پیدائشی مستحق سمجھنا، اسلام کے عالمی سیاسی غلبے کومقدس مشن قرار دینا اور اس کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرنا۔ غیر مسلموں کو خدا کی رحمت سے محروم اور ابدی لعنت کا مستحق سمجھنا۔سماجی تعلقات کے حوالے سے بعض دوریاں جو ثقافتی شناخت وغیرہ کے حوالے سے انھوں نے بنا رکھی ہیں۔ ان کا تعلق اسلامی احکام سے نہیں ہے اور مسلمانوں کی اکثریت انھیں ایک نقطہ نظر سے نہیں دیکھتی۔
ان تعلیمات واحکام کے تعلق سے اصولی طور پر دو باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے ایک یہ کہ ان کے مخاطب بنیادی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب ہیں اور یہ یا تو ان کے عہد کے ساتھ خاص ہے یا ان کا تعلق وقتی اور ہنگامی صورت حال سے ہے۔ جس سے الگ کرکے انھیں دیکھنا غلط نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ جن پر پیغمبر اسلام نے تبلیغ کی حجت پوری کردی تھی اور انھیں وحی کے ذریعہ دانستہ طور پر ان کے انکار کا علم ہوچکا تھا۔ دوسرے وہ رسول واصحاب رسول سے برسرجنگ تھے۔ اور انھیں وہ بنیادی حقوق بھی دینے کو تیار نہیں تھے جو فطرت اور اخلاق کا تقاضا ہیں۔ قرآن میں اسی کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔اور رسول واصحاب رسول کو اسے ختم کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
اسی طرح غیر مسلموں سے دوستی کا معاملہ ہے۔ مختلف آیات میں مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا ہے۔تاہم اس کے بالمقابل اُسی سورت( ممتحنہ) جس کی پہلی آیت میں ممانعت کا حکم ہے، کی آٹھویں اور نویں آیت میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ نے تمھیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکا ہے جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگیں لڑیںاور تمھیں وطن سے نکالا۔ یا تمھیں وطن سے نکالنے والوں کی مدد کی۔ اگر علی العموم غیر مسلموں کے ساتھ محبت وتعلق کا معاملہ صحیح نہ ہوتو پھر اس تضاد کو رفع کرنا کس طرح ممکن ہوگا کہ ایک طرف اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی جائے اور دوسری طرف ان سے محبت رکھنے کو منع کیا جائے۔ اسی طرح ارتداد کی سزا سے متعلق مسلم فکر میں اختلاف اور تفصیل ہے جس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
اندلس کی اموی، عباسی اور عثمانی اور ہندستان کی مغلیہ حکومتوں میں غیر مسلموں کو مذہبی اور سماجی حقوق حاصل تھے، اس کا اعتراف خود غیر مسلم مورخین اور اسکالرس نے کیا ہے۔استثناکو چھوڑ کر مجموعی طور پر ان مسلم حکومتوں میں غیر مسلموں کے ساتھ اکثر وہ تعصبات جوبعض فقہاءکی آرا کی شکل میں ان کتابوں میں موجود ہیں، باقی نہیں رہے تھے، جزیہ اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے، وہ رومی اور ایرانی وراثت کے طور پر پہلے سے عرب میں موجود تھی۔ چنان چہ خود لفظ جزیہ قدیم فارسی لفظ(گزیت) کی عربی شکل ہے۔(۲۳ )۔
اسلام کا دائمی قانون عہد یا معاہدہ ہے۔ اس اعتبار سے جن غیر مسلم ملکوں میں مسلمان یا مسلم ملکوں میں غیر مسلم رہ رہے ہیں، وہ ایک عملی معاہدے میں بندھے ہوئے ہیں۔ جن کی اخلاقی ودینی سطح پر پابندی لازمی ہے۔ اگر متعلقہ ملک کا قانون ان میں سے کسی کے لیے دینی یا سماجی حیثیت سے سازگار نہیں تو ان کے سامنے صرف یہ انتخاب ہے کہ وہ اس ملک سے ہجرت کرجائیں۔ معاہدے کے اقرار کے باوجود اس ملک کے خلاف سرگرم ہونا اپنے دینی حقوق کے لیے تحریکیں برپاکرنا، اخلاقاً صحیح نہیں ہے۔
جہاں تک غیر مسلموں کی نجات یا خدا کی رحمت ومغفرت کے ان کے مستحق ہونے کا معاملہ ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا عیسائیت، یہودیت مسلمانوں کو نجات کا مستحق سمجھتی ہے؟ آخرت کے حوالے سے ہر فرقے کو یہ سمجھنے کا حق ہے کہ وہ صحیح اور دوسرا غلط ہے۔ دوسری کوئی بھی شکل نفاق اور تذبذب کو جنم دینے والی ہے۔ صحیح رویہ خود کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسروں کو برداشت کرنے اور ان کے عقیدہ وعمل کے احترام کا ہے نہ کہ ان اختلافات کا سرے سے انکار کرنے یا ان کو مٹانے کا، جو بنیادی عقائد کی سطح پر مختلف قوموں کے درمیان موجود ہیں۔
باقی جس طرز عمل کا تذکرہ اوپر آیا، اس کا تعلق مسلمانوں کے ذہنی زوال اور فکری تعطل سے ہے۔ ثقافتی شناخت وغیرہ کی تعبیر مسلمانوں کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے اس کی نظریاتی بنیاد کمزور ہے بعض احادیث میں دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرنے کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے اسے اس تناظر میں دیکھنا چاہیے جب کہ ایک نئی ثقافت پروان چڑھنے کے ابتدائی مرحلے میں تھی۔ اخذورد کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کا ڈھانچہ بن کر تیار نہیں تھا۔ اس لیے پیغمبر کی زندگی کے ایک حصے میں بعض چیزوں کے تعلق سے جو سختی یا پابندی تھی وہ بعد میں ختم ہوگئی۔ ایک عالم گیر مذہب میں ثقافتی شناخت کا اعتبار ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ پوری دنیا کو ایک ثقافتی رنگ میں رنگنا سرے سے محال امر ہے ۔ موجودہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ مظاہر کی سطح پر ایسی ثقافتی شناخت کو ترک کرچکا ہے۔
غیر مسلموں کو سلام کرنا، ہدایا کا تبادلہ، ان کی تعزیت یا عیادت، ان کی ضیافت، تقریبات میں شرکت، تہواروں پر انھیں مبارکباد دینا، انھیں گواہ بنانا، ان کے برتنوں اور کپڑوں وغیرہ کا استعمال، یہ تمام بحث ومباحثے جو ہماری متاخر دور کی فقہ نے پیدا کئے، وہ عام انسانی اخلاق کے تصور سے بھی میل نہیں کھاتے کجا کہ ہم اسلام کے عالم گیر تصور اخلاق کے فریم ورک میں رکھ کر اس کی تردید کریں۔(۲۴)۔
یہ عہد وسطیٰ کے اس ماحول کی پیداوار ہے جب فقہ کو اسلامی سماج کے بعض طبقات نے ایک پیشے کی شکل میںاختیار کرلیا تھا (۲۵) اور اس پر تکنیکیت کا رنگ غالب آگیا تھا۔ لیکن بہرحال عہد وسطی کی باقیات کی شکل میں یہ ایک اہم چیلنج ہے کیوں کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کا ذہن بلاشبہ اس سے متاثر ہے۔
مسلم غیر مسلم تعلقات کے لیے ہم اسلام کے جس کی بات کررہے ہیں، اس کے بغیر مسلم غیر مسلم تعلقات کے مطلوبہ تصور کو عملی شکل دینا ممکن نہیں ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے سامنے بڑا چیلنج اصلاً نظریاتی ہے۔ اس نظریاتی چلینج کے جواب کے لیے اسلامی فکر کی تشکیل جدید ضروری ہے جس کی اصولی بنیاد اسلام کا وسیع اخلاقی تصور ہو اور وہ اجتہادی طریقہ کار کے ذریعہ عمل میں آئے۔یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ وہ شروع بھی ہوچکا ہے اگر چہ موجودہ سیاسی ماحول اس کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اس وقت اس کی جس قدر شدید ضرورت ہے، اتنا ہی وہ مشکل بھی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کا ذہن ما بعد استعماریت کا شکار ہے۔ دوبارہ غور و خوض اوراصلاح کے عنوان سے بعض اسلامی نظریات میں نظرثانی کی جو تحریک مغرب خصوصاً امریکا میں اس وقت زور وشور کے ساتھ چل رہی ہے وہ امریکی حکومت کی جارحانہ سیاست کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کی فکری اصلاح ایک داخلی معاملہ ہے اسے خارج سے مسلط نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے رویہ ترک کرکے رویہ اختیار کیا جانا چاہیے اور کنونسنگ کا عمل فریق ثانی کے ایسے معتبر دینی و سماجی حلقوںکی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں جن پر مسلمانوں کی با شعور اکثریت اعتماد کرتی ہو۔ضرورت یہ ہے کہ یہ کام مسلمانوں کے سنجیدہ دانش ور طبقے کے داعیے کی بنیاد پر ہو۔ بنیادی کوشش اس داعیے کو پیدا کرنے کی کی جانی چاہیے۔
ڈائلاگ:۔
اسلامی اخلاق کے تناظر میں بین مذاہبی تعلقات کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی چیز ڈائلاگ ہے۔ اسلامی فکر کی تشکیل یک طرفہ عمل ہے۔ اسے مسلم اہل فکر اور علماکو کرنا چاہیے جبکہ ڈائلاگ ایک دو طرفہ عمل ہے اور وہ دونوں فریقوں کے مخصوص طبقات تک بھی محدود نہیں۔ مختلف سیاسی، سماجی اور دینی میدانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان ڈائلاگ ہوسکتا ہے۔اسلامی فکر کی تشکیل جدید میں بھی ڈائلاگ ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈائلاگ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ اسے کسی خاص ماحول اور پس منظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، جیسا کہ آج دیکھا جارہا ہے۔ ہمیں ڈائلاگ کی ضرورت اس وقت اتنی شدت سے صرف اس لیے معلوم نہیں ہورہی ہے کہ موجودہ گلوبل ویلج میں ہمیں تہذیبی تصادم کے آثار نظر آرہے ہیں، جن کو ختم کرنا ضروری ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ ماضی میں یہ کام نہیں ہوا۔ ڈائلاگ کا اہم مقصد ایک دوسرے کو اچھی طرح جاننا ہے جس میں خاص طور پر دوسرے کی تہذیب وعقائد سے واقفیت ہے۔ ماضی میں اس کے دو ذریعے تھے: (۱) مناظرانہ بحث و مباحثے (۲)اوراپنے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے کے مذہب کو اختیار کرنے والے لوگ یہ دونوں ہی ذریعے مثبت اور سنجیدہ نہیں تھے۔ پہلے کی وجہ تو ظاہر ہے دوسرے کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنے مذہب کو ترک کر کے دوسرے مذہب کو اختیا کرتا ہے تو فطری طورپر اس کا ذہن پہلے مذہب کی صرف خامیوںپر مرتکز ہوتا ہے۔
دوسرے اس کا رخ مشنری عمل پر مبنی تھا، یعنی یہ کہ ہم کس طرح دوسرے کو اپنے مذہب کی طرف راغب کر لیں اور اسے اپنے دائرے میں شامل کرلیں حالاں کہ ڈائلاگ کے عمل کو اس سے وسیع اور مذہب کے بجائے انسانی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ یہ انسانی بنیادیں وہ اخلاقی و انسانی اقدارہوں جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں۔ ڈائلاگ قرآن کے مطابق، ایک اسلامی فریضہ ہے۔ قرآن کی تیسری سورت میں باضابطہ اس کا حکم دیا گیاہے(۲۶)مسلم ذہن میں اس کے تئیں جو رکاوٹ ہے اس میں بنیادی دخل عالمی سیاسی حالات کا ہے جس کی زد میں پوری دنیا کے مسلمان ہیں ۔ ڈائلاگ کا عمل صرف ایک شکل میں جاری رہ سکتا ہے اور وہ شکل یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے سامنے ایک مشترکہ ہدف ہو جسے دونوں فریقوں کی طرف سے پانے کی کوشش کی جائے۔ ہم نے اس مشترکہ ہدف کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ورنہ ہم مستقل اس سوال کا جواب ڈھونڈنے اور پانے کی کوشش کرتے کہ کیا ہم نے و ہ مشترکہ ہدف حاصل کرلیااور اس طرح متحرک رہتے۔ موجودہ ماحول میں ہمیں اس کے لیے جتنی چیزیں آگے لے جانے والی ہیں، اس سے کچھ کم پیچھے کھینچنے والی نہیں ہیں۔
کسی نے کہا ہے کہ:۔
The earth can not be changed for the better unless the consciousness of individuals changes first
ڈائلاگ میں مشغول فریقوں کی یہ ذہنی تبدیلی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ دونوں اصولی طور پر یہ احساس رکھتے ہوں کہ(مذہبی عقائد ونظریات سے قطع نظر) ہم ایک حد تک غلط اور دوسرا فریق ایک حد تک صحیح بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بات کہ ہم سو فیصد صحیح ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرافریق سو فیصد غلط ہے۔ ڈائلاگ ہمیشہ اپنے آئیڈیل سے سمجھوتہ کرنے، دوسرے سے متعلق اپنی معلومات پر نظرثانی کرنے اور دوسرے کو خود اس کے ذہن سے اس کے اصول و ضوابط کی بنیاد پر سمجھنے کا نام ہے نہ کہ اپنے اصول و ضوابط کی بنیاد پر۔
حواشی
(۱)فتح الباری۱/۱۷۲(۲)مسلم کتاب الایمان،فتح الباری ۱/۷۱(۳)النسائ: ۱(۴)الحجرات: ۱۳(۵)بیہقی(۶)التین: ۴(۷)بخاری کتاب الاستیذان(۸)بنی اسرائیل: ۷۰(۸)در مختار(۱۰)فتح الباری ۳/۲۲۱(۱۱)البقرہ: ۳۰(۱۲)ابو داﺅد ۔ ترمذی(۱۳)الاعراف : ۸۴،۷۳، ۶۵ وغیرہ(۱۴)فاطر: ۲۷(۱۵)البقرہ : ۲۵۶(۱۶)الکہف : ۲۹(۱۷)المائدہ: ۴۸(۱۸)المائدہ: ۸(۱۹)سیرت ابن ہشام ۔ اس سے پہلے کا جملہ یہ ہے کہ یہود بنی عوف اور ان کے اعوان و انصار مومنین ہی کی ایک امت شمار ہوںگے۔( و ان یہود بنی عوف و موالیہم و انفسہم امة من المومنین) ص ۲۰۴(۲۰)الحج: ۴۰(۲۱)برنارڈ لیوس:۔
The jews of Islam P-8 quoted by Adnan Aslan in Religious pluralism in christian and islamic philosophy-p-191
(۲۲)نسائی(۲۳)مقالات شبلی ج۲۲/۲۲۱(۲۴)اس موضوع پرمختلف نقطہ ہائے نظر اور تکنیکی مباحث کے لیے دیکھئے:” غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کے کچھ اہم مسائل“۔ ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی(۲۵) احیاءالعلوم ص : ۲۲/۱

No comments:

Post a Comment